Tafseer-e-Madani - Al-Hajj : 32
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعظیم کرے گا شَعَآئِرَ اللّٰهِ : شعائر اللہ فَاِنَّهَا : تو بیشک یہ مِنْ : سے تَقْوَي : پرہیزگاری الْقُلُوْبِ : جمع قلب (دل)
یہ بات بھی بطور ایک قاعدہ کلیہ کے ہوچکی اور مزید سنو کہ جس نے تعظیم و تکریم کی اللہ کے مقررہ کردہ شعائر اور اس کی قائم فرمودہ یادگاروں کی تو یقینا یہ بات دلوں کے تقوی میں سے ہے۔
67 " شعائر اللہ " کا مفہوم اور اس سے مراد ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا " جس نے تعظیم کی اللہ کے شعائر کی " یعنی ایسی مقدس یادگاروں کی جو ایک طرف تو اس وحدہ لاشریک کی عظمت شان اور جلالت قدر کا پتہ دیتی ہیں اور دوسری طرف وہ اس کے بندوں کو اپنے خالق ومالک کے حضور صدق و اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ جھک جانے کا درس دیتی ہیں۔ " شعائر "، " شعیرہ " یا " شعارہ " کی جمع ہے۔ (الجمل وغیرہ) جس کے معنیٰ علامت اور نشانی کے آتے ہیں۔ اور شعائر اللہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کے کرنے اور بجالانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہو اور اس سے اس نے اپنے بندوں کو باخبر کردیا ہو۔ (صفوۃ البیان فی معانی القرآن) ۔ سو دین حق کے وہ تمام احکام جو اس کے لئے علامت کی حیثیت رکھتے ہوں " شعائر اللہ " میں داخل ہیں۔ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اسی طرح بجا لایا جائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہو۔ (صفوۃ البیان، معارف القرآن، فتح القدیر وغیرہ) ۔ اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں نے اپنی معروف ذہنیت کے مطابق یہاں پر اس طرح گوہر افشانی کی ہے کہ " بزرگوں کی قبریں بھی شعائر اللہ ہیں " حالانکہ پیغمبر۔ (علیہ الصلوۃ والسلام) ۔ نے قبروں کو پکا کرنے اور ان پر عمارت بنانے سے صاف وصریح طور پر منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت جابر۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قبر کو پکارنے، اس پر بیٹھنے اور میلہ لگانے اور اس پر عمارت کھڑی کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ " نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسََلَّم اَنْ یُّجَصَّصَ الْقَبْرُ وَاَنْ یُّقْعَدَ عَلَیْہِ وَاَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ " ۔ ( رواہ مسلم، مشکوۃ، باب دفن المیت، فصل اول) ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ۔ ؓ ۔ کو اس مہم پر اور اس کام کے لئے بھیجا کہ جو بھی کوئی مجسمہ اور مورتی تم دیکھو اسے مٹا دو اور جو بھی کوئی اونچی قبر تمہیں نظر آئے اس کو زمین کے برابر کردو۔ (نفس المرجع) ۔ سبحان اللہ ۔ کہاں یہ حقیقت کہ اللہ کے رسول ﷺ قبر کو پکا کرنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع فرما رہے ہیں۔ اور شیر خدا علی مرتضٰی ۔ ؓ ۔ کو باقاعدہ طور پر اس مہم پر بھیجتے ہیں کہ جو بھی کوئی اونچی قبر پاؤ اس کو زمین کے برابر کردو۔ اور کہاں اہل بدعت کے یہ تحریف پسند ہیں کہ ان بنی ٹھنی قبروں اور طرح طرح کے جبوں قبوں کو جہاں کہ نت نئے طریقوں سے شرک و بدعت کے کاروبار چلائے جاتے ہیں اور طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور شعائر اللہ میں سے مان کر اور ان کی تعظیم کو دین کا تقاضا قرار دے رہے ہیں۔ اور پھر بھی دعویٰ ہے اہل سنت اور عاشق رسول ہونے کا اور اپنی ایسی من گھڑت باتوں کو قرآن پاک کی تفسیر کے نام سے اس کے حواشی پر لکھنے کی جرأت و جسارت کرتے ہیں۔ سو اس سے بڑھ کر سینہ زوری اور کتاب اللہ کی معنوی تحریف کی صاف وصریح مثال اور کیا ہوسکتی ہے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ وبِہٖ نَسْتَعِیْنُ وَاِلَیْہِ الْمُشْتَکٰی جَلَّ و علا وہو الہادی الی سواء السبیل وبیدہ ازمۃ الہدایۃ والتوفیق ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ 68 تقویٰ اور پرہیزگاری کا اصل تعلق دل سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جس نے اللہ کے شعائر کی تعظیم کی تو [ وہ مراد کو پہنچ گیا کہ ] یقینا یہ بات دلوں کے تقویٰ میں سے ہے "۔ یہاں پر تقویٰ کو دلوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ تقویٰ و پرہیزگاری اور فسق و فجور کا اصل تعلق سلطنتِ دل ہی سے ہوتا ہے کہ جسم و جان کا اصل حاکم و بادشاہ تو دل ہی ہے۔ اعضاء وجوارح تو اس کے کارندے اور اس کے امر و ارشاد کے تابع ہیں۔ اگر سلطنتِ دل پر قبضہ و غلبہ تقویٰ و پرہیزگاری اور خوف و خشیت خداوندی کا ہوگا تو ظاہری اعضا وجوارح بھی یقیناً اپنے خالق ومالک کے حضور جھکے ہوئے اور خشوع و خضوع کا مظہر بنے رہیں گے۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا ۔ والعیاذ باللہ ۔ تو انسان کے ظاہر پر بھی اسی کے آثار و نتائج نمایاں ہوں گے۔ اسی حقیقت کے اظہار وبیان اور تشریح و توضیح کے لئے نبی اکرم ﷺ نے اپنے سینہ مبارکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ ارشاد فرمایا ۔ " التقْوٰی ہٰہُنَا، التقْوٰی ہٰہُنَا، التقْوٰی ہٰہُنَا " ۔ " تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے " ۔ صَلَوَات اللّٰہِ وسَلَامُہُ عَلَیْہِ ۔ اَللّٰہُمَّ عَمِّرْ قُلُوْبَنَا بَخَشْیَتِکَ وَتَقْوَاکَ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی ۔ اَللّٰہُمَّ نَحْنُ رَاضُوْنَ عَنْکَ مِنْ أعْمَاقِ قُلُوْبِنَا فَارْضَ عَنَّا بِمَحْضِ مَنِّکَ وَکَرَمِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔ فَاِنَّ رَضَاکَ ہُوَ ہَدَفُنَا وَغَایَۃُ جُہْدِنَا الْقُصْوٰی ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم و تکریم کا تعلق دل کے تقویٰ اور پرہیزگاری سے ہے۔ سو " شعائر " کی تعظیم کا حق محض ظاہر داری سے ادا نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے دل کا تقویٰ مطلوب ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top