Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
(اور وہ متقی بھی) جو غیب پر ایمان رکھتے اور نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں
ترکیب : الَّذِیْنَ موصول یُؤْمِنُوْنَ بْالْغَیْبْ جملہ معطوف علیہ وَیُقِیُمْوَنَ الصَّلٰوۃَ فعل بافاعل و مفعول جملہ ہو کر معطوف اور یُنْفِقُوْنَ فعل بافاعل اور مِمَّا رَزَقْنٰـہُمْ اس کا مفعول مقدم فعل اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر معطوف ہوا جملہ سابقہ پر۔ پس یہ تینوں جملہ کہ جو ایک دوسرے پر معطوف ہیں صلہ ہوئے۔ موصول اپنے صلہ سے مل کر صفت ہوئی متقین کی۔ تفسیر : تقویٰ کے دو جزو ہیں۔ ایک اچھی باتوں کا عمل میں لانا، دوسرا بری باتوں سے بچنا۔ پھر اچھی باتوں کی دو قسم ہیں ایک اعلیٰ ، دوسری ادنیٰ ۔ اعلیٰ قسم امور حقہ کی تصدیق ہے جو قلب کا کام ہے اور وہ بدن سے روح جدا ہونے کے بعد بھی روح کے ساتھ رہتی ہے اور جس طرح قلب کو جمیع اعضائِ بدن پر شرف ہے اسی طرح قلب کے عمل کو بھی اعضاء کے عمل پر شرف ہے۔ اس درجہ اعلیٰ کو ایمان کہتے ہیں۔ قسم دوم اعمال صالحہ ہیں پھر ان کی بھی دو قسم ہیں۔ بدنی اور مالی، بدن کے اعمال میں سب سے بڑھ کر نماز ہے اور مال میں زکوٰۃ، اور اس سے دوسرے مرتبہ کو عمل صالح کہتے ہیں، اس لیے خدائے تعالیٰ نے ان دونوں قسموں کو اس آیت میں بیان فرما دیا ہے، یؤمنون بالغیب سے قوت نظریہ یعنی اعتقادیات کی درستی بیان کردی اور جب عقائد اور ادراکات صحیحہ سے روح پاک ہوگئی تو قوت عملیہ کے اعلیٰ جزء کو یُقِیْمُوَنَ الصَّلٰوۃَ سے بیان کیا اور ممارزقنہم ینفقون سے مالی عبادت کو ظاہر کردیا، تینوں جملوں سے بترتیب تینوں باتوں کو بیان کردیا۔ اب رہا بری باتوں سے باز رہنا سو وہ یقیمون الصلوۃ سے سمجھا گیا کس لیے کہ جب انسان خدائے تعالیٰ پر اور اس کی ذات وصفات اور ملائکہ اور قیامت کے دن پر اور جن چیزوں کی اس نے اپنے رسول ﷺ کی معرفت خبر دی ہے (اور یہ سب باتیں یؤمنون بالغیب سے سمجھی جاتی ہیں) ان سب پر صدق دل سے ایمان لاتا ہے اور روح اور جسم سے اس کی عبادت میں مصروف ہوتا ہے کہ جس کو نماز کہتے ہیں تو اس پر وہ انوارِ الٰہی فائز ہوتے ہیں کہ جن سے اس کی بہیمیت بالکل پست ہوجاتی ہے اور معاصی کی طرف نفس بہیمی کو نہیں جانے دیتے، چناچہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرْ کہ نماز ہر قسم کی فحش اور بری باتوں سے روکتی ہے اور اسی لیے صوفیہ محققین فرماتے ہیں کہ جس قدر قوائے بہیمیہ کو تھوڑی سی دیر کی یاد الٰہی اور ذکر قلبی سے پژمردگی حاصل ہوتی ہے، وہ بہت سی مدت بھو کے پیاسے مرنے سے نہیں حاصل ہوتی اور یہ ظاہر ہے۔ کس لیے کہ ملکیت اور بہیمیت دونوں متضاد قوتیں جیسا کہ مَرَجَ الْبَحْرْیْنِ یَلْتَقِیَان میں اشارہ ہے، حضرت انسان میں رکھی گئی ہیں جب ان میں سے ایک غالب ہوگی تو اس کی ضد قطعاً مغلوب ہوگی اور جبکہ اس عالم محسوسات میں جو کمزور اور مکدر ہے فاعل کا اثر منفعل پر محسوس ہوتا ہے آگ کا بھٹی میں لوہے پر، پھول اور عطر کا کپڑے پر تو اس عالم مجردات میں جو نہایت قوی ہے، یہ اثر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، پھر حق سبحانہ کی ذات مقدسہ کے انوار جو فاعل قوی ہیں نفس ناطقہ یعنی روح پر جو نہایت سریع الانفعال ہے کس قدر اثر پیدا کرسکتے ہیں یہاں تک کہ اس کے ہر جزو میں ملکیت کا سریان ہو کر بندہ کامل حق سبحانہ کا آئینہ جمال نما ہوجاتا ہے، پھر یہاں نفس امارہ اور اس کی بدخواہشوں کا کیا ذکر، اور اسی مرتبہ کو عصمت اور محافظت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے یہ جملہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ بیان کافی ہے۔ یا یوں کہو : کہ بری باتوں سے محفوظ رہنے کو تو لفظ متقین سے سمجھا دیا اور اعتقاد اور ایمان کو کہ جو اعلیٰ جزء ہے یؤمنون بالغیب میں بتلا دیا اور بدنی عبادت کو یقیمون الصلوۃ سے واضح کردیا اور مالی کو ممارزقنھم ینفقون سے منکشف فرما دیا، بس سعادت اور شقاوت کو جو ان کی برخلافی سے پیدا ہوتی ہے، یعنی حکمت نظریہ اور عملیہ کو کہ جس کے حصول پر نجات کا مدار ہے اس آیت میں واضح کردیا۔ تعلیقات : یؤمنون لغت میں ایمان تصدیق کو کہتے ہیں یعنی کسی چیز کو سچا جاننا اور یقین کرنا اور یہ امن سے مشتق ہے کہ گویا ایمان لانے والے نے جس پر وہ ایمان لایا ہے اس کو مخالفت اور تکذیب سے امن میں کردیا اور شرع میں ایمان ان چیزوں کا صدق دل سے یقین کرنا ہے کہ جن کا دینی ہونا قطعی طور پر ثابت ہوگیا ہو، یعنی قرآن مجید کی ظاہر عبارت یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی سے جو بات ثابت ہو اس پر یقین کرنا جیسا کہ خدائے تعالیٰ کی ذات وصفات کریمیہ علم وقدرت اور ملائکہ اور آسمانی کتابیں اور انبیاء اور مرنے کے بعد حساب و کتاب جزا و سزا کو برحق ماننا۔ پھر اس ایمان کے دو مرتبہ ہیں : ایمان اجمالی : ایمان اجمالی کو مجملاً بلاتفصیلِ جزئیات دین محمدی کو برحق سمجھنا، جس کا خلاصہ صدق دل سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنا ہے۔ ایمان تفصیلی : دوسرا ایمان تفصیلی کہ جس قدر امور شرح سے یقینا ثابت ہیں اور جو باتیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرمائی ہیں ہر ایک کو برحق ماننا جس چیز پر ایمان اجمالی یا تفصیلی میں ایمان لانا ضرور ہے جو اس پر ایمان نہ لاوے گا انکار یا تکذیب کرے گا، کفر شرعی ثابت ہوگا کہ جس کی سزا ابدی جہنم ہے۔ نعوذباللہ منہا۔ دراصل ایمان حقیقی تصدیق قلبی کا نام ہے۔ جیسا کہ دلائلِ عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہے کس لیے کہ ایمان کی ماہیت میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ صرف تصدیق ہے اور اس پر دلائلِ نقلیہ یہ ہیں۔ وَقَلْبْہٖ مُطْمَئِنٌّم بْالْاِیْمَان اور وَکَتَبَ فِی قُلُوْبْھْمُ الْاِیْمَان اور وَ لَمَّا یَدْخُلْ الْاِیْمَانَ فِیْ قُلُوْبْکُمْ ۔ ان آیات میں ایمان کو قلب سے متعلق کیا گیا ہے اور قلب کا کام محض تصدیق ہے اور یہ بھی آیا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ ۔ اس آیت میں اعمال صالحہ کا عطف ایمان پر کیا گیا اور معطوف اور معطوف علیہ میں مغائرت ہوتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ نفس ایمان کا جزو نہیں بلکہ وہ صرف تصدیق ہے اور بہت سی جگہ اہل معاصی کو مومن بھی کہا ہے۔ وَاِنْ طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا۔ جس سے معلوم ہوا کہ برے اعمال سے نفس ایمان زائل نہیں ہوتا۔ البتہ ترتیب احکام شرعیہ کے لیے زبان سے اقرار کرنا بھی شرط ہے اور کمال ایمان کے لیے اعمال صالحہ بھی ضرور ہیں۔ بس جو شخص دل سے تصدیق بھی کرتا ہو اور زبان سے اقرار بھی اور اس کے ساتھ اعمال صالحہ بھی عمل میں لاتا ہو وہ بالاتفاق مومن کامل قرار دیا جائے گا کیونکہ تصدیق بالجنان اقرار باللسان عمل بالارکان سب پائے گئے اور جو دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرتا ہے مگر اعمال اس کے خراب ہیں تو وہ جمہور اہل سنت کے نزدیک مومن فاسق ہے اور خوارج کے نزدیک کافر ہے اور معتزلہ بلکہ شیعہ کے نزدیک کافر تو نہیں بلکہ ایمان سے خارج ہے کیونکہ اس کے نزدیک اعمال صالحہ نفس ایمان کا جزو ہیں، مگر یہ زیادتی اور تعصب ہے اور ادلہ شرعیہ کے مخالف۔ ہاں ایمان کامل کا جزء اعمال صالحہ ہیں۔ پس اگر اعمال صالحہ نہ ہوں گے تو ایمان کامل نہ ہوگا نہ یہ کہ نفس ایمان بھی نہ ہوگا اور جس کے دل میں تصدیق نہ ہوگی تو وہ کافر ہے اور اگر دل میں تصدیق نہ ہونے پر ظاہری اقرار بھی ہے تو اس کافر کو عرف شرع میں منافق کہتے ہیں۔ اب یہ تصدیق خواہ اس کو تقلید سے حاصل ہو (اس کو ایمان تقلیدی کہتے ہیں) یا تحقیق سے (اور اس کو ایمان تحقیقی کہتے ہیں) اور خواہ یہ تحقیقی استدلالی ہو یا کشفی سب صورتوں میں محققین کے نزدیک ایمان معتبر ہوگا۔ یہ بحث کہ ایمان کم و زیادہ بھی ہوتا ہے یا نہیں اور اس قسم کی دیگر ابحاث محض نزاع لفظی ہیں ان کے بیان کرنے سے بجز اس کے سامع کا دماغ پریشان ہو اور کچھ نتیجہ نہیں۔ بالغیب : یہ غاب یغیب کا مصدر ہے غائب کی جگہ اس کو مبالغۃً استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد وہ خفی چیز ہے کہ جو نہ حواس سے معلوم ہو نہ بداہۃً عقل اس کی مقتضی ہو۔ اس کی دو قسم 1 ؎ ہیں ایک وہ غیب کہ جس پر کوئی دلیل نہ ہو جیسا کہ اس آیت میں مراد ہے، وَعِنْدَہٗ مَفَاتِیْحُ الْغَیْبَ لاَ یَعْلَمُھَا اِلَّا ھُوَ ” کہ خدا کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا “ ، البتہ اس قسم کے غیب کی قلب (محض حکم الٰہی کی وجہ سے) اجمالاً تصدیق کرسکتا ہے۔ دوسرا وہ کہ جس کے لیے دلائلِ عقلیہ باآواز بلند گواہی دے رہے ہوں جیسا کہ خدا تعالیٰ کی ذات وصفات اور جزاء و سزا کا دن وغیرہ ذلک اس میں شک نہیں کہ پورا انقیاد اور کمال اطاعت بندہ کا جب ہے کہ وہ انبیا (علیہم السلام) کے فرمانے سے ان چیزوں پر بھی ایمان لاوے کہ جو اس کے مشاہدے سے باہر ہیں اور جن کے مشاہدہ کی اس کو طاقت نہیں ورنہ آنکھ سے دیکھی ہوئی اور ہاتھ سے ٹٹولی ہوئی اور زبان سے چکھی ہوئی چیز کی تو ہر شخص تصدیق کرتا ہے اور یہی حکمت ہے کہ نزع کے وقت کا (جبکہ بندہ کو اس عالم غائب کی چیزیں ملائکہ اور دوزخ و جنت دکھائی دینے لگیں) ایمان قبول نہیں اور اس کو ایمان باس کہتے ہیں اور اسی وجہ سے نبی ﷺ اور صحابہ ؓ آیندہ آنے والوں کے ایمان کی زیادہ قدردانی کرتے تھے، چناچہ مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ کتب احادیث میں مذکور ہے کہ ایک روز حارث بن قیس نے جماعت صحابہ میں بیان کیا کہ اے صحابہ محمد ﷺ ہم کو نہایت حسرت و افسوس ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے 1 ؎ غیب کی دو قسمیں ہیں، ایک اضافی بہ نسبت مخلوق یعنی بعض اشیاء بعض بندوں سے مخفی ہیں، وہی چیزیں بعض دوسروں کے سامنے ہیں، جیسا کہ ایک گھر یا شہر کے رہنے والے کے سامنے اس گھر یا شہر کی چیزیں حاضر اور دوردراز کے شخص کے نزدیک جس نے ان کو نہ کبھی دیکھا نہ سنا، غیب یا غائب ہے۔ اسی طرح عالم ملکوت کی اشیاء ملائکہ یا مجردات یا ارواح طیبات حضرات انبیاء (علیہم السلام) و اولیاء کرام پر کسی وقت اشیاء حاضر اوروں کی نسبت جن کے نزدیک یہ اشیاء غائب ہیں۔ عام ہے کہ کبھی اس عالم ناسوت میں وہ ظہور کریں گی، جیسا کہ آنے والے واقعات مخبر صادق کے فرمان کے مطابق جس کو پیشین گوئی کہتے ہیں ان پر ایمان لانا واجب ہے اس حصہ میں غیب دانی سے حضرات انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے اتباع اولیائِ کرام بمقتضائے مصلحتِ الٰہیہ بہرہ ور ہوئے ہیں۔ دوم غیب مطلق جس کو غیب الغیب بھی کہتے ہیں جبروت و لاہوت کے اسرار و دیگر اشیاء ان کا خزانہ اس کے پاس ہے اس میں سے جس مخصوص بندہ کو جس قدر چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے حصہ دیتا ہے اس پر بھی بقول مخبر صادق ایمان لانا واجب ہے۔ دیدار سے مشرف نہ ہوئے، ہائے اس دولت سے محروم رہ گئے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا۔ یہ صحیح مگر ایک نعمت سے ہم محروم رہ گئے وہ تم کو نصیب ہے وہ یہ کہ تم بےدیکھے آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے۔ خدائے تعالیٰ کی قسم جس نے محمد ﷺ کو آنکھ سے دیکھ لیا اس کے نزدیک آپ کی نبوت آفتاب سے زیادہ روشن ہوگئی۔ ایمان تمہارا ہے کہ بغیر دیکھے ایمان لائے۔ طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ سفر میں صبح کے وقت ایک بار قافلہ میں وضو کو پانی نہ تھا آنحضرت ﷺ نے ڈھونڈوایا تو ایک آدمی کے پاس صرف ایک برتن میں قدرے پانی نکلا، آپ ﷺ نے اس میں اپنی انگلیاں ڈال دیں تو وہ فوارے کی طرح جوش مارنے لگا، بلال کو حکم دیا کہ پکارو سب آ کر وضو کرلیں، سینکڑوں صحابہ نے وضو کیا اور خوب پیٹ بھر کر پانی پیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا کہ تمام مخلوقات میں سے کس کا ایمان عجب تر ہے ؟ لوگوں نے کہا ملائکہ کا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان کے ایمان میں کیا تعجب ہے وہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہیں اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں وہ کیونکر ایمان نہ لاتے۔ لوگوں نے پھر عرض کیا آپ ﷺ کے صحابہ کا۔ آپ ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ صدہا معجزات دیکھتے ہیں، ان کے ایمان میں کیا تعجب ہے، البتہ عجب ان کا ایمان ہوگا جو میرے بعد پیدا ہوں گے اور میرا نام سن کر صدق دل سے ایمان لاویں گے، وہ میرے بھائی ہیں اور تم اصحاب۔ ابودائود طیالسی نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہا کہ اے ابو عبدالرحمن تم نے ان آنکھوں سے جناب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے ؟ عبداللہ ؓ نے کہا، ہاں پھر اس نے کہا تم نے اپنی زبان سے آنحضرت ﷺ سے کلام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا تم نے اپنے ہاتھوں کو حضرت کے ہاتھوں میں دے کر بیعت کی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ یہ سن کر وہ شخص حضرت کے شوق میں زار زار رونے لگا اور ایک حالت وجد اس پر طاری ہوگئی۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا میں تجھ کو ایک خوشخبری سناتا ہوں کہ جو میں نے آنحضرت ﷺ سے سنی تھی وہ یہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے خوشحالی ہے اس کو جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور اس سے بھی زیادہ خوشحالی ہے اس کو کہ جو بغیر دیکھے مجھ پر ایمان لایا۔ یہ روحانی جذبہ جو اب تک چلا آتا ہے حضرت ﷺ کا معجزہ ہے۔ یقیمون الصلوٰۃ : اقامت سید ھا کھڑا کرنا، یعنی تعدیل ارکان اور نہایت خضوع و خشوع اور حضور قلب سے نماز ادا کرنا اور ہر جگہ قرآن میں نماز کو بلفظ اقامت طلب کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ نماز پڑھنا اور چیز ہے اور اس کو قائم کرنا اور بات ہے، اس کا قائم کرنا یہ ہے کہ حدث اصغر و اکبر سے کہ نجاست حکمی ہے ‘ پیشاب اور پائخانہ وغیرہ سے کہ نجاست حقیقی ہے پاک ہو (کیونکہ اس سے روح کو صفائی حاصل ہوتی ہے اور خطرات دفع ہوتے ہیں) پھر اس کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو کر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ اٹھائے تاکہ اس طرف اشارہ ہو کہ دین و دنیا غیر اللہ سب سے ہاتھ اٹھا کر اس کے دربار میں حاضر ہوا ہوں، پھر ثناء اور اس کی حمد کرے، پھر سورة الحمد پڑھے کہ جس میں اس کی ثناء اور اپنے لیے دعا ہے اس کے بعد کسی قدر اور قرآن مجید پڑھے کہ اس سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہو، پھر زیادہ شوق میں آ کر اس کے آگے جھکے اور اس کی باایں الفاظ سبحان ربی العظیم نہایت حمدو ثنا کرے پھر کھڑا ہو کر اس کی حمد میں ربنا لک الحمد کہے اور نہایت ادب اور محبت سے اس کے پائوں میں (حالانکہ وہ ان پائوں سے پاک ہے) سر رکھ کر عجز و نیاز سے سبحان ربی الاعلیٰ کہے تاکہ نفس کا تمام کبر و غرور خاک میں مل جائے، پھر اس تقرب کے شکریہ میں دوبارہ سجدہ کرے اور پھر دوسری رکعت میں اسی طرح ادا کرے بعد اس کے باادب اس کے روبرو بیٹھ کر التحیات پڑھے یعنی نہایت حمد وثناء اور شکریہ ادا کرے اور اپنے لیے دعا مانگے اور سلام پھیردے کہ ایک سفر باطنی سے باز آنا ثابت ہوجائے۔ یہ مختصر سا حال اہل اسلام کی نماز کا ہے اور آگے صحابہ ؓ اور کاملین کا سجدہ میں رونا اور تمام عاشقانہ ہیئت بنا کے ادب کے ساتھ اس کی جناب کبریائی میں جانا بیان سے باہر ہے، اب اس نماز کو عیسائیوں اور ہنود وغیرہم مذاہب کی نماز سے مقابلہ کرکے دیکھئے تو دین الٰہی اور دین واہی میں اسی وقت تمیز ہوجائے۔ ہنود مجوس کے ہاں تو عناصر اور آفتاب وغیرہ مخلوقات کی پرستش ہے اور حضرات عیسائی بلاطہارت گرجا میں جا کر باجا بجاتے اور خوب گاتے ہیں۔ آج کل دہلی میں پادریوں نے ایک پریم سبھا قائم کی ہے، جس میں طبلہ، سارنگی اور آلات لہو و لعب بجا کر حضرت مسیح کے بھجن گائے جاتے ہیں، جسے کان کے رسیا دور دور سے سننے آتے اور مزے اڑاتے ہیں۔ ع ببیں تفاوت رہ از کجاست تابکجا۔ نکات : (1) یؤمنون اور یقیمون اور ینفقون، متقین کی صفت میں تین جملہ فعلیہ آئے ہیں کہ جو تجدد اور حدوث پر دلالت کرتے ہیں تاکہ یہ بات سمجھی جائے کہ صرف ایک بار ان باتوں سے متصف ہوجانا متقی ہونے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ وقتاً فوقتاً ان اوصاف کو بالاختیار کام میں لانا چاہیے جیسا کہ جملہ فعلیہ تجدد اور حدوث پر دلالت کرتا ہے اور یہ کہ متقی کسی کا ذاتی اور خاندانی حصہ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ کیسی بات ہے کہ جو ایسے کام کرے گا وہ متقی ہوگا اور جو نہ کرے گا تو جناب کبریائی سے اس لقب سے محروم رہے گا، خواہ برہمن ہو خواہ بنی اسرائیل ہو خواہ کیا نی ہو اور خواہ نبی زادہ ہو خواہ ولی زادہ ہو یا پیرزادہ۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎ ذات بھانت پوچھے ناکو ہر کو بھجے سو ہر کا ہو (2) ان تینوں جملوں میں ترتیب طبعی کو ملحوظ رکھا ہے وہ یہ کہ جس کا مرتبہ مقدم تھا اس کو مقدم اور جس کا مؤخر تھا اس کو پیچھے ذکر کیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ تمام عبادتوں اور سب نیکیوں کی جڑ ایمان ہے چند وجہ سے : (1) یوں کہ یہ فعل قلب ہے جو تمام بدن کا بادشاہ ہے۔ (2) یہ قوت نظریہ سے متعلق ہے جو قوت عملیہ سے مقدم اور اشرف ہے کیونکہ موت کے بعد یہ ادراکات انسان کے ساتھ باقی رہتے ہیں اور تکمیل نفس کرتے اور جہل کی ظلمت سے آزادی بخشتے ہیں۔ (3) تمام نیکیوں اور اعمال صالحہ پر جو چیز انسان کو حرکت دیتی اور متوجہ کرتی ہے وہ صرف ایمان ہے، لہٰذا شرع نے ایمان والے کو گو اس کے عمل خراب ہوں ابدی جہنم سے محفوظ رکھا ہے اور جس کو ایمان نصیب نہیں اس کے اعمال صالحہ کا بھی اعتبار نہیں کیا۔ پس ایمان کو سب پر جملہ، یؤمنون بالغیب میں مقدم کیا، پھر اعمال میں نماز مقدم ہے کیونکہ (1) یہ اس کی جناب میں حضوری اور اس کے دربار عالی میں باریابی ہے۔ (2) اس میں روزہ اور دیگر عبادات بھی شامل ہیں کس لیے کہ جب تک مومن نماز میں رہتا ہے نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ جماع کرتا ہے اور زبان بھی اس میں غیر ذکر الٰہی سے بند رہتی ہے اور دل اور تمام حواس بلکہ ہاتھ پائوں سر سب اعضاء بھی مصروف ہوجاتے ہیں اور نماز کے لیے کپڑے اور مکان یعنی مسجد وغیرہ میں اللہ کے نام مال بھی صرف ہوتا ہے (3) یہ دن رات میں کم از کم پانچ بار ادا کرنی پڑتی ہے، اور زکوٰۃ اور صدقہ کا تو کبھی کبھی اتفاق ہوتا ہے۔ (4) اس میں غنی اور فقیر سب شریک ہیں اس لیے اس کو زکوٰۃ اور صدقہ پر مقدم کیا۔ (3) ممارزقنہم ینفقون 1 ؎ میں من تبعیضیہ کو پہلے ذکر کرکے جتلا دیا کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم اپنے تمام مال کو دے کر فقیر ہوجاؤ اور پھر آپ مانگتے پھرو اور حیرانی اٹھاؤ کیونکہ یہ بات قانون شریعت کے برخلاف ہے۔ نہ عام طبائع اس کو قبول کرسکتی ہے بلکہ یہ کہ کسی قدر خدا کی راہ میں دو اور باقی اپنے نفس اور اہل و عیال کے لیے رکھو، گویا کنایۃً اسراف اور فضول خرچیوں سے بھی منع 2 ؎ کردیا اور اس فضولی سے روک دیا کہ بیاہ شادی یا کسی اور تفاخر اور نامداری کے کام میں یا لڑکوں کی بسم اللہ ‘ ختنہ ‘ عقیقہ ‘ دودھ بڑھانے میں اندھا بن کر صرف کیا جاوے کہ پھر آج جن کے روبرو اتراتے تھے کل ان کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھرتے ہیں، اپنی جائیداد اور تنخواہ یا کسی اور آمدنی کو کسی سود خوارمہاجن کے پاس گرو رکھ کر تمام عمر کے لیے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس کا غلام بنا دیا جائے ہم آج کل ہندوستان میں دیکھتے ہیں کہ ان فضول خرچیوں سے 1 ؎ کس لیے کہ خرچ کرنے سے مراد کارخیر میں خرچ کرنا ہے اور یہ بیہودہ خرچ ممنوع ہے کارخیر میں خرچ نہ ہونے کے سبب۔ 12 منہ 2 ؎ مَا رَزَقْتَنَا کا لفظ ہر ایک قسم کی نعمت کو شامل ہے پس جس طرح اپنا مال اللہ کے واسطے خرچ کرنے والے اس آیت کی فضیلت میں داخل ہیں۔ اسی طرح یہ فضیلت ان افراد کے لیے بھی ثابت ہے جو اپنی زبان یا ہاتھ پائوں سے یا علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ حقانی مسلمانوں کے باغ اور گائوں اور مکانات ان ہندوئوں کے قبضہ میں آگئے جو ابتدا میں ان کے ملازم تھے اور اب وہ آقا ہیں اور یہ ان کے خدمتگار ہیں اور سود کی بلا میں گرفتار خَسِرَ الدُّنْیَا وَاْلآخِرَۃِ ۔ (4) مال کا صرف کرنا اور خدا کی راہ میں دینا بھی جواں مردی کا کام ہے۔ بہت سے لوگ ایسے کنڑ ہیں کہ سینکڑوں روزے رکھوا لو، بیشمار نماز پڑھوا لو مگر دینے کا کچھ ذکر نہ کرو، چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائے اور یہ بخل دنیا و آخرت میں مضر ہے۔ دنیا کا یہ ضرر ہے کہ جب اقارب اور ماں باپ پر سختی ہے اور وہ اس کی طرف احتیاج لاتے ہیں اور یہ موذی ٹالتا ہے تو ان کو نہایت رنج بلکہ حسد اور کینہ ہوتا ہے، جس سے اس کے ان کاروبار میں کہ جو عزیز اور دوستوں کی مدد اور اعانت سے متعلق ہیں فرق آتا ہے اور یہ سب کی آنکھوں میں حقیر اور مکروہ دکھلائی دیتا ہے، اس کے مرنے کی لوگ آرزو کیا کرتے ہیں۔ الغرض ان ہی وجوہ سے اس پر بڑی مشکلیں پیش آتی ہیں اور حقداروں کی بددعائیں اس کے لیے مصائب بن جاتی ہیں۔ بخلاف اس کے کہ جب عزیزوں اور دوستوں اور اپنے بیگانوں پر لطف و کرم کرتا ہے تو گویا ان کے دلوں میں اپنی محبت کا سکہ جما دیتا ہے اور ہزاروں دلوں کو مٹھی میں لے لیتا ہے اسی لیے سخی کے ہزار سچے دوست اور بخیل کے اپنے عزیزو اقارب بھی دشمن ہوتے ہیں، اس کے علاوہ جب غریبوں اور یتیموں اور بیکسوں کی پرورش کا دستور نہ رہے گا اور نہ قوم کی درستی اور رفاہ عام کے لیے اور مخالفوں کے دفع کے لیے۔ سب سے لے کر جمع کیا جاوے گا اور لوگ نہ دیں گے تو یہ تمام قوم مصیبت میں گرفتار اور مخالفوں کے غلام اور تابعدار بن جائے گی اور یہ دولت شخصی بھی نہ رہے گی اور آخرت کی یہ قباحت ہے کہ جب دل پر مال کی محبت نقش ہوجاتی ہے تو جب روح اس جسم کو چھوڑ کر اس عالم میں جاتی ہے تو اس محبوب کی جدائی میں بڑے رنج اٹھاتی ہے اور یہ بیجا محبت اس عالم میں سانپ اور بچھو اور آگ کی صورت میں ظہور کرکے خوب ستاتی ہے۔ اس لیے اس اہم مقصود کی تعمیل آسان کرنے کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں دو لفظ بڑھا دیے کہ جس سے یہ کلفت عمل آسان ہوگئی (1) من تبعیضیہ ذکر کرکے یہ جتلا دیا کہ کل یا اکثر نہیں بلکہ تھوڑا سا صرف کرو۔ (2) رزقنا کہہ کے یہ بتلا دیا کہ یہ جو کچھ تم دیتے ہو کچھ اپنے گھر کا نہیں دیتے ہو یہ ہم نے دیا تھا ہم پھر بھی دے سکتے ہیں۔ ہم پرتو کل کرکے دو اس میں ایک اور بھی نکتہ ہے وہ یہ کہ مال کے علاوہ اور جو علم و ہنر عقل و تدبیر قوم اور ملک کے کارآمد ہو اس کو بھی مارزقنا شامل ہے، اس کو بھی صرف کرنا چاہیے۔ فائدہ : اس ممارزقناھم سے مراد عام ہے خواہ صدقہ ہو، خواہ زکوٰۃِ مفروضہ اور زکوٰۃ کا سر اور اس کے فضائل اور فوائد ہم آگے بیان کریں گے، انشاء اللہ۔
Top