Mutaliya-e-Quran - Al-Hajj : 38
اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۠   ۧ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُدٰفِعُ : دور کرتا ہے عَنِ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : کسی خَوَّانٍ : دغاباز كَفُوْرٍ : ناشکرا
یقیناً اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں یقیناً اللہ کسی خائن کافر نعمت کو پسند نہیں کرتا
[ ان اللّٰهَ : بیشک اللہ ] [ يُدٰفِعُ : ہٹاتا ہے (برائی کو)] [ عَنِ الَّذِينَ : ان لوگوں سے جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ ان اللّٰهَ : بیشک اللہ ] [ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا ] [ كُلَّ خَوَّان : کسی بھی بار بار وعدہ خلافی کرنے والے کو ] [ كَفُوْرٍ : انتہائی ناشکری کرنے والے کو ] آیت نمبر۔ 34 ۔ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کی عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا تھا۔ پھر یہ کہ تم لوگوں کا اِلٰہ بھی وہی اِلٰہ ہے جو ان امتوں کا ہے۔ اس کے آگے اس کا منطقی نتیجہ محذوف (understood) چھوڑ دیا ہے یعنی اس لئے تم لوگوں کا بھی قربانی کا ایک طریقۂ عبادت ہے۔ پھر فرمایا فَلَہٗ اَسْلِمُوْا (پس اس کی ہی تم لوگ فرمانبرداری کرو) ۔ یعنی اس اِلٰہ کی فرمانبرداری کرو جس نے ہر امت کے لئے قربانی کی عبادت مقرر کی ہے اور اپنی قربانی کی عبادت میں عقلی گھوڑے مت دوڑائو۔ اس کے بعد آیت۔ 36 ۔ میں اَلْبُدْنُ یعنی مکہ میں قربان کئے جانے والے جانوروں کے لئے بتایا کہ یہ شعائر اللہ ہیں۔ پھر آیت۔ 37 ۔ میں بتایا کہ قربانی کہیں بھی ہو، ان سب کی روح ایک ہی ہے اور وہ ہے تقوٰی، یعنی اس وقت سے ڈرنا جب اللہ کے سامنے جوابدہی کے لئے کھڑا ہونا ہے اور اللہ کی نافرمانی سے بچنا۔ آیت۔ 34 ۔ میں ہم نے جو بات محذوف مانی ہے اس کی سند رسول اللہ ﷺ کا وہ عمل ہے جو تواتر سے ثابت ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آپ ﷺ نے حج تو ایک کیا ہے۔ اگر قربانی کا حکم صرف حاجیوں کے لئے ہوتا تو آپ ﷺ حج میں قربانی کرتے اور باقی سالوں میں نہ کرتے یا کبھی کرلیتے، کبھی نہ کرتے۔ لیکن آپ ﷺ نے مدینہ میں بلاناغہ ہر سال نہ صرف خود قربانی کی بلکہ لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا اور اس کے لئے اتنی تاکید کی کہ کسی صاحب استطاعت نے اگر قربانی نہیں کرنی ہے تو وہ عیدگاہ میں نہ آئے۔ آپ ﷺ نے یہ وضاحت بھی کردی کہ بقر عید کی نماز کے بعد سے تین دن تک جو قربانی ہوگی وہ اللہ کی مقرر کردہ عبادتِ قربانی میں شمار ہوگی بشرط نیت۔ اس کے بعد سے اگلے سال بقر عید کی نماز سے پہلے تک جتنی قربانیاں ہوں گی وہ بقر عید کی عبادت میں شمار نہیں ہوں گی۔ یہ مذکورہ آیت کی عملی تفسیر ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ بقر عید کی قربانی واجب ہے یا سنت۔ اگر سنت بھی مانا جائے تو ماننا پڑے گا کہ یہ سنت غیر مؤکدہ یعنی مستحب نہیں ہے کہ کرلے تو ثواب ہے اور نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے جو واجب کے ہی درجہ میں ہوتی ہے۔ اس کے نہ کرنے میں سب سے بڑا حرج یہ ہے کہ یہ عبادت نہ کرنے والے کا عیدگاہ میں آنا اللہ کے حبیب ﷺ کو پسند نہیں ہے۔
Top