Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 68
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
لَوْ : اگر لَا : نہ كِتٰبٌ : لکھا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے سَبَقَ : پہلے ہی لَمَسَّكُمْ : تمہیں پہنچتا فِيْمَآ : اس میں جو اَخَذْتُمْ : تم نے لیا عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر پہلے سے اللہ کا حکم نہ ہوگیا ہوتا تو جو کچھ تم نے لوٹا اس کے لیے ضرور تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا
تمہارے اختلاف کا باعث علم الٰہی میں موجود تھا اس لئے تم پر کوئی الزام نہیں : 91: وحی کا سلسلہ جاری تھا اور تمہارے اختلاف کا بھی اللہ کا علم تھا مصلحت اسی میں تھی کہ وہ اختلاف رونما ہونے سے پہلے تم کو حکم نہ دیا جاتا اور تمہارے اختلاف کے بعد نبی ﷺ کے ذریعہ سے تم کو اطلاع دی جاتی اور تم کو بتلایا جاتا کہ تجارتی قافلہ کی بجائے مشرکین مکہ کے لشکر سے تمہارا آمنا سامنا ہی تمہارے حق میں مفید رہے گا۔ ” اگر اللہ کی طرف سے پہلے سے حکم نہ ہوچکا ہوتا تو تم کو اس بارہ میں (یعنی اس طرح کا عزم کرنے میں کہ ہم کو تجارتی قافلہ کی طرف بڑھنا چاہئے) جو تم کرنے لگے تھے بھاری عذاب پہنچ کر رہتا۔ “ اور وہ بھاری عذاب یہی تھا کہ بعد میں آنے والے لوگ آپ ﷺ کو مجاہد اور غازی نہ کہتے بلکہ دوسرے ہی نامو سے تم یاد کئے جاتے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ یہ جنگ ہو کر رہے گی کیونکہ اللہ اللہ کا فیصلہ تھا اور اللہ کا فیصلہ نہ رک سکتا ہے نہ روکا جاسکتا ہے جیسا کہ اس سورت کی آیت 44 میں گزر چکا یہ باعث ہوا اس بات کا کہ تم کو کوئی عذاب نہ دیا گیا اگر یہ فیصلہ اللہ کی طرف نہ ہوا ہوتا تو نتیجہ کچھ اور ہی ہوتا اور تم کو کسی مصیبت میں مبتلا کر کے رکھ دیا جاتا۔ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ سے مراد فدیہ کا لینا نہیں بلکہ اس سے مراد وہ کام ہے جو وہ کرنے لگے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو دوسری ہی طرف پھیر دیا اور بجائے قافلہ کو لوٹنے کے مشرکین سے بھڑ گئے اور وہ کامیابی پائی جو آج تک سنہری حروف سے لکھی جا رہی ہے اور قیامت تک لکھی جائے گی۔
Top