Tafseer-Ibne-Abbas - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس اَنْزَلَ : نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب مِنْهُ : اس سے (میں) اٰيٰتٌ : آیتیں مُّحْكَمٰتٌ : محکم (پختہ) ھُنَّ : وہ اُمُّ الْكِتٰبِ : کتاب کی اصل وَاُخَرُ : اور دوسری مُتَشٰبِهٰتٌ : متشابہ فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : جو لوگ فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل زَيْغٌ : کجی فَيَتَّبِعُوْنَ : سو وہ پیروی کرتے ہیں مَا تَشَابَهَ : متشابہات مِنْهُ : اس سے ابْتِغَآءَ : چاہنا (غرض) الْفِتْنَةِ : فساد۔ گمراہی وَابْتِغَآءَ : ڈھونڈنا تَاْوِيْلِهٖ : اس کا مطلب وَمَا : اور نہیں يَعْلَمُ : جانتا تَاْوِيْلَهٗٓ : اس کا مطلب اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ وَالرّٰسِخُوْنَ : اور مضبوط فِي الْعِلْمِ : علم میں يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِهٖ : اس پر كُلٌّ : سب مِّنْ عِنْدِ : سے۔ پاس (طرف) رَبِّنَا : ہمارا رب وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : سمجھتے اِلَّآ : مگر اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں، تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے پروردگا کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں
(7) اسی ذات نے جبرائیل امین ؑ کے ذریعے تم پر قرآن کریم کو نازل کیا، جس میں اکثر حصہ ہر طرح کے شک وشبہ سے محفوظ ہے یعنی حلال و حرام، جائز ناجائز غرضیکہ تمام اصولی وبنیادی چیزوں کو بیان فرمانے والا ہے، اس میں سے کوئی چیز بھی منسوخ نہیں ہوئی، یہ آیات ہی کتاب اللہ کی جڑ اور بنیاد ہیں اور ہر ایک کتاب آسمانی پر عمل کرنے کے لیے اصل اصول ہیں جیسا کہ فرمان الہی (آیت) ”۔ قل تعالوا اتل ما حرم ربکم“۔ اور دوسری آیات ایسی ہیں جو یہودیوں کے لیے مشتبہ المراد (یعنی جن کے مفہوم میں قطعیت نہیں ہے) جیسا کہ اس کی ایک مثال حروف مقطعات ہیں اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے کہ ان متشابہ آیات پر عمل منسوخ کردیا گیا اور جن لوگوں کے دلوں میں شک اور حق سے روگردانی ہے، جیسا کہ یہودیوں میں سے کعب بن اشرف، حی بن اخطب، جدی بن اخطب، وغیرہ ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کی متشابہ آیات کی آڑ میں اپنی بدنیتی کے سبب کفر وشرک اور گمراہی پر قائم رہنے کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس امت کا انجام دیکھنے کی غرض سے کہ مسلمان کس طرح ناکام ہوتے ہیں تاکہ مدینہ کی بادشاہت انہیں کے لیے رہے اور انجام کار اور صحیح مطلب سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے یہ بات ختم کرکے اب اللہ تعالیٰ از سر نو پھر کلام کو شروع فرماتے ہیں اور جو حضرات مثلا توریت کے علم میں پختہ کار ہیں جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور اس کے ساتھی وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر یقین رکھتے ہیں کہ محکم و متشابہ سب آیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور احکام قرآنیہ سے علقمند حضرات ہی نصیحت قبول کرتے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی۔
Top