Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 38
اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۠   ۧ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُدٰفِعُ : دور کرتا ہے عَنِ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : کسی خَوَّانٍ : دغاباز كَفُوْرٍ : ناشکرا
بیشک اللہ مدافعت کرے گا ان لوگوں کی جو ایمان لائے۔ اللہ ہرگز بدعہدوں اور ناشکروں کو پسند نہیں کرتا۔
اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ ۔ (الحج : 38) (بےشک اللہ مدافعت کرے گا ان لوگوں کی جو ایمان لائے۔ اللہ ہرگز بدعہدوں اور ناشکروں کو پسند نہیں کرتا۔ ) یُدٰ فِعُ کا مفہوم اما مِ راغب اصفہانی ” یدافع “ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر ” دفع “ کا صلہ ” الی “ ہو تو اس کا معنی ” کسی کو کوئی چیز دینا ہوتا “ ہے اور اگر اس کا صلہ ” عن “ ہو تو اس میں ” حمایت اور نصرت “ کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ منجد میں بھی اسی کے قریب مفہوم واضح کیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں صلہ چونکہ ” عن “ آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا ” کفار کے مقابلے میں جب اہل ایمان سینہ سپر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت ان کے شامل حال ہوگی اور وہ ان کا دفاع فرمائے گا “۔ مظلوم مسلمانوں کو بشارت جمہور مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ” آیت نمبر 38 سے 41“ تک چار آیتیں ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہیں۔ البتہ ! دیگر اہل علم کا خیال یہ ہے کہ آیت نمبر 25 سے مدنی آیات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ 38 سے 41 تک چار آیات کے مدنی ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں۔ اور جہاں تک دوسری رائے کا تعلق ہے اس کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آیت نمبر 25 میں قریش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ اور مسجد حرام سے مسلمانوں کو روک رہے ہیں جبکہ مسجد حرام پر کسی کی اجارہ داری نہیں وہ بڑے ہی ظالم لوگ ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو دردناک عذاب چکھائے گا۔ اس آیت میں صاف طور پر مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکے جانے کا ذکر فرمایا گیا ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب تک مسلمان مکہ معظمہ میں رہے ہیں مسجد حرام میں آنے اور بیت اللہ کا طواف کرنے کے حوالے سے ان پر کوئی پابندی نہیں تھی یہ الگ بات ہے کہ بعض دفعہ مسجد حرام میں آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں سے بدسلوکی بھی کی گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسجد حرام میں مکمل طور پر مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہجرت کے بعد لگی ہے۔ اور قریش نے علی الاعلان یہ بات کہی کہ مسلمان اب اللہ کے گھر کے قریب نہیں آسکتے۔ اس لیے اگر یہ بات کہی جائے کہ اس قرینے کے باعث آیت نمبر 25 سے مدنی آیات شروع ہوجاتی ہیں تو اس میں کوئی استبعاد نہیں۔ لیکن جو لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ صرف آیت نمبر 38 سے 41 تک کی آیات مدنی ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں پر مسجد حرام پرداخلے پر پابندی نہیں تھی لیکن انھیں وہ آزادی بھی حاصل نہیں تھی جو باقی اہل مکہ کو تھی اور جہاں تک بیت اللہ میں داخل ہونے کا تعلق ہے تو عثمان بن طلحہ نے آنحضرت ﷺ کے لیے اس کا دروازہ کھولنے سے انکار کردیا تھا۔ تو اگر مسجد حرام سے بیت اللہ مرا دلیا جائے تو پھر تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ آیت نمبر 25 سے جو بعد کی آیات ہیں ان میں بیت اللہ اور مسجد حرام کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور مسلمانوں کے ذہنوں کو آہستہ آہستہ تیار کیا گیا ہے کہ بیت اللہ ملت ابراہیمی کی وراثت اور توحید کا مرکز بنایا گیا تھا۔ لیکن قریش نے اسے بتکدے میں تبدیل کردیا اور اس کی تمام روایات کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بیت اللہ کی حیثیت کو ازسر نو بحال کیا جائے اور شرک کی جو آلودگی اور غلاظت وہاں بکھیر دی گئی ہے بیت اللہ اور مسجد حرام کو اس سے پاک کیا جائے۔ چناچہ ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو ایک مرکز میسر آیا اور مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے اصحابِ ایمان ایک جگہ جمع ہوئے اور بطور ایک امت کے ان کی شیرازہ بندی ہوئی تو بظاہرمختصر سہی لیکن ایک مضبوط اجتماعیت کی شکل پیدا ہوگئی اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہ ہجرت کے بعد پہلی دفعہ حج کا موسم آیا تو مسلمانوں پر یہ بات بہت شاق گزری کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کردیئے گئے ہیں اور ان پر زیارتِ حرم کا راستہ زبردستی بند کردیا گیا ہے۔ اس احساس نے ان کے وہ زخم بھی تازہ کردیئے جو مکی زندگی کے تیرہ سالوں میں انھوں نے مسلسل برداشت کیے تھے اور اب ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی قریش ان کو چین سے بیٹھنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ وطن چھوٹ چکا تھا، خونی رشتے ٹوٹ چکے تھے، نئی صورتحال سے واسطہ تھا، لیکن قریش کی خون آشامی اور اذیت رسانی کی شدت میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔ مسلمان انھیں احساسات کے تحت شدید تأثر کی کیفیت میں تھے کہ پیش نظر آیات کریمہ نازل ہوئیں۔ جس نے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم بھی رکھا اور ساتھ ہی ان کے جذبے کو جلا بھی بخشی کہ مسلمانوں کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے گھر کو ان ظالموں سے نجات دلائیں جنھوں نے ملت ابراہیمی کی امانت میں خیانت کی ہے اور اللہ کی بندگی کے اس مرکز کو کفر اور شرک سے بھر دیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ تسلی بھی دی ہے کہ ہرچند کہ مسلمان اس وقت نہایت کمزور اور حالات کے نرغے میں ہیں، افرادی قوت نہایت کم اور مالی معاملات نہایت ابتر ہیں۔ اسلحہ کے حصول کے لیے ذرائع مفقود ہیں۔ تاہم اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی مدافعت فرمائے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے پائوں پر اٹھنا ہوگا۔ اللہ کے بھروسے پر کفر اور شرک سے پنجہ لڑانا ہوگا۔ اللہ کے باغیوں کے مضبوط جتھوں کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ ان کا حساب اب قریب آرہا ہے کیونکہ اللہ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ اس کا گھر ان لوگوں کی تحویل میں رہے جو اس کے اہل نہیں اور وہ لوگ اس گھر میں داخل نہ ہو سکیں جن کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعائیں مانگی تھیں۔
Top