Jawahir-ul-Quran - Al-Hajj : 75
اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌۚ
اَللّٰهُ : اللہ يَصْطَفِيْ : چن لیتا ہے مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں میں سے رُسُلًا : پیغام پہنچانے والے وَّ : اور مِنَ النَّاسِ : آدمیوں میں سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اللہ چھانٹ لیتا ہے88 فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں اللہ سنتا دیکھتا ہے
88:۔ ” اَللّٰهُ یَصْطَفِی الخ “ یہ ایک شبہ کا جواب ہے کہ فرشتے اور انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور پیارے بندے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اختیارات دے کر اپنا نائب بنا لیا ہے اور وہ باذن اللہ مخلوق کی کارسازی کرتے ہیں فرمایا یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ فرشتے اور انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے پیارے اور برگزیدہ بندے ہیں مگر وہ اللہ کے نائب اور کارخانہ عالم میں متصرف و مختار اور کارساز نہیں ہیں کیونکہ کارسازی کے لیے غیب دان ہونا ضروری ہے اور وہ غیب دان نہیں ہیں۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے صرف اللہ تعالیٰ ہی سمیع لکل شیء (ہر بات کو سننے والا) اور بصیر بکل شیء (ہر چیز کو دیکھنے والا) ہے۔ ” وَ اِلَی اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْر “ اور کارساز بھی وہی ہے دوسرا کوئی نہیں یا یہ تمثیل مذکور سے متعلق ہے۔ معبود من دون اللہ کی عاجزی اور بےبسی کو ایک مثال سے واضح کر کے فرمایا۔ فرشتے اور انبیاء (علیہم السلام) بیشک میرے منتخب اور محبوب بندے ہیں۔ مگر معبود بننے کے لائق وہ بھی نہیں کیونکہ وہ خواص معبودیت اور صفات کارسازی سے عاری ہیں۔
Top