Tafseer-e-Haqqani - Al-Anfaal : 68
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
لَوْ : اگر لَا : نہ كِتٰبٌ : لکھا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے سَبَقَ : پہلے ہی لَمَسَّكُمْ : تمہیں پہنچتا فِيْمَآ : اس میں جو اَخَذْتُمْ : تم نے لیا عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر خدا کا پہلے سے نوشتہ (تقدیر) نہ ہوتا تو جو کچھ تم نے (بدر کے قیدیوں سے) لے لیا ہے اس پر تمہیں بڑی سزا ملتی
ترکیب : ان یکون کا جملہ کان کا اسم کتاب مبتداء من اللّٰہ صفت اول سبق صفت ثانی یا سبق خبر لمسکم جملہ جواب لولا۔ لمن لام قل سے متعلق ہے فی ایدیکم صلہ من الاسریٰ من کا بیان ان یعلم اللّٰہ جملہ مقولہ ہے قل کا وان یریدوا معطوف ہے ان یعلم پر یا مستانفہ۔ تفسیر : بدر کی لڑائی سے آنحضرت ﷺ ستر قیدی کفار کے لے کر مدینہ میں آئے۔ ان قدیوں کی بابت کہ جن میں حضرت کے چچا عباس اور علی کے بھائی عقیل ؓ بھی تھے۔ لوگوں سے رائے طلب کی گئی۔ ابوبکر ؓ نے کہا فدیہ لے کر چھوڑ دیجئے۔ آپ کی قوم ہے۔ خدا ان کو توفیق ہدایت دے گا۔ عمر ؓ نے کہا قتل کرنا چاہیے تاکہ کفر کا زور ٹوٹے۔ عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا ٗ آگ میں جلا دیجئے۔ آخرکار آنحضرت ﷺ کو ابوبکر کی رائے پسند آئی۔ ہر ایک سے چالیس اوقیہ 1 ؎ لے کر چھوڑ دیا۔ عباس ؓ سے خود ان کا اور ان کے بھتیجے عقیل کا اور نوفل بن حارث کا تاوان لیا جس پر عباس ؓ نے کہا کہ میں فقیر 2 ؎ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا وہ سونا جو گھر میں دبا کر آیا ہے کہاں ہے چونکہ اس کی کسی کو بھی خبر نہ تھی یہ سنتے ہی عباس ؓ اسلام لائے۔ کتب حدیث میں یہ مضمون پایا جاتا ہے۔ 1 ؎ اوقیہ سونے کا ایک وزن تھا جس کے چالیس درہم ہوتے تھے۔ درہم کچھ کم چار آنے کا تھا۔ 2 ؎ جب بحرین کا اخراج آنحضرت کے حضور میں آیا تو عباس سے کہا جس قدر تجھ سے اٹھ سکے اٹھالے اس فدیہ کے معاوضہ میں اسی طرح مالا مال ہوگئے۔ 12 منہ امام کے اختیار میں چار باتیں یہ ہیں یا قیدیوں کو فدیہ لے کر یا مفت چھوڑ دے یا مار ڈالے یا غلام بنا کر رکھے سب اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے بجز نیچر یوں کے وہ تقلید یورپ غلام بنانا درست نہیں جانتے۔ 12 منہ فدیہ لینا اور قتل کرنا آنحضرت ﷺ کے لئے دونوں فعل مباح تھے اور اسی لئے لوگوں سے مشورہ لیا تھا لیکن زیادہ تر مناسب وقت ان کا قتل کرنا تھا تاکہ پھر سرکشی نہ کرتے اور انبیاء (علیہم السلام) پر ترک اولیٰ پر بھی عتاب ہوتا ہے۔ اس لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی کو زیبا نہیں کہ قیدی بنا رکھے اور خوب قتل نہ کرے۔ اے مسلمانو ! تم فدیہ کی طرف مائل ہوئے جو دنیا کا اسباب ہے۔ اللہ تو تمہارے لئے عالم باقی کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ حکیم اور زبردست ہے۔ مصلحت 1 ؎ اور حکمت قتل کو خوب جانتا ہے۔ اگر تقدیرِ الٰہی میں روز ازل نہ لکھا گیا ہوتا (کہ تم ان سے فدیہ لو گے پھر وہ تم پر چڑھائی کریں گے اور نیز یہ کہ ان میں سے بہت لوگ اسلام لاویں گے اور یہ کہ تم کو فدیہ لینا درست ہے) تو تم کو اس فدیہ لینے پر عذاب الیم ہوتا (عمر ؓ کی رائے عالم بالا کے منشا کے مطابق تھی) خیر اب جو کچھ تم نے ان سے لیا ہے یا غنیمت میں لائے ہو وہ تمہارے لئے حلال طیب ہے۔ کھاؤ پیو اللہ غفور رحیم ہے لیکن آیندہ ڈرتے رہو اور اے نبی ! ان قیدیوں سے کہہ دو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس پر تاسف نہ کرو۔ اگر تمہارے دل میں نیکی ہوگی اور تم اسلام لاؤ گے تو اس سے بہتر تم کو دلایا جائے گا (زمین کی سلطنتیں کسریٰ اور قیصر کے خزانے مسلمانوں کو ملنے ہیں) اور خدا تمہارا یہ گناہ بھی معاف کر دے گا۔ وہ غفور رحیم ہے اور اگر اے نبی وہ تمہارے پاس سے جا کر پھر شرارت کریں گے تو کچھ پروا نہیں۔ اول اللہ سے شرارت کی تھی جس کا بدلہ یہ پایا کہ تمہارے ہاتھ میں قید ہوئے۔ پھر اللہ ہی ان سے بدلہ لے لے گا۔ وہ سب کچھ جانتا ہے۔
Top