Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 38
اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۠   ۧ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُدٰفِعُ : دور کرتا ہے عَنِ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : کسی خَوَّانٍ : دغاباز كَفُوْرٍ : ناشکرا
یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں۔ یقینا اللہ کسی خائن کافر نعمت کو پسند نہیں کرتا
ان اللہ ……عاقبۃ الامور (41) اس کرہ ارض پر شر کی قوتیں ہر وقت کام کرتی ہیں ، خیر و شر اور ہدایت و ضلالت کے درمیان معرکہ ہر وقت برپا رہتا ہے اور یہ معرکہ اس وقت سے قائم ہے جب سے اللہ نے اس کرہ ارض پر انسان کو پیدا کر کے بھیجا ہے۔ شرہمیشہ سرکش ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ قوت اور اسلحہ سے لیس ہوتا ہے۔ شر کی گرفت بےرحمانہ ہوتی ہے اور اس کی مار بےترسی سے ہوتی یہ۔ اگر اللہ کے کچھ بندوں کو راہ ہدایت معلوم ہوجائے تو وہ ان کی راہ روکتا ہے اور ان کو حق سے دور ہٹاتا ہے ، اگر کسی کا دل حق کے لئے کھل جائے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایمان ، حق اور بھلائی کی پشت پر بھی قوت ہو ، تاکہ باطل کی پکڑ ، سرکشی ، فتنے اور زیادتی سے اسے روکا جاسکے اور حق کو دشمنوں اور سختیوں سے بچایا جائے۔ اللہ کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایمان ، بھلائی اور سچائی کو اس طرح کمزور چھوڑ دیا جائے کہ وہ میدان میں باطل کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس سلسلہ میں اہل حق کے دلوں میں پائیج انے والی قوت ایمانی پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کیا جاتا ہے اور انسانی فطرت اور انسانی ضمیر میں حق کے ولولہ سے کام لیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر باطل قوتوں کے مقابلے میں حق کی کوئی قوت نہ ہو تو اہل حق اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان کے قدم ڈگمگا سکتے ہیں۔ اہل حق کی فطرت کو بھی بگاڑا جاسکتا ہے۔ کیونکہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور مصائب برداشت کرنے کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے اور ایک حد پر جا کر انسانی قوتیں جواب دے دیتی ہیں۔ اللہ لوگوں کے قلوب و نفوس کو اچھی طرح جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں چاہا کہ اہل ایمان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزمائش میں ڈال دیا جائے۔ ہاں اس حد تک قوت کے استعمال سے روکا جاسکتا ہے کہ جب وہ مقابلے کی تیاری کر رہے ہوں۔ دفاع کی تیاریاں ہو رہی ہوں اور وسائل جہاد جمع کئے جا رہے ہوں جب وہ یہ کام کر چکیں تو پھر ان کو قتال کی اجازت ہے تاکہ وہ اہل کفر کی دست درازیوں کا رد کرسکیں۔ اذن قتال دینے سے قبل اللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں کہ وہ خود اہل ایمان کی طرف سے دفاع کرتے ہیں اور یہ کہ اللہ ان کی نصرت اور تعاون پر قدرت رکھتے ہیں۔ ان اللہ یدفع عن الذین امنوا (22 : 38) ” یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں۔ “ اللہ اہل ایمان کے دشمنوں کو پسند نہیں کرتا کیونکہ انہوں نے حق کا انکار کیا ہے اور وہ خائن بھی ہیں۔ لہٰذا یقینا ان کو رسوا کر کے رہے گا۔ ان اللہ لایحب کل خوان کفور (22 : 38) ” بیشک اللہ کسی خائن اور کفران نعمت کرنے الے کو پسند نہیں کرتا۔ “ اللہ نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق پہنچتا ہے ، ان کا موقف درست ہے ، آداب جنگ کے اعتبار سے بھی کیونکہ وہ مظلوم ہیں ، وہ جارحیت کے مرتکب ہرگز نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ سرکشی کرنے الے ہیں۔ اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا (22 : 39) ” اجازت دے دی گئی ہے ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے ، کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ “ ان کو چاہئے کہ وہ اللہ کی اس حمایت پر مطمئن ہوجائیں۔ اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ وان اللہ علی نصر ھم لقدیر (22 : 39) ” اور اللہ یقینا کی مدد پر قادر ہے۔ “ ان کو اس معرکہ آرائی کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ وہ پوری انسانیت کے لئے اس عظیم مہم میں کود رہے ہیں ، اس مہم کے نتائج صرف انہی کے لئے مفید نہ ہوں گے ، بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے مفید ہوں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایمان اور نظریات کی آزادی کے بنیادی حقوق قائم ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی جواز فراہم کرتی ہے کہ ان کو اپنے گھروں اور اپنے ملک سے بغیر کسی جواز کے نکالا گیا ہے۔ الذین اخرجوا من دیار ھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا لالہ (22 : 30) ” یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ “ حالانکہ یہ بہت ہی سچی بات تھی جو کبھی کہی جاسکتی ہے۔ یہ اس بات کی نہایت ہی مستحق تھی کہ اسے بار بار دہرایا جائے۔ جب اس بات کی وجہ سے ان لوگوں کا اخراج عمل میں آیا تو یہ کھلی سرکشی اور ظلم تھا اور اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ مظلوموں کی جانب سے کوئی ذاتی دشمنی کسی کے ساتھ نہ تھی ، محض ان کا نظریہ ہی تھا جس کی وجہ سے ان کو نکال دیا گیا۔ اس کشمکش میں اس دنیا کے مفادات میں سے بھی کسی مفاد کا دخل نہ تھا کہ کوئی مفادات ، خواہشات یا کسی طمع و لالچ کا بہانہ کرسکے۔ یا ہمدردیں اور کسی اور ذاتی پسند و ناپسند کا بہانہ بنایا جاسکے۔ یہ صرف نظریاتی جنگ تھی۔ پھر یہ بھی ایک عمومی اصول ہے کہ کسی بھی نظریہ کے لئے قوت مدافعت کی بےحد ضرورت ہوتی ہے۔ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوت و مسجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیراً (22 : 30) ” اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجے اور معبد اور مسجدیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ “ صومعہ عبادت کی اس جگہ کو کہا جاتا ہے ، جہاں راہب عبادت کرتے ہیں۔ بیع نصاریٰ کی عبادت گاہ ہے۔ یہ صومعہ سے زیادہ وسیع ہوتی ہے۔ صلوت یہودیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں۔ مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ مقامات اللہ کی عبادت کے لئے مخصوص اور مقدس ہیں لیکن یہ سب مسمار ہو سکتے ہیں اگر ان کی شت پر قوت مدافعت نہ ہو۔ اہل باطل کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان مقامات پر اللہ کا نام لیا جاتا ہے بلکہ ان مقامات کی حمایت اور ان کا بچائو تب ہی ہو سکتا ہے کہ کسی عقیدے کے حامی اس کی پشت پر ہوں اور ان کے اندر قوت مدافعت بھی ہو اور وہ اپنے عقیدہ کے احترام کو بزور قوت دشمن سے منوا بھی سکتے ہوں۔ باطل تو سرکش ہوتا ہے وہ تب ہی رکتا ہے جب اس جیسی قوت اس کے مقابل کے پاس بھی ہو جس پر باطل حملہ آ ور ہو رہا ہے۔ محض اس لئے کہ حق ، حق ہے۔ باطل حملہ آور ہونے سے نہ رکے گا۔ لہٰذا حق کی پشت پر بھی ایک مساوی بلکہ برتر قوت ہونی چاہئے جو اس کا دفاع کرسکے۔ یہ ایک کلی فائدہ ہے جب تک انسان ہے ایسا ہی ہوگا۔ یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ان نصوص قرآنیہ پر غور کریں جن کے الفاظ تو بہت کم ہیں لیکن ان کے معانی بہت ہی وسیع ہیں۔ یہ نصوص انسانی نفس انسانی ، زندگی اور انسانی زندگی کے واقعات کے اہم رازوں پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو قتال کی اجازت دے رہے ہی جن کے ساتھ مشرکین نے جنگ کی اور ان پر دست درازیاں کیں۔ یہ اس لئے کہ اللہ اہل ایمان سے مدافعت کی ذمہ داری لیتا ہے اور اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ خیانت گر اہل کفر اہل اسلام پر دست درازیاں کریں۔ ان اللہ یدفع ……کفور (22 : 38) ۔ ” اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لاتے ہیں یقینا اللہ کسی خائن کا فر نعمت کو پسند نہیں کرتا۔ “ اللہ نے مسلمانوں کو یہ یہ ضمانت دے دی کہ وہ ان کی جانب سے مدافعت کرے گا اور جس کی مدافعت اللہ کرے تو یہ بات یقینی ہے کہ دشمن اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ وہ اپنے دشمن پر غالب ہوگا ، تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ پھر ان کو قتال کی اجازت کیوں دیتا ہے ؟ پھر جہاد کیوں فرض کیا گیا ہے ؟ پھر وہ کیوں لڑتے ہیں جس میں وہ قتل بھی ہوت یہیں ، زخمی بھی ہوتے ہیں اور ان کو جدوجہد اور مشقیں بھی کرنی ہوتی ہیں اور مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں اور قربانیاں بھی دینی ہوتی ہیں اور نتیجہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ غالب ہوتے ہیں حالانکہ اللہ بغیر ان کی جدوجہد کے بھی اور بغیر کسی مشقت اور قربانی کے بھی اور بغیر کسی قتل و قتال کے بھی ان کی جانب سے مدافعت کرسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی حکمت اس باب میں بہت ہی گہری ار بہت ہی دور رس ہے۔ اللہ کی محبت اصل مقام تک پہنچنے والی ہے اور بہت ہی اونچی ہوتی ہے لیکن ہم جس قدر سمجھ سکے ہیں اور جس قدر ہماری عقلوں میں سمجھنے کی صلاحیت ہے اور جس قدر ہمارے تجربات ہیں ، ان کے مطابق جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ میری دعوت کے حاملین سست اور کاہل رہیں اور وہ نہایت ہی سستی سے بیٹھے رہیں اور ان پر اللہ کی نصرت آجائے اور وہ شہزادوں کی طرح بیٹھے ہوں۔ محض اس لئے کہ وہ قرآن پڑھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ کام جو سب کے سب ضروری ہیں ان کو اس قابل نہیں بناتے کہ یہ لوگ دعوت اسلامی کی حمایت کریں اور اس کی جانب سے دفاع کریں۔ نماز ، عبادت ، اور دعاء تو ایک سپاہی کے لئے زاد راہ ہیں اور جنگ میں یہ اخلاقی قوت کا کام دیتے ہیں ، اہل ایمان کے پاس یہ مزید اسلحہ ہے جو دشمن کے پاس نہیں ہے۔ دشمن کے پاس جو روایتی اسلحہ ہے وہ مسلمان کے پاس بھی ہے اور تقویٰ ہے اور اتصال باللہ اس پر مزید ہے۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ مسلمانوں اور اہل ایمان کا دفاع وہ خود مسلمانوں اور اہل ایمان کے ذریعہ سے کرے تاکہ معرکہ آرائی کے دوران مسلمان پختہ ہوجائیں۔ اس لئے کہ انسانی شخصیت کے اندر موجود خفیہ قوتیں تب ہی بیدار ہوتی ہیں ، جب انسان کو خطرہ درپیش ہو ، اور انسان اپنی مدافعت کر رہا ہو۔ مقابلے اور جنگ میں انسان اپنی پوری قوت لے کر دشمن کے مقابلے میں نکل آتا ہے۔ ایسے حالات میں انسانی قوت کا ہر ہر خلیہ محترک اور تیار ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ دوسرے خلیوں کے ساتھ تعاون کرے اور مشرکہ کارروئیاں کرے۔ جس قدر قوت کی فراہمی اس سے ممکن ہو ، وہ فراہم کرے۔ غرض وہ اپنی قوت کا آخری ذرہ بھی نکال دے اور انسان اس مقام تک پہنچ جائے جو اس کے لئے مقدر ہوتا ہے۔ جو جماعت دعوت اسلامی کو لے کر اٹھتی ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوت کا ہر خلیہ اپنی قوت کا پورا ذخیرہ ، اپنی صلاحیتوں کا پورا جوہر ، اپنی تمام طاقتوں کو جمع کرتے ہوئے اس راہ پر لگا دے تاکہ خود اس کی تربیت اور ترقی مکمل ہو سکے ، وہ پختہ ہو سکے ار اس طرح وہ اس امانت کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہو سکے جو اس پر ڈالا گیا ہے۔ وہ نصرت اور کامرانی جس میں فتح یاب ہونے والے نے کوئی تکلیف نہ اٹھائی ہو ، اور جو کامیابی بڑی آسانی اور بغیر کانٹا چبھے حاصل ہوجائے ، اس کے نتیجے میں خود انسانی کارکنوں کی یہ حقیر صلاحیتیں نہیں ابھرتیں کیونکہ ان کے ظہور کے لئے کوئی محرک نہیں ہوتا ، مقابلہ اصل محرک ہوتا ہے۔ نیز جو کامیابی بڑے آرا م سے اور بیٹھے بٹھائے مل جاتی ہے ، وہ اسی طرح آسانی سے ناکامی میں بدل جاتی ہے اور ضائع ہوجاتی ہے۔ چونکہ یہ مفت میں ہوتی ہے اور کامیاب ہونے والے نے اس کی کوئی قیمت ادا نہیں کی ہوتی ، اس لئے اس کی نظروں میں اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ پھر جن لوگوں کو یہ بیٹھے بٹھائے مل جاتی ہے ان صلاحیتوں کو اس کے دماغ کا تجربہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کی خفیہ قوتیں جب اس کے حصول کے لئے بیدار نہیں ہوتیں تو اس کے دفاع کے لئے کیسے بیدار ہوں گی۔ لہٰذا ان کے لئے دفاع ممکن ہی نہیں رہتا۔ یہ عملی اور یہ وجدانی تربیت انسان کو تب حاصل ہوتی ہے کہ اسے فتح بھی ہوئی ہو اور ہزیمت بھی اٹھانی پڑی ہو۔ اس کا کرو فر بھی دیکھا ہو ، قوت اور ضعف بھی دیکھا ہو ، اقدام اور پسپائی دونوں دیکھی ہوں اور دونوں کی خوشی اور کڑوا پن چکھا ہو۔ امید و بیم ، خوشی اور غم ، اطمینان اور قلق ، ضعف کا احساس اور قوت کا شعور یہ سب کچھ اس نے میدان جنگ میں دیکھا ہو۔ نیز اس نے نظریات کا اتحاد اور نظریاتی انتشار بھی دیکھا ہو۔ مختلف رجحانات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا تجربہ وہ کرتا ہے۔ جاعت کے اندر قوت کے مراکز اور ضعف کے مقامات سے وہ باخبر ہو اور ہر قسم کے حالات میں معاملات کی تدبیر کو وہ جانتا ہو۔ یہ تمام مراحل اس جماعت اور گروہ کے لئے ضروری ہیں جس نے دعوت اسلامی کو لے کر چلنا ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کوئی عملاً معرکے میں نہ اترے۔ اس وجہ سے اور اس کے علاوہ مزید خفیہ حکمتوں کی وجہ سے جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے ، اللہ نے یہ طے کیا کہ وہ مسلمانوں کا دفاع خود مسلمانوں کے ذریعے کرے اور ایسا نہیں فرمایا کہ یہ ایک لقمہ تر ہوگا جو ان کے لئے آسمانوں سے پکا پکایا اتر جائے۔ بعض اوقات ایسے مظلوموں پر نصرت کا نزول دیر کردیتا ہے جن کو اپنے گھروں سے نکال دیا جاتا ہے اور ان پر ظلم محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے رب کو ایک سمجھتے ہیں۔ صرف اللہ کو رب سمجھتے ہیں لیکن اس میں اللہ کی گہری حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ بعض اوقات نصرت لیٹ ہوجاتی ہے کیونکہ دعوت اسلامی کے حاملین ابھی پختہ نہیں ہوئے ہوتے اور ان میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ ان کی قوتیں مجتمع نہیں ہوتیں۔ اسلامی عناصر نے اپنی قوتوں کے تمام ذخائر کو میدان میں نہیں اتارا ہوا ہوتا ہے۔ اگر ایسی ناپختگی کی حالت میں اللہ کی نصرت آجائے تو وہ جلد ہی اسے کھودیں گی۔ بعض اوقات نصرت اس لئے بھی دیر کردیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے کہ مومن اپنی پوری قوت اس راہ میں جھونک دیں۔ اپنا آخری سرمایہ اور قوت نچوڑ کر ختم کردیں اور کوئی چیز ذخیرہ کر کے نہ رکھیں اور اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیں۔ جب تک انہوں نے ایسا نہیں کیا ہوتا ، نصرت نہیں آتی۔ بعض اوقات اس لئے بھی نصرت نہیں آتی کہ اللہ اہل ایمان کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے تمام حربے آزما لیں اور ان کو معلوم ہوجائے کہ یہ نصرت صرف ان کی قوتوں کی وجہ سے ہی سے نہیں آتی بلکہ اللہ کی نصرت تب آتی ہے جب اہل ایمان اپنی قوت ، اپنی دولت اور اپنی صلاحیتوں کا آخری ذخیرہ بھی ختم کردیں اور ان کے سامنے صرف اللہ کی مدد کا ذخیرہ رہ جائے تب مدد آپہنچتی ہے۔ بعض اوقات اللہ کی نصرت اس لئے بھی مئوخر ہوجاتی ہے کہ امت مومنہ کا تعلق باللہ معیار مطلوب تک پہنچ جائے ، اسے مشکلات پیش آئیں اور وہ برداشت کرے ، اسے المناک نتائج سے دوچار ہونا پڑے اور وہ صبر کرے اور اسے اپنی پوری قوتیں صرف کرنے کا موقع ملے اور حالت یہ ہوجائے کہ اللہ کے سوا کوئی اور سہارا نہ رہغے اور اللہ کے سوا توجہات مرکوز کرنے کا اور کوئی نکتہ نہ رہے۔ یہ تعلق باللہ پھر اس بات کی بھی ضمانت ہوتا ہے کہ نصرت آنے اور فتح ملنے کے بعد امت سیدھی راہ پر گامزن رہتی ہے۔ وہ پھر پنی راہ نہیں چھوڑتی ۔ وہ سچائی ، عدل اور بھلائی کا راستہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی جس کی وجہ سے اسے فتح نصیب ہوتی ہے۔ بعض اوقات اللہ کی نصرت اس لئے بھی نہیں آتی کہ امت اپنی جدوجہد ، اپنے انفاق اور اپنی قربانیوں میں خالص رضائے الٰہی کے لئے کام نہیں آتی۔ اس کی جنگ مفادات کے لئے ہوتی ہے ، یا وہ ذاتی رنجش کی وجہ سے لڑتی ہے ، یا اس کی جدوجہد میں دکھاوا ہوتا ہے ، حالانکہ اللہ کا منشا یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد صرف ال لہ کے لئے ہو ، صرف اللہ کے راستے میں ہو۔ اس کے ساتھ کوئی اور سوچ وابستہ نہ ہو ، کارکنوں کے شعور اور لاشعور میں رضائے الٰہی کے سوا کوئی اور مقصد نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص کسی حمیت کی وجہ سے لڑتا ہے یا شجاعت کی وجہ سے لڑتا ہے یا شخصیت کے اظہار کے لئے لڑتا ہے تو ان میں سے کون سی جنگ فی سبیل اللہ ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا۔ من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا ” جس نے اس لئے جنگ کی کہ اللہ کا کلما بلند ہو تو صرف یہ فی سبیل اللہ ہے۔ “ بعض اوقات اسلامی عناصر کو اس لئے بھی کامیابی نہیں ہوتی کہ جس شر کے مقابلے میں امت کام کر رہی ہوتی اس میں خیر کا کوئی پہلو ہوتا ہے۔ اللہ اس شر کو مہلت دیئے جاتا ہے تاکہ شرک و اس خبر سے تہی دامن کر دے تاکہ اگر ہلاکت آئے تو خالص شر پر آئے اور اس میں خیر کا کوئی پہلو نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ شر کے ساتھ خیر کا ایک ذرہ بھی ضائع ہوجائے۔ بعض اوقات اللہ کی نصرت اس لئے بھی نہیں آتی کہ جس باطل کے خلاف امت مسلمہ اور جماعت مومنہ برسر پیکار ہوتی ہے اس کا کھوٹ عوام الناس کی نظروں میں آشکار اور پوری طرح واضح نہیں ہوا ہوتا۔ ایسے حالات میں اگر شر کو شکست دے دی جائے تو شر کو بھی معاشرے میں سے بعض ایسے لوگ حامی و مددگار مل جائیں گے جنہوں نے ابھی تک شر کے کھوٹ کو سمجھا نہیں ہوتا اور وہ اس کے فساد ، زوال کو سمجھے ہی نہیں ہوتے اور اس پر مطمئن نہیں ہوتے لہٰذا اس شر کی بعض جڑیں نیک لوگوں کے ذہنوں میں بھی ہوتی ہیں ، جو حقیقت سے بیخبر ہوتے ہیں۔ اس لئے اللہ باطل کو ایک عرصہ تک برسر اقتدار رکھتا ہے تاکہ تمام لوگوں کے ذہن صاف ہوجائیں اور جب وہ نیست و نابود ہوجائے تو اس پر رونے والی ایک آنکھ بھی معاشرے میں موجود نہ ہو۔ بعض اوقات نصرت میں دیر اس لئے بھی ہوتی ہے کہ معاشرہ ابھی تک قبول حق کے لئے ہی تیار نہیں ہوتا اور سچائی کو اٹھانے کے اہل بھی نہیں ہوتا۔ جس کی حامل اور داعی جماعت مومنہ ہوتی ہے۔ اگر ایسے حالات میں حق کو نصرت بھی مل جائے تو بھی اسے قرار نصیب نہیں ہوتا اور خود معاشرہ کے اندر سے ردعمل شروع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی مشیت ہوتی ہے کہ کچھ مزید عرصے کے لئے حق و باطل کی کشمکش جاری رہے تاکہ معاشرہ سچائی کے استقبال کے لئے تیار ہوجائے۔ یہ وجوہات ہو سکتی ہیں اور ان کے علاوہ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جن کو صرف اللہ جانتا ہے ۔ کبھی کبھار ، نصرت الٰہی میں دیر لگ جاتی ہے۔ کارکنوں کو زیادہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں ، ان پر مصائب بڑھ جاتے ہیں ، لیکن آخر کار فتح و نصرت جماعت مومنہ کے لئے ہوتی ہے اور جدوجہد کے زمانے میں اللہ کی ضمانت دفاع بہرحال اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حصول نصرت کی کچھ شرائط ہیں۔ کچھ تقاضے ہیں جو پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اس کی ایک قیمت ہے جو ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس کے کچھ اسباب ہوتے ہیں جو فراہم کرنے پڑتے ہیں اور اس کے لئے ایک مخصوص فضا ہوتی ہے جو پیدا کرنا پڑتی ہے (یاد رہے کہ یہ محض من اور سلویٰ نہیں ہے۔ ) ولینصرن اللہ ………عاقبۃ الامور (22 : 31) ” اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ، اللہ بڑا طاقتور ہے اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں ، زکوۃ دیں ، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کی کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کا تاکیدی وعدہ ہے ، نہایت ہی باوثوق وعدہ ہے ، اٹل قاعدہ ہے کہ جو اس کی نصرت کرے گا تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا لیکن یہ سوالیہ نشان اپنی جگہ ضرور ہے کہ اللہ کن لوگوں کی نصرت کرتا ہے ، تاکہ ان کو نصرت کا مستحق سمجھا جائے۔ کیونکہ اللہ تو قوی ہے ، عزیز ہے ، اس کے موالے تو کبھی شکست نہیں کھاتے تو وہ کون ہیں ؟ وہ یہ ہیں ؟ الذین ان مکنھم فی الارض (22 : 31) ” یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم اقتدار ” بخشیں “ ۔ نصرت آجائے اور ان کا اقتدار اعلیٰ قائم ہوجائے تو اقاموا الصلوۃ (22 : 31) ” نماز قائم کریں گے۔ “ اللہ کی بندگی کریں گے اور اللہ کی طرف نہایت ہی مطیع فرمان ہو کر ، عاجز ہو کر ، سرتسلیم خم کرتے ہوئے رجوع کریں گے۔ واتوا الزکوۃ (22 : 31) ” زکوۃ دیں گے۔ “ مال کا حق ادا کریں گے۔ نفس کی فطری کنجوسی پر قابو پائیں گے۔ اسے حرص و آز سے پاک کریں گے۔ شیطان کے وسوسوں پر غلبہ پائیں گے ، جماعت اور سوسائٹی کے اندر پائے جانے والے رخنے دور کریں گے۔ ضعیفوں اور محتاجوں کا حق ادا کریں گے ، ان کو ایک زندہ جسم کے حقوق دیں گے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ” مومن باہم محبت ، باہم ہمدردی ، بامہ رحم و کرم میں جسد واحد کی طرح ہوتے ہیں ، اگر جسم کے کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو پورا جسم بےچین ہوتا ہے اور تمام جسم بےخوابی کا شکار ہوتا ہے۔ وامروابالمعروف (22 : 31) ” نیکی کا حکم دیں گے “ وہ نیکی اور اصلاح کے داعی بھی ہوں گے لوگوں کو زبردستی بھی نیکی پر آمادہ کریں گے۔ ونھوا عن المنکر (22 : 31) ” اور وہ برائی سے منع کریں گے۔ “ شر و فساد کا مقابلہ کریں گے۔ وہ امت مسلمہ کا یہ نشان بحال کریں گے کہ وہ منکر کو برداشت نہیں کرتے اور اگر وہ اسے دفع کرسکتی ہو تو دفع کرتی ہے اور اگر وہ معروف قائم کرسکتی ہے تو قائم کرے گی۔ ایسے لوگ اللہ کی نصرت کے مستحق ہوت یہیں جو اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے پوری جدوجہد کریں۔ صرف اللہ پر بھروسہ کرتے ہوں ، کسی اور پر نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کی مدد ہوگی۔ لہٰذا اللہ کی نصرت کا وعدہ قائم ہے اسباب نصرت پر۔ نصرت کے تقاضے پورے کرنے پر اس کے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کرنے پر ، اس کے بعد بھی بات اللہ کی مرضی پر ہے۔ وہ اپنی مخلوق کے اندر جس طرح چاہتا ہے ، تصرفات کرتا ہے۔ بعض اوقات وہ شکست کو فتح میں بدل دیتا ہے اور بعض اوقات فتح کو ہزیمت میں بدل دیتا ہے۔ خصوصاً جب نصرت کے بنیادی عناصر ہیں ، خلل آجائے اور لوگ ذمہ داریاں اور تقاضے پورے نہ کریں۔ وللہ عاقبۃ الامور (22 : 31) ” اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ “ اللہ کی نصرت وہ ہوتی ہے جس کے ذریعہ اسلامی نظام زندگی قائم ہو ، حق ، انصاف ، آزادی اور خیر و اصلاح کا دور دورہ ہو۔ پیش نظر اعلیٰ مقاصد ہوں نہ کہ کچھ افراد ، اشخاص ، شخصیات اور ان کے ذاتی مقاصد کو پس پشت ڈال کر بلند اصولوں کو سامنے رکھنا ہوگا تب نصرت الٰہی حاصل ہوگی۔ بہرحال نصرت الٰہی کے اسباب ہوتے ہیں۔ اس کی قیمت پیشگی ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ بعض شرائط لازمی ہوتی ہے۔ یہ نصرت کسی کو مفت میں نہیں ملتی نہ اللہ کو کسی کے ساتھ محبت ہوتی ہے اور نصرت اس شخص کو نہیں ملتی نہ اس جماعت کو ملتی ہے جو اس کے مقاصد اور تقاضے پورے نہ کرتی ہو۔
Top