Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 38
اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۠   ۧ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُدٰفِعُ : دور کرتا ہے عَنِ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : کسی خَوَّانٍ : دغاباز كَفُوْرٍ : ناشکرا
بیشک اللہ مدافعت کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے۔ اللہ ہرگز بدعہدوں اور ناشکروں کو پسند نہیں کرتا
آگے کا مضمون ……آیات 41-38 یہ آیات مدینہ میں نازل ہوئیں اور چونکہ یہ جیسا کہ ہم تمہید میں اشارہ کرچکے ہیں، انہی باتوں پر متفرع اور انہی کی توضیح کی حیثیت رکھتی ہیں جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے ان کو مصحف کی ترتیب میں یہاں جگہ ملی۔ اوپر آیت 25 پر ایک نظر پھر ڈال لیجیے۔ وہاں، قریش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ارشاد ہوا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ اور مسجد حرام سے مسلمانوں کو روک رہے ہیں، درآنحالیکہ مسجد حرام پر کسی کی اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی وہ بڑے ہی ظالم ہیں اور اللہ ایسے ظالموں کو ایک درد ناک عذاب چکھائے گا۔ اس کے بعد بیت اللہ کی تاریخ اور اس کے مناسک و شعائر کی روشنی میں یہ دکھایا گیا ہے کہ قریش نے اس گھر کی ساری حرمت برباد کر کے رکھ دی ہے ان کو کو کئی حق نہیں ہے کہ وہ اس گھر پر مسلط رہیں۔ ان آیات کے اندر ظاہر ہے کہ یہ اشارہ مضمر تھا کہ اس گھر کی تولیت کے اصلی حقدار مسلمان ہیں نہ کہ قریش لیکن مکہ میں مسلمان بالکل بےبس اور مجبور تھے اس وجہ سے وہ اپنے اس حق کو حاصل کرنے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کرسکتے تھے۔ مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد جب انہوں نے ایک تنظیم کی شکل اختیار کرلی تو ان کے اندر قدرتی طور پر یہ احساس شدت سے پیدا ہوا کہ انہیں اس گھر کی برکتوں سے محروم نہیں رہنا چاہئے لیکن اس کی شکل کیا ہو ؟ ظاہر ہے کہ جب قریش نے اس لئے وردی کے ساتھ ان کو اس گھر سے نکال چھوڑا تھا توہ آسانی سے یہ گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمانوں کو حج وعمرہ کی اجازت دیں۔ اگر مسلمان اس کی کوشش کرتے تو لازماً جنگ کی نوبت آجاتی اور جنگ بھی حدود حرم اور اشہر حرم میں، جس کو جاہلیت اور اسلام دونوں میں مبغوض سمجھا گیا ہے۔ قریش اور ان کے حلیف … اہل کتاب … اس چیز کو بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پر اپیگنڈا کا ذریعہ بناتے کہ دیکھو اس نئے دین والوں نے حرم اور اشہر حرم کی حرمت پر بھی حملہ کردیا جس کی جسارت ان سے پہلے کسی نے بھی نہیں کی تھی۔ یہ سارے مسائل اس وقت مسلمانوں کے سامنے تھے۔ ان آیات میں انہی سوالوں کے جواب دیئے گئے ہیں۔ مظلوم مسلمانوں کے لئے بشارت اس بحث کی تمہید ہی اللہ تعالیٰ نے مظلوم مسلمانوں کے لئے بشارت سے اٹھائی ہے۔ فرمایا کہ قریش نے ہمارے باایمان بندوں پر جو ظلم ڈھایا ہے اس میں اپنے مظلوم بندوں کی مدافعت ہم کریں گے۔ یعنی اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت و مدافعت کے لئے اٹھیں، خدا اس جہاد میں ان کے ساتھ ہوگا اور ہر قدم پر ان کی نصرت فرمائے گا۔ قریش سے اعلان برأت ان اللہ لایحب کل خوان کفور کل یہاں میرے نزدیک تاکید صفت کے لئے ہے اور خوان کفور سے اشارہ کفار قریش کی طرف ہے۔ خوان کے معنی، خائن، غدار اور عہد شکن کے ہیں۔ یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ انہوں نے وہ تمام عہد و شرائط پامال کردیے ہیں جن کے تحت ان کو حرم کی پاسبانی سپرد ہوئی تھی۔ حضرت ابراہیم نے جن مقاصد کے لئے اس گھر کو تعمیر کیا تھا اور اپنی ذریت پر اس گھر سے متعلق جو ذمہ داری ڈالی تھی ان میں سے ایک ایک چیز کی انہوں نے آبرو مٹا دی۔ اس وجہ سے یہ اس گھر کی تولیت کے حقدار نہیں ہیں اور ایسے غداروں اور خائنوں کو خدا کبھی پسند نہیں کرتا۔ خوان کے ساتھ کفور کی صفت ان کی ناسپاسی و ناشکری کے بیان کے لئے ہے۔ سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم وضاحت سے بیان کرچکے ہیں کہ قریش کو پورے عرب میں مذہبی پیشوائی اور سیاسی اقتدار کا جو مقام بلند حاصل ہوا وہ تمام تربیت اللہ کی بدولت حاصل ہوا لیکن وہ بجائے اس کے کہ اس نعمت کی قدر کرتے اور اپنے رب کے شکر گزار رہتے اس گھر پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے اس کے نام پر حقوق تو سارے حاصل کرتیر ہے لیکن خود اس کے حقوق و فرائض نہ صرف یہی کہ بالکل بھول بیٹھے بلکہ ان کے بالکل برعکس اقدامات سے اس گھر کی ساری عزت انہوں نے خاک میں ملا دی۔ فرمایا کہ ایسے غداروں اور ناشکردی سے خدا کو کیا تعلق ! اللہ ایسے خائنوں اور ناسپاسوں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ لایحب سے مقصود یہ ہے کہ خدا ایسے ہبدعہدوں کو مبغوض رکھتا ہے۔ ان کو جتنی مہلت ملنی تھی وہ مل چکی۔ اب وقت آگیا ہے کہ خدا اپنے حرم کو ان ناپاکوں سے پاک کرے اور اپنے ان بندوں کو اس کی تولیت سپرد کرے جو اس ابراہیمی امانت کا حق ادا کریں۔
Top