Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 32
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعظیم کرے گا شَعَآئِرَ اللّٰهِ : شعائر اللہ فَاِنَّهَا : تو بیشک یہ مِنْ : سے تَقْوَي : پرہیزگاری الْقُلُوْبِ : جمع قلب (دل)
حقیقت یہ ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا احترام کرتا ہے تو وہ یا درکھے کہ یہ چیز دل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے۔
ذٰلِکَ ق وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ۔ (الحج : 32) (حقیقت یہ ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا احترام کرتا ہے تو وہ یا درکھے کہ یہ چیز دل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے۔ ) شعائر کا مفہوم اور ان کے احترام کی شرط شعائر ...... شعیرۃ بروزنِ فعیلۃ کی جمع ہے۔ اس کا معنی ہے وہ علامت جس سے کسی چیز کی پہچان ہوسکے۔ امام ابن جریر لفظ شعائر کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” وشعائر التی جعلھا امارات بین الحق والباطل “” یعنی جن چیزوں سے حق اور باطل کی شناخت ہوسکے ان کو شعائر اللہ کہتے ہیں “۔ قرآن کریم نے صفا ومروہ کو شعائر اللہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں پہاڑیاں حضرت ہاجرہ کی داستانِ ایثار کی علامت ہیں۔ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان اور ان کے گردوپیش میں ملت ابراہیمی کے حقائق پھیلے ہوئے ہیں۔ یہیں تربیت کی وہ تاریخ بھی ہے جس نے حضرت اسماعیل کو آداب فرزندی سے بہرہ ور کیا۔ یہیں مقام ابراہیم بھی ہے، یہیں بیت اللہ اور حرم میں پھیلے ہوئے اور آثار ہیں یہ سب اللہ کے شعائر ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اسلام کے حقائق کی شناخت وابستہ ہے۔ ان سب کا احترام اس لیے ضروری ہے کہ جن عظیم حقائق کی یہ علامتیں ہیں انھیں ان کی وجہ سے جلا ملتی ہے۔ البتہ ! اس احترام کے حوالے سے ایک بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ کہ چونکہ ان شعائر کا تعلق اسلام کے بنیادی حقائق سے ہے اس لیے ان کا احترام صرف الفاظ کی حد تک وہ نتائج پیدا نہیں کرتا جو اس سے مطلوب ہیں۔ اس لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ شعائر اللہ کا احترام دل و دماغ کی ہم آہنگی سے بجالایا جائے۔ ان کی صحیح تعظیم کا حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب ان کا احترام دل سے اٹھے اور اس کے نتیجے میں وہ حقیقت دل میں اتر جائے جس کی انھیں شناخت بنایا گیا ہے۔
Top