Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 75
اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌۚ
اَللّٰهُ : اللہ يَصْطَفِيْ : چن لیتا ہے مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں میں سے رُسُلًا : پیغام پہنچانے والے وَّ : اور مِنَ النَّاسِ : آدمیوں میں سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اللہ چھانٹ لیتا ہے فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں اللہ سنتا دیکھتا ہے
خلاصہ تفسیر
اللہ تعالیٰ (کو اختیار ہے رسالت کے لئے جس کو چاہتا ہے) منتخب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے (جن فرشتوں کو چاہے) احکام (الٰہیہ نبیوں کے پاس) پہنچانے والے (مقرر فرما دیتا ہے) اور (اسی طرح) آدمیوں میں سے بھی جس کو چاہے عامہ ناس کے لئے احکام پہنچانے والے مقرر کردیتا ہے یعنی رسالت کا مدار اصطفاء خداوندی پر ہے اس میں کچھ ملکیت یعنی فرشتہ ہونے کی خصوصیت نہیں بلکہ جس طرح ملکیت کے ساتھ رسالت جمع ہو سکتی ہے جس کو مشرکین بھی مانتے ہیں چناچہ فرشتوں کے رسول ہونے کی وہ خود تجویز کرتے تھے اسی طرح بشریت کے ساتھ بھی وہ جمع ہو سکتی ہے رہا یہ کہ اصطفا کسی ایک خاص کے ساتھ کیوں واقع ہوا تو ظاہری سبب تو اس کا خصوصیات احوال ان رسل کے ہیں اور یہ) یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے (یعنی) وہ ان (سب فرشتوں اور آدمیوں) کی آئندہ اور گزشتہ حالتوں کو (خوب) جانتا ہے (تو حالت موجودہ کو بدرجہ اولیٰ جانے گا غرض سب احوال مسموعہ و مبصرہ اس کو معلوم ہیں ان میں بعض کا حال مقتضی اس اصطفا کا ہوگیا) اور (حقیقی سبب اس کا یہ ہے کہ) تمام کاموں کا مدار اللہ ہی پر ہے (یعنی وہ مالک مستقل بالذات و فاعل مختار ہے اس کا ارادہ مرجح بالذات ہے۔ اس ارادہ کے لئے کسی مرجح کی ضرورت نہیں، پس سبب حقیقی ارادہ خداوندی ہے اور اس کا سبب پوچھنا لغو ہے وھو معنی قولہ تعالیٰ لا یسئل عما یفعل، یعنی اللہ تعالیٰ سے اس کے کسی فعل کا سبب دریافت کرنے کا کسی کو حق نہیں۔
(آگے ختم سورت پر اول فروع و شرائع کا بیان ہے اور ملتہ ابراہیم پر استقامت کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی ترغیب کے لئے بعض مضامین ارشاد فرمائے ہیں) اے ایمان والو (تم اصول کے قبول کرنے کے بعد فروع کی بھی پابندی رکھو۔ خصوصاً نماز کی، پس تم) رکوع کیا کرو اور سجدہ کیا کرو اور (عموماً دوسرے فروع بھی بجا لا کر) اپنے رب کی عبادت کیا کرو اور نیک کام کیا کرو۔ امید (یعنی وعدہ) ہے کہ تم فلاح پاؤ گے اور اللہ کے کام میں خوب کوشش کیا کرو جیسا کوشش کرنے کا حق ہے، اس نے تم کو (دوسری امتوں سے) ممتاز فرمایا (جیسا کہ آیت جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا وغیرہ میں مذکور ہے) اور تم پر دین میں کسی قسم کی تنگی نہیں کی (اور اے ایمان والو، جس اسلام کا تم کو امر کیا گیا ہے کہ احکام کی پوری بجا آوری ہو اور یہی ملت ابراہیمی ہے) تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر قائم رہو اس نے تمہارا لقب مسلمان رکھا پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی، تاکہ تمہارے لئے رسول اللہ گواہ ہوں اور (اس شہادت رسول کے قبل) تم (ایک بڑے مقدمہ میں جس میں ایک فریق حضرات انبیاء ہوں گے اور فریق ثانی ان کی مخالف قومیں ہوں گی ان مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو (اور رسول کی شہادت سے تمہاری شہادت کی تصدیق ہو اور حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں فیصلہ ہو) سو (ہمارے احکام کی پوری بجا آوری کرو، پس) تم لوگ (خصوصیت کے ساتھ) نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیتے رہو اور (بقیہ احکام میں بھی) اللہ ہی کو مضبوط پکڑے رہو (یعنی عزم و ہمت کے ساتھ دین کے احکام بجا لاؤ، غیر اللہ کی رضا و عدم رضا اور اپنے نفس کی مصلحت و مضرت کی طرف التفات مت کرو) وہ تمہارا کار ساز ہے سو کیسا اچھا کار ساز ہے اور کیسا اچھا مددگار ہے۔
Top