Tafseer-e-Haqqani - Al-Hajj : 75
اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌۚ
اَللّٰهُ : اللہ يَصْطَفِيْ : چن لیتا ہے مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں میں سے رُسُلًا : پیغام پہنچانے والے وَّ : اور مِنَ النَّاسِ : آدمیوں میں سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
فرشتوں اور آدمیوں میں سے اللہ ہی ( جس کو چاہتا ہے) پیغام پہنچانے کے لیے منتخب کرلیتا ہے بیشک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔
بتوں کی حقیقت تو معلوم ہوگئی اب رہے وہ لوگ کہ جو خدا کے برگزیدہ ہیں ملائکہ و انبیاء جن کو کہ اکثر بت پرست یا مشرکین پوجتے ہیں اور معبود حقیقی کے برابر ان کے درجات تسلیم کر کے ان سے حاجات کا سوال کرتے ہیں جیسا کہ عیسائی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اور ہنود اپنے بزرگوں کو آج کل کے جاہل مسلمان اولیائِ کرام اور بزرگان دین کو پوجتے ہیں اور عرب کے مشرکین اور صائبین ملائکہ کو پوجتے تھے پس ان کی نسبت فرماتا ہے اللہ یصطفٰی من الملائکۃ رسلاومن الناس کہ ملائکہ اور لوگوں میں سے جو ممتاز اور رسول ہیں ان کو بھی تو اللہ ہی نے برگزیدہ کیا ہے یعنی ان کے کمالات اپنے گھر کے نہیں ان کی بزرگی اللہ کی عطا کی ہوئی ہے پھر اللہ کو چھوڑ کر اللہ کے بندوں کو پوجنا کیا عقل ہے ؟ دوم لفظ رسلا میں اشارہ ہے کہ ملائکہ یا انسانوں میں جس قدر محترم اور معزز ہیں وہ رسول ہیں یعنی رسل ملائکہ یا بنی آدم ان کے بھی اصطفاء اور برگزیدگی کا باعث رسالت ہے پھر یہ جس کے رسول ہیں اس کے برابر اور اس سے زیادہ کیونکر ہوسکتے ہیں ؟ سوم جب رسول ہیں تو ضروریہ اللہ کے پیغام بندوں کے پاس لاتے تھے اور سب سے مؤکد پیغام یہی تھا کہ اللہ کے سوا کسی کو معبود نہ بنانا پھر عجیب ہے کہ ان کے پیغام کو بالائے طاق رکھ کر انہیں کو خدائی کا شریک سمجھنے لگے۔ اور اسی کلام میں مکہ کے منکروں کا جواب بھی ہے وہ کہتے تھے کہ کیا اللہ نے ہم سب میں سے محمد ﷺ ہی کو رسالت کے لیے خاص کرلیا۔ انزل علیہ الذکر من بیننا کہ اس میں کسی کا کیا اجارہ ہے۔ اللہ فرشتوں میں سے جس فرشتہ کو چاہتا ہے اس کام کے لیے ممتاز کرلیتا ہے اور اسی طرح انسانوں میں سے جس انسان کو چاہتا ہے اس کام کے لیے ممتاز کرلیتا ہے۔ ان اللہ سمیع بصیر وہ ہر ایک بات کی مصلحت سے خوب واقف ہے اور ان بزرگوں کے پوجنے والے جو حجتیں کر کے ان کو الوہیت میں شریک کرتے ہیں وہ ان کی باتیں سن رہا ہے اور جو کچھ افعال عبودیت ان بزرگوں کے لیے کر رہے ہیں ان کو دیکھ رہا ہے یعلم ما بین ایدیہم وما خلفہم اللہ کو اگلی پچھلی ہر بات معلوم ہے والی اللہ ترجع الامور اور ہر بات کا انتہا اللہ ہی کی طرف ہے یعنی ہر بات اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگلے جملے سے علم اس سے قدرت کا اثبات مقصود ہے۔ بت پرستی اور شرک کی مذمت اور دنیا میں رسولوں کی بعثت بیان کر کے ایمانداروں کو ان باتوں کی تاکید کرتا ہے جو نجات اور فلاح کا ذریعہ ہیں فقال یا ایہا الذین آمنوا ارکعوا واسجدوا کہ اے ایماندارو خدا تعالیٰ کو رکوع سجود کرو یعنی نماز پڑھا کرو جس میں رکوع اور سجود ہے اور نماز کے علاوہ اور بھی عبادت کیا کرو اعبدوا ربکم تلاوت ذکر روزہ اور وافعلوا الخیر ہر ایک نیکی کرو اس میں صلہ رحمی ‘ خیرات ‘ صدقات ‘ مکارم اخلاق دنیا کی سب اچھی باتیں آگئیں۔ لعلکم تفلحون تاکہ تمہیں فلاح ہو۔ ابن المبارک و احمد و اسحاق و امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بعد سجدہ کرنا لازم ہے اور سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ ; کے نزدیک اس جگہ سجدہ تلاوت واجب نہیں قرآن مجید میں چودہ جگہ سجدہ تلاوت واجب ہے امام شافعی سورة صؔؔ میں سجدہ واجب نہیں جانتے۔ اس کے بدلہ میں اس جگہ کا سجدہ لے کر چودہ پورے کرتے ہیں ہمارے امام کے نزدیک سورة صؔ میں سجدہ ہے یہاں نہیں۔ واللہ اعلم اس کے بعد ایک اور حکم دیتا ہے وجاھدوا فی اللہ حق جہادہ جہاد سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک وشمنان دین سے جنگ کرنا ہے اور حق جہادہ سے مراد پورے طور پر اور نہایت سعی و کوشش سے جس کی تفسیر بعض نے یوں کی ہے کہ خالصاً للہ اور بعض کہتے ہیں جس میں سردار اور اللہ کی مخالفت نہ ہو۔ بعض کہتے ہیں جس میں کسی کی ملامت کا خوف نہ ہو۔ پھر یہ عام ہے خواہ زبان سے ہو ‘ خواہ تلوار سے اور اس حکم کا سب کے اخیر میں صادر کرنا اس بات کو جتلاتا ہے کہ نماز و فعل الخیرات سب سے بڑھ کر یہ کام ہے کیونکہ جب تک شرِاعد اسے امن قائم نہ ہوگا تو زمین پر خدا تعالیٰ کے بندے نہ بفراغ قلبی نماز پڑھ سکیں گے نہ کوئی اور نیک کام کرسکیں گے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں جاھدوا فی اللہ سے عام طور پر ہر دینی بات میں دل سے کوشش کرنا مراد ہے خواہ اعدائِ دین سے جنگ ہو خواہ علم دین کی ترویج خواہ اور نیکی کی باتیں اس تقدیر پر یہ جملہ گویا کلام سابق کے لیے تاکید ہے۔ بعض اہل عرفان جیسا کہ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں اس سے مراد مجاہدہ نفس ہے کہ نفس کو ناجائز خواہشوں سے روکو اور اسی کو جہاد اکبر کہتے ہیں اور یہی حق الجہاد ہے۔ پھر فرماتا ہے ھو اجتبکم کہ اللہ نے تم کو اے امت محمد ﷺ اس خدمت کے لیے ممتاز کرلیا ہے تم کسی کے تعن وتشنیع کی پروانہ کرو۔ و ماجعل علیکم فی الدین من حرج اور تم کو جو شریعت دی گئی ہے اس میں کوئی مشکل اور دقت نہیں رکھی گئی ہے۔ کوئی گناہ ایسا نہیں کہ جس سے خلاصی اور جس کی معافی توبہ و استغفار یا کفارہ وقصاص سے نہ مقرر کی گئی ہو اور اسی طرح اوقات عبادت کے لحاظ سے بھی سہولت ہے اور اسی طرح اگر غسل و وضو نہ کرسکے تیمم کی اجازت ہے۔ کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے بیٹھ کر پڑھ لے ‘ سفر میں قصر ہے ‘ بیمار کو افطار کی رخصت ہے یہاں تک کہ جو چیزیں سور مردار وغیرہ حرام ہیں بوقت اضطرار ان کی بھی اجازت ہے۔ یہود کی طرح شریعت اور احکام سخت نہیں نہ ہنود کی طرح کچا مذہب ہے کہ غیر کے ہاتھ لگنے سے دھرم بھرشٹ ہوجاوے۔ اپنے ہاتھ سے چوکا کرے اور ہزاروں پاک چیزیں حرام و ممنوع ان کے ہاں قراردی گئی ہیں یہاں تک کہ سفرو حضر ‘ موت وحیات معاملات کا دائرہ تنگ کردیا گیا ہے۔ ملۃ ابیکم ابراھیم یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت ہے کوئی نئی شریعت نہیں۔ اس میں عرب کی طرف خطاب ہے جو اکثر ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور تمام امت بھی مراد ہوسکتی ہے۔ کس لیے کہ انبیاء (علیہم السلام) خصوصا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کے جدِّا مجد ہونے کی وجہ سے جو مسلمانوں کے روحانی باپ ہیں سب مسلمانوں کے باپ ہیں قرآن مجید میں حضرت ﷺ کی بیویوں کو مسلمانوں کی ماں کہا ہے وازواجہم وامہاتہم پس آپ باپ ہیں اور آنحضرت ﷺ کی شریعت کا مادہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت ہے بلحاظ زمانہ اس میں کچھ ترمیم ہوئی ہے۔ اس لیے حضرت ﷺ کی شریعت کو ملت ابراہیم کہتے ہیں۔ ھوسماکم المسلمین من قبل کہ اسی نے تو تمہارا نام پہلے سے مسلمان یعنی فرمانبردار کہا ہے جیسا کہ دعا کی تھی ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک و فی ہذا اور اس کتاب میں بھی اور اس عہد میں بھی تمہارا نام مسلمان قرار پایا ہے لیکون الرسول شہیدا علیکم وتکونوا شہدا علی الناس تاکہ رسول قیامت میں تمہارا گواہ بنے اور تم تمام بنی آدم کے لیے گواہ بنو۔ توحید و عبادات کا قیام تمہارے سپرد کیا گیا ہے فاقیموالصلوۃ و اتو الزکوۃ۔ جانی اور مالی عبادت میں سرگرم رہا کرو واعتصموا باللہ اور ہر بات میں اللہ ہی کا بھروسہ رکھو اپنے دشمنوں سے کچھ خوف نہ کرو کیونکہ ھو مولکم وہ تمہارا مالک اور کارساز ہے فنعم المولی ونعم النصیر۔
Top