Al-Qurtubi - Al-Hajj : 32
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعظیم کرے گا شَعَآئِرَ اللّٰهِ : شعائر اللہ فَاِنَّهَا : تو بیشک یہ مِنْ : سے تَقْوَي : پرہیزگاری الْقُلُوْبِ : جمع قلب (دل)
یہ (ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلک، اس میں تین وجوہ ہیں۔ بعض نے کہا : مبتدا کی حیثیت سے محل رفع میں ہے تقدیریوں ہوگی۔ ذالک امر اللہ۔ یہ بھی جائئز ہے کہ مببتدا مخذوف کی خببر کی حیثیت سے مرفوع ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ محل نصب میں ہو یعنی اتبعوا ذالک۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن یعظم شعآئر اللہ، الشعائر جمع ہے۔ شعیرہ کی۔ ہر دو چیز جس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی امر ہو جس سے وہ جانا پہنچانا جائئے اسی سے جنگ میں قوم کا شمار ہوتا ہے، یعنی ان کی ایک علامت ہوتی ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں اسی سے اشعار البدن ہے اونٹ کی دائیں طرف میں نیزہ مارا جاتا ہے تاکہ خون ببہہ جائئے تو وہ اس کی علامت ہوتی ہے۔ یہ شعیرہ ببمعنی مشعورہ ہے۔ شعائر اللہ سے مراد اس کے دین کی علامتیں ہیں خصوصاً جو حج کے مناسک کے متعلق ہیں۔ ایک قوم نے کہا : یہاں اس سے مراد اونٹوں کو موٹا کرنا اور اس کے معاملات کا اہتمام کرنا اور ان کو موٹا کرنے میں مبالغہ کرنا ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ مجاہد اور ایک جماعت کا قول ہے (1) اس میں ایک لطیف اشارہ ہے وہ یہ ہے بعض اوقات آدمی اونٹ اس لیے خریدتا ہے کہ اس کی مجبوری ہوتی ہے وہ اخلاص پر دلالت نہیں کرتا اور جب جزا کے حصول کے لیے انہیں موٹا کرتا ہے تو اس سے شرع کی تعظیم کا عمل ظاہر ہوتا ہے یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ انھا کی ضمیر اس فعلہ کی طرف لوٹ رہی ہے جسے کلام ضمن میں لیے ہوئے ہے اگر وہ انہ فرمایا تو بھی جائز تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے ہاضمیر شعائر کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی شعائر کی تعظیم۔ مضاف کو حذف کیا گیا کیونکہ کلام اس پر دلالت کررہی ہے پس ضمیر کنایہ شعائر کی طرف راجع ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فانھا من تقویٰ القلوب۔ القلوب کو رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ اس بنا پر کہ تقویٰ مصدر کا فاعل ہے۔ تقویٰ کی نسبت قلوب کی طرف کی گئی ہے کیونکہ تقویٰ کی حقیقت دل میں ہوتی ہے، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے صحیح حدیث میں فرمایا : التقویٰ ھاھنا (2) اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : تقویٰ یہاں ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لکم فیھا منافع یعنی تمہارے لیے اونٹوں میں منافع ہیں سوار ہونا، دودھ حاصل کرنا، نسل بڑھانا، اون حاصل کرنا وغیرہ جب ان کا مالک ان کو بطور ہدی نہ بھیجے۔ جب وہ انہیں ببطور ہدی بھیجے تو اس کے لیے مدت متعین ہے ؛ یہ حضرت ابن عبب اس ؓ نے کہا ہے : جب اونٹ بطور ہدی بھی ہوجائیں تو ضرورت کے وقت ان پر سوار ہونا اور اس کے ببچے سے جو دودھ بچے اس کے لیے منافع ہیں۔ صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو اونٹ لے جاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ” اس پر سوار ہوجا “ اس نے عرض کی : حضور ! یہ بدنہ ہے۔ فرمایا : ” سوار ہوجا “ اس نے پھر کہا : حضور ! یہ بدنہ ہے۔ فرمایا : ” سوار ہوجا تیرے لیے ہلاکت ہو “ یہ دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا : (3) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے اور ہدی پر سوار ہونے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ” جب تمہیں ضرورت ہو تو معروف طریقہ پر اس سوار ہو حتیٰ کہ تم دوسری سواری پالو “ ( 1) ۔ الاجل المسیٰ سے مراد اس قول کی بنا پر ان کو نحر کرنا ہے۔ یہ عطاء بن ابی رباح کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ بعض علماء نبی کریم ﷺ کے ارشاد : ” تو اس پر سوار ہوجا “ کی وجہ سے بدنہ کی سواری کے وجوب کی طرف گئے اور جنہوں نے اس ارشاد کے ظاہر کو لیا ہے ان میں امام مالک بغیر مجبوری کے اس پر سواری نہیں کرتے حضرت جابر ؓ کی حدیث کی وجہ سے کیونکہ وہ مقید ہے اور مقید، مطلق پر غالب ہوتا ہے۔ اسی طرح امام شافعی اور امام ابوحنیفہ نے بھی کہا ہے، اور پھر جب ضرورت کی وجہ سے سوار ہوگا تو ضرورت پوری ہونے پر اتر جائے گا ؛ یہ اسماعیل قاضی کا قول ہے۔ یہی وہ بات ہے جس پر امام مالک کا مذہب دلالت کرتا ہے۔ یہ اس کے برعکس ہے جو ابن قاسم نے ذکر کیا ہے کہ اس پر اترنا لازم نہیں اور ان کی دلیل نبی کریم ﷺ کا اس کی سواری کو مباح قرار دینا ہے۔ اور سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد : اذا لئجت الیھا حتی تجد ظھرا۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کے قول کی حجت پر دلالت کرتا ہے ﷺ اور اسی طرح جو اسماعیل قاضی نے امام مالک کا مذہب بیان کیا ہے اس کی صحت پر دال ہے اور صراحۃ مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آدمی کو فرمایا : ” تو سوار ہو “ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی نے فرمایا : مباح سوار ہونا بھی اس کی کمی و نقصان کا باعث ہو تو اس پر اس کی قیمت ہے اور اسے صدقہ کرے۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم محلھا الی البیت العتیق۔ یعنی وہ بیت اللہ تک پہنچ جائے اور وہ طواف ہے پس محلھا بہ محرم کے احرام اتارنے سے ماخوذ ہے معنی یہ ہے کہ حج کے تمام شعائر وقوف عرفہ، رمی جمار، سعی، بیت اللہ کے طواف افاضہ پر ختم ہوتے ہیں۔ اس تاویل پر بیت سے مراد بیت اللہ ہی ہے ؛ یہ امام مالک مؤطا میں کہا ہے۔ عطا نے کہا : مکہ تک پہنچ جائے۔ اس ببناء پر شعائر سے مراد بدن (اونٹ) ہیں۔ شعائر کے متعلق عموم کے قول ہوتے ہوئے تخصیص کی کوئی وجہ نہیں اور بیت اللہ کا ذکر خصوصیت کو لغو کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
Top