Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 75
اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌۚ
اَللّٰهُ : اللہ يَصْطَفِيْ : چن لیتا ہے مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں میں سے رُسُلًا : پیغام پہنچانے والے وَّ : اور مِنَ النَّاسِ : آدمیوں میں سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ بےشک خدا سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
اللہ یصطفی من الملئکۃ رسلا ومن الناس اللہ ہی ملائکہ میں سے اپنے پیغامبر منتخب کرلیتا ہے اور آدمیوں میں سے بھی (رسالت کے لئے بعض آدمیوں کو چھانٹ لیتا ہے) ۔ بعض فرشتے اللہ کے قاصد ہیں ‘ اللہ کے احکام وحی کے ذریعہ انبیاء تک پہنچاتے ہیں اور لوگوں کی روحیں قبض کرنے اور رزق پہنچانے میں بھی درمیانی واسطہ کا کام انجام دیتے ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے مرسل ملائکہ جبرئیل ( علیہ السلام) ‘ میکائیل ( علیہ السلام) ‘ اسرافیل ( علیہ السلام) ‘ عزرائیل ( علیہ السلام) وغیرہ ہیں آدمیوں میں سے اللہ کے پیغمبر سب لوگوں کو حق کی طرف بلاتے ہیں ‘ اللہ کی طرف سے جو احکام ان پر نازل ہوتے ہیں وہ دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ سب سے پہلے رسول حضرت آدم ( علیہ السلام) تھے اور سب سے آخری رسول حضرت محمد ﷺ ۔ بغوی نے لکھا ہے یہ آیت اس وقت اتری جب مشرکوں نے کہا تھا ءَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا کیا ہماری جماعت میں سے اس (معمولی) شخص پر قرآن اتارا گیا (اور اس کو نبی بنایا گیا حالانکہ ہم میں بڑے بڑے سردار اور عزت رکھنے والے لوگ موجود ہیں) اس کی تردید میں فرمایا کہ پیغمبر بنانے کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جس کو چاہتا ہے پیغمبری کے لئے منتخب کرلیتا ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے پہلی آیات میں وحدانیت ذاتی اور الوہیت کو ثابت کیا اور توحید صفاتی کا اظہار کردیا۔ اس آیت میں نبوت کو ثابت کردیا اور کافروں کے قول کی تردید کردی۔ کافروں نے بت پرستی اور ملائکہ پرستی کی توجیہ کرتے ہوئے کہا تھا مانَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی اور یہ بھی کہا تھا۔ اَلْمَلٰءِکَۃُ بَنَات اللّٰہِ ۔ اللہ نے اس آیت میں فرمایا کہ اللہ کے کچھ منتخب بندے ہیں جن کو اللہ اپنے اختیار سے چن لیتا ہے وہ اللہ اور بندوں کے درمیان پیغامبر ہوتے ہیں انہی کے حکم کو ماننے اور اس پر چلنے سے اللہ کی اطاعت تک دوسروں کی رسائی ہوتی ہے۔ پیغمبروں کی پیروی ہی دوسرے لوگوں کی ترقی کا بلند ترین درجہ ہے۔ ان اللہ سمیع بصیر۔ بیشک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ یعنی (مسموعات ہوں یا مرئیات) سب چیزوں سے واقف ہے اس کو ہر چیز کا علم ہے (اور بغیر حواس کے وہ ہر چیز کو جانتا ہے) ۔
Top