Tafseer-e-Haqqani - Al-Hajj : 32
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعظیم کرے گا شَعَآئِرَ اللّٰهِ : شعائر اللہ فَاِنَّهَا : تو بیشک یہ مِنْ : سے تَقْوَي : پرہیزگاری الْقُلُوْبِ : جمع قلب (دل)
بات یہ ہے اور جو کوئی اللہ کے شعائر 1 ؎ کی حرمت مانتا ہے سو یہ دل کی پرہیز گاری ہے۔
1 ؎۔ شعائر جمع شعیرۃ اوشاعرۃ بالکسر ومنہ شعار القوم اے علامتھم فی الحرب فشعائر اللہ اعلام دینیہ۔ 12 منہ۔ شعائر علامات اور نشان جو امتیاز کے لیے ہر قوم اور ہر شخص کے لیے مخصوص ہوتے ہیں خدا کے شعائر اس کے وہ عبادت کے خاص دستورات جو اس نے فرمانبردار قوم کے امتیاز کے لیے مقرر کردیے ہیں ان کی پابندی دلی پرہیز گاری ہے۔ قومی اور ملکی نشانوں کو ہلکا جان کر ترک کرنا ایک طرح کا فسق اور بدکاری ہے کس لیے کہ ان کے ترک کرنے سے قوم قوم نہیں رہتی شیرازہ قائم نہیں رہتا بعض بےباک طبائع ان کو فضول جانتی ہیں اور کہتی ہیں کہ دل میں خدا پرستی ہونی چاہیے اس کو جواب میں فرمایا کہ یہ بھی دلی پرہیزگاری سے متعلق ہے اس کی منافی نہیں اس جگہ شعائر سے مراد حکام حج ہیں۔ قربانی کرنا ‘ طواف کرنا ‘ احرام باندھنا ‘ حرم و احرام میں شکار نہ کھیلنا ‘ سرمنڈانا ‘ عورتوں سے صحبت کرنے سے جدا رہنا۔ اس لیے بعض علماء نے اس کو ہدی لینے قربانی سے تعبیر کیا ہے۔
Top