Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 32
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعظیم کرے گا شَعَآئِرَ اللّٰهِ : شعائر اللہ فَاِنَّهَا : تو بیشک یہ مِنْ : سے تَقْوَي : پرہیزگاری الْقُلُوْبِ : جمع قلب (دل)
جس کسی نے اللہ کی نشانیوں کی عظمت مانی تو اس نے ایسی بات مانی جو دلوں کی پرہیزگاری کی باتوں میں سے ہے
شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کے تقوی کی نشانی ہے : 32۔ شعائر اللہ کیا ہیں ؟ وہ جو گزشتہ آیت 30 میں (حرمات اللہ) سے تعبیر ہوئے ہیں اور انہی کو اس جگہ شعائر اللہ فرمایا گیا ہے شعائر شعیرہ کی جمع ہے بروزن فعیلہ اس کے معنی ہیں ہر وہ شے کہ جو کسی چیز کا نشان مقرر ہو یا جو کسی علامت کو بتائے اسے شعیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ (کبیر ج 3 ص 353 مصر) ” شعائر اللہ “ اللہ کی نشانیاں ‘ اللہ کے نام کی چیزیں یا وہ چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے نشان بندگی ٹھہرایا ہے (اشعار بدن) کے معنی یہ ہیں کہ تم اس جانور پر ایسی نشانی مقرر کر دو جس سے یہ پتہ چلے کہ یہ جانور قربانی کا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس کو نشان زدہ کرکے چھوڑ دو کہ وہ جہاں چاہے چرتا ‘ چگتا اور لوگوں کی فصلوں کو برباد کرتا پھرے ۔ (شعائر) مناسک حج کی تمام علامات کا نام ہے جن میں رمی جمار ‘ سعی بین الصفا والمروہ ‘ قربانی کا جانور وغیرہ ہیں اور تعظیم کا مطلب ان کی حفاظت کرنا اور طریقہ کے مطابق ادا کرنا ہے اس طرح قربانی کے جانور کا فربہ اور عمدہ ہونا بھی بیان کیا گیا ہے اور اس کی تفصیل پیچھے سورة المائدہ کی آیت 2 میں گزر چکی ہے بلکہ سورة البقرہ کی آیت 158 میں بھی اس کا بیان آچکا ہے ۔ (شعائر اللہ) وہی ہیں جو دین اسلام میں واضح کئے جا چکے ہیں مثلا بیت اللہ اور بیت اللہ کے ضمن میں دنیا جہان کی ساری مسجدیں اور معبد آگئے خواہ وہ کہیں ہیں لیکن اس کے باوجود جو شعائر بیت اللہ کے ساتھ خاص ہیں وہ کسی دوسری جگہ ادا نہیں کئے جاسکتے ۔ مثلا بیت اللہ کا طواف ہے لیکن باوجود اس کے کہ مسجد کو ہم بیت اللہ کہہ دیتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں لیکن طواف کسی مسجد کا نہیں کرسکتے گویا مطاف پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک ہے اگر کوئی دوسری جگہ کو مطاف بنا کر اس کے اردگرد چکر لگائے گا خواہ وہ جگہ کوئی مسجد ہی کیوں نہ ہو تو وہ مستوجب سزا ہوگا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کے شرک پسندوں نے شعائر اللہ کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے پہلے انہوں نے مدینہ طیبہ کی گلیوں کو چوں کو شعائر اللہ میں شمار کیا اور قوم کو خاموش پاکر اولیائیکرام (علیہ السلام) کے مزار ‘ روضے بنائے اور ان کو شعائر اللہ قرار دیا اور اب جس کا جی چاہا اس نے اپنے بزرگوں اور اپنے باپ دادوں کو ولی بنایا اور ان کی قبروں کو پکا کر کے روضے تعمیر کرنے شروع کردیئے اور ان کو شعائر اللہ کہنے لگے اور بدلتے ہوئے اب گھوڑے ‘ لٹ علی شاہ ‘ جھاڑے شاہ ‘ نوشاہ ‘ ڈوڈے شاہ اور گراں دتا جیسے رند اور مرفوع القلم لوگوں کی قبروں پر روضے بنا کر ان کو شعائر اللہ بنایا اور پوجنا شروع کردیا اور ان کے علمائے کرام نے ان کو اسی زیر نظر آیت اور اسی جیسی دوسری آیتوں سے سند جواز بھی پیش کردی اور آج اپنی تفسیروں میں وہ وہ خرافات بھر دیئے کہ ان کو پڑھ کر ایک مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس طرح بڑے محتاط انداز سے ان کے بہتر لوگوں کو بھی ان کی ترجمانی کرنی پڑی اور لکھا کہ ” اولیائے کرام اور ان کے مزارات پر انوار کیوں ” شعائر اللہ “ میں داخل نہیں ۔ “ (ضیاء القرآن) گویا عیسائیوں کی نقل میں وہی کام کیا جو انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے بعد احبارو رہبان کے ساتھ کیا تھا اور وہ ایسا کرنے کے باعث مشرک قرار دیئے گئے تھے اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ دے اور مسلمانوں کو ان کے اس شر سے بچائے ۔ رہے اولیائے اللہ کے مزارات تو وہ اسلامی حکومت کا فرض ہے ان میں سے ایک ایک مسمار کرا کر ان جگہوں پر اسلامی درسگاہیں قائم کردے اور ان شرک کے اڈوں سے اس ملک کو نجات دلوائے اور ان اولیائے کرام کی توہین سے بچا کر اسلام پسندی کا مظاہرہ کرے ۔ اے اللہ تو احکم الحاکمین ہے اپنے کسی بندہ کو توفیق فرما دے کہ وہ اس شرک کی لعنت سے اس مالک کے باشندوں کو نکال باہر کرے کہ توفیق وقدرت تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔
Top