Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس اَنْزَلَ : نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب مِنْهُ : اس سے (میں) اٰيٰتٌ : آیتیں مُّحْكَمٰتٌ : محکم (پختہ) ھُنَّ : وہ اُمُّ الْكِتٰبِ : کتاب کی اصل وَاُخَرُ : اور دوسری مُتَشٰبِهٰتٌ : متشابہ فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : جو لوگ فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل زَيْغٌ : کجی فَيَتَّبِعُوْنَ : سو وہ پیروی کرتے ہیں مَا تَشَابَهَ : متشابہات مِنْهُ : اس سے ابْتِغَآءَ : چاہنا (غرض) الْفِتْنَةِ : فساد۔ گمراہی وَابْتِغَآءَ : ڈھونڈنا تَاْوِيْلِهٖ : اس کا مطلب وَمَا : اور نہیں يَعْلَمُ : جانتا تَاْوِيْلَهٗٓ : اس کا مطلب اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ وَالرّٰسِخُوْنَ : اور مضبوط فِي الْعِلْمِ : علم میں يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِهٖ : اس پر كُلٌّ : سب مِّنْ عِنْدِ : سے۔ پاس (طرف) رَبِّنَا : ہمارا رب وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : سمجھتے اِلَّآ : مگر اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری۔ اس میں بعض آیتیں محکم ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں۔ اور دوسری متشابہ ہیں۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے پس وہ پیچھے لگتے ہیں متشابہات کے اور اس میں تلاش کرتے ہیں گمراہی اور تلاش کرتے ہیں ان کی تاویلیں۔ حالانکہ نہیں جانتا ان کی تاویل مگر اللہ۔ اور جو پختہ ہیں علم میں وہ کہتے ہیں۔ ہم ایمان لاتے ہیں ان سب پر۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نہیں نصیحت پکڑتے مگر عقلمند لوگ۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں بیان کیا جا چکا ہے۔ کہ سورة آل عمران کے اہم مضامین میں سے مسئلہ توحید اور اس کے عقلی و نقلی دلائل ہیں۔ پھر قرآن پاک کی صداقت و حقانیت کا تذکرہ ہے۔ اور بعض دوسرے مضامین بھی بیان ہوئے ۔ سابقہ آیات میں مسئلہ توحید کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اور سابقہ کتب کا تذکرہ تھا۔ جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں تک ہدایت کا سامان بہم پہنچاتا رہا۔ ان ہدایات کا انکار کرنے والوں کے لیے سخت سزا کی وعید تھی۔ اور لوگوں کو یاد دلایا گیا تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ وہ ہر انسان کی ہر حرکت سے واقف ہے۔ بلکہ ماں کے رحم میں انسان کی شکل و صورت بنانے والی بھی وہی ذات ہے۔ پھر اس سے انسان کی کونسی حرکت پوشیدہ ہوسکتی ہے۔ ضمناً نصاری کو یہ بھی باور کرنا مقصود تھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) قدرتی طریقہ کے مطابق ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ تو پھر خدا کے بیٹے یا خود الہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ آج کے درس میں قرآن پاک کی حقانیت کا تذکرہ ہے۔ اور اس کے احکام سے مستفید ہونے کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے۔ جن کے دلوں میں کجی پائی جاتی ہے۔ اور وہ قرآن پاک کی متشابہ آیات کی غلط تاویل کرکے فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ نیز ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو علم میں پختہ ہیں اور ان کا ایمان تمام آیات پر یکساں ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی گئی ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرے نیز قیامت کے دن دوبارہ جی اٹھنے اور حساب کتاب ہونے پر یقین کا اظہار کیا گیا ہے۔ نزول کتاب : ارشاد ربانی ہے : ھوالذی انزل علیک الکتب۔ اللہ تعالیٰ کی وہی ذات ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے۔ کتاب سے مراد قرآن پاک ہے جو حضور ﷺ کی ذات اقدس پر آخری کتاب کے طور پر نازلہوا جس طرح نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے۔ اسی طرح اب کوئی آسمانی کتاب بھی نازل نہیں ہوگی۔ قرآن پاک کے احکامات قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لیے یکساں طور پر مفید ہیں۔ محکم اور متشابہ : قران پاک کے احکام و فرامین کے متعلق فرمایا۔ منہ ایات محکمات۔ اس میں بعض آیات مھکم ہیں۔ ھن ام الکتب۔ یہی آیتیں کتاب کی جڑ بنیاد ہیں۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں۔ فالمحکم لا یعرض فیہ شبھۃ من حیث اللفظ ولا من حیث المعنی۔ یعنی محکم سے مراد وہ آیات ہیں جن کا مفہوم واضح ہو۔ اور اس پر لفظی یا معنوی اعتبار سے کسی قسم کا شبہ وارد نہ ہوتا ہو۔ گویا ایسی آیتیں جن کی زبان آسان ہے۔ اور جن کے معانی متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسی آیات میں تاویلات کرنے کا موقع مشکل ہی سے ملتا ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت منقول ہے کہ قرآن پاک میں جو آیتیں عمل کے لیے نازل ہوئی ہیں۔ وہ محکم ہیں۔ اور جن سے عمل متعلق نہیں ، محض ان پر ایمان لانا مقصود ہے جیسے حروف مقطعات ، قیامت یا دجال وغیرہ سے متعلق آیات۔ تو ایسی آیات متشابہ ہیں۔ فرمایا کہ و اخر متشابہات۔ اور بعض آیتیں متشابہ ہیں۔ مفردات امام راغب اصفہانی میں متشابہ کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ المتشابہ ما اشکل تفسیرہ اما من حیث اللفظ والمعنی۔ یعنی ایسی آیت جس کا معنی اور تفسیر کسی لفظی یا معنوی پیچیدگی کی وجہ سے مشکل ہو۔ اور اس میں تاویل کی گنجائش رہتی ہو۔ ظاہر ہے کہ قرآن پاک نے آئندہ زمانے کے لیے بعض ایسی پیشن گوئیاں کی ہیں۔ اور برزخ ، قیامت ، جنت ، دوزخ ، فرشتے ، جنات وغیرہ کے متعلق ایسی تفصیلات بیان فرمائی ہیں جنہیں اس وقت انسان نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ محسوس کرسکتا ہے۔ ایسی چیزوں کی ٹھیک ٹھیک کیفیت معلوم کرنے کے لیے انسان لاکھ کوشش کرے مگر اس کی حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ ایسے امور میں انسان جتنی زیادہ کوشش کرے گا۔ وہ حقیقت سے قریب تر ہونے کی بجائے دور بھی ہوسکتا ہے۔ لہذا اس قسم کی باتوں سے متعلقہ آیات متشابہات میں داخل ہیں۔ اور انسان کے لیے اتنا ہی کام ہے۔ وہ ان پر ایمان لے آئے۔ فاما الذین فی قلوبھم زیغ : پس جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے۔ فیتبعون ما تشابہ ، وہ متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں۔ چونکہ ان کے دلوں میں حسد ، بغض ، عناد ، اور بےایمانی رچی بسی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ مھکم یعنی واضح آیات کو چھوڑ کر متشابہ آیتوں کی تاویلیں کرنے لگتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے ایسے معانی بیان کرتے ہیں جو محکم آیات کے مفہوم کے منافی ہوتے ہیں ، حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ متشابہات کی تاویل کرتے وقت محکم آیات کی پیروی کی جاتی مگر ایسے لوگ الٹا چلنا چاہتے ہیں۔ اور لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس سے ان کا مقصد یہ ہے منہ ابتغاء الفتنۃ اس سے فتنہ یعنی گمراہی تلاش کرتے ہیں۔ وابتغاء تاویلہ اور متشابہات کے ذریعے ایسی الٹی سیدھی تاویلیں تلاش کرتے ہیں۔ جن کے ذریعے مخلوق خدا کو گمراہ کرسکیں۔ غلط تاویلیں : ان آیات کے سیاق وسباق کے مطابق ان کا ہدف یہود و نصاری ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی متشابہ آیات کی غلط تاویل کرکے لوگوں کو اصل دین سے دور کردیا۔ حتی کہ محکم آیات کو بھی متشابہات کے تابع کرکے دین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ آج کے دور میں جب ہم اپنے گردوپیش دیکھتے ہیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں یہود و نصاری سے بڑھ کر خود مسلمانوں کے دور میں ایسے بہت سے فرقے اور لوگ موجود ہیں جنہوں نے پہلے متشابہات کی غلط تاویلیں کی۔ اور پھر محکم آیات کو توڑ موڑ کر متشابہات کے معانی پہنائے اور اس طرح وہ یہود و نصاریٰ سے بھی بازی لے گئے ، قادیانی پرویزی اور سرسید جیسے کتنے لوگ ہیں۔ جنہوں نے دوزخ ، جنت ، برزخ ، حساب کتاب حتی کہ حضور کی زندگی کے سب سے بڑے معجزے معراج تک کو غلط معنی پہنا کر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کا بالکل انکار کردیا۔ اور اسی قرآن پاک کی آیات کی ایسی ایسی تاویلیں کیں کہ العیاذ باللہ۔ اب ذرا اور قریب آ کر دیکھئے۔ کہ قرآن پاک نے مسئلہ توحید کو کس وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ قرآن کریم کا کوئی صفحہ ، اس کا کوئی رکوع ایسا نہیں جس میں توحید کو کسی نہ کسی رنگ میں پیش نہ کیا گیا ہو۔ مگر آج یہی مسئلہ ہمارے ہاں متنازعہ بن چکا ہے۔ قرآن پاک صاف کہتا ہے قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ۔ زمین و آسمان میں غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں مگر آج ثابت کیا جا رہا ہے۔ کہ حضور ﷺ کو بھی علم غیب تھا۔ بلکہ اس باطل عقیدہ پر ایمان نہ لانے والوں کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ قرآن پاک کہتا ہے وان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھو۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کسی تکلیف میں مبتلا کردے تو اس کے سوا اسے کوئی دور نہیں کرسکتا۔ مگر آج مسلمانوں میں ایسے بھی ہیں کہ فلاں بزرگ بھی بگڑی بنا سکتا ہے۔ فلاں بھی مشکلات کو حل کرسکتا ہے ، مشکل کشا کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ قرآن پاک خود حضور ﷺ کی زبان سے کہلاتا ہے۔ قل انما انا بشر مثلکم یعنی میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں۔ بلکہ آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے سب انسانوں میں سے ہی آئے۔ وما ارسلنا قبلک الا رجالا نوحی الیھم۔ یعنی اے نبی اکرم ہم نے آپ سے پہلے انسانوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا۔ مگر آج کے دور میں انبیاء کرام اور خصوصا حضور خاتم المرسلین کو نسل انسانی سے ہی خارج کیا جا رہا ہے۔ یہ محکم آیات کی واضح غلط تاویلیں نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر یہیں پر بس نہیں کیا۔ ان ظالم قادیانیوں نے حضور ﷺ کی ختم نبوت تک کو معاف نہیں کیا۔ اور خاتم النبیین کے معنی کچھ سے کچھ کردیے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زندہ اٹھائے جانے کا انکار کردیا۔ آخر یہ سب کچھ کہاں سے ہو رہا ہے۔ قرآن پاک کی آیات کا سہارا ہی تو لیا جا رہا ہے۔ کہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں اس سے گمراہی پھیلاتے ہیں۔ اور غلط تاویلیں تلاش کرتے ہیں۔ صحیح تاویل : فرمایا وما یعلم تاویلہ الا اللہ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ متشابہ آیات کی حقیقت صرف اللہ ہی کو معلوم ہے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو لوگ متشابہ آیتوں کا مطلب اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ جو کوئی دعوی کرتے کہ اس کو متشابہ آیت کا مطلب یا تاویل معلوم ہے۔ وہ جھوٹا ہے۔ مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ محکم آیتوں پر عمل کرو۔ اور متشابہ پر فقط ایمان لاؤ مطلب یہ کہ مفہوم سمجھ میں نہیں آتا تو اس کو اللہ کی طرف سونپ دو ۔ جھگڑا مت کرو۔ غلط معنی مت بیان کرو۔ اسی لیے مولانا عبیداللہ سندھی فرماتے ہیں۔ غلط تفسیروں کی وجہ سے دنیا میں بڑی تباہی آتی ہے گمراہی پھیلتی ہے۔ فرماتے ہیں۔ قرآن پاک کی محکم آیتیں ہر سلیم الفطرت آدمی آسانی سے سمجھ سکتا ہے مگر بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو استاذ کے بغیر سمجھ میں نہیں آتیں۔ لہذا یایس باتیں استاذ سے سیکھنی چاہئیں۔ جو ایسا نہیں کرتا وہ کسی نہ کسی گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مولانا سندھی خود اپنی مثال بیان کرتے ہیں کہ مجھے راسخین فی العلم سے واسطہ پڑا۔ میرے استاذوں نے میری راہنمائی فرمائی اور اللہ نے مجھے قرآن میں کمال درجے کا ملکہ عطا فرمایا ہے میں اپنی مشکلات استاذوں کے سامنے پیش کرتا تھا وہ مجھے مشورہ دیتے تھے اور میرے اشکال کو حل کرتے تھے۔ اس لیے مجھے کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہوئی فرماتے ہیں میری طرح اور بھی کوئی لوگ اسلام میں داخل ہوئے مگر انہیں اچھے استاذ نہ مل سکے۔ اس لیے وہ مشکلات میں پھنسے رہے۔ آپ کے استادوں میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) جیسے راسخ فی العلم لوگ تھے۔ مولانا شیخ الہند جن کا یہ ترجمہ وار دو سورتوں کی مختصر تفسیر بھی ہے بہت بڑے راسخ العلم انسان تھے۔ خاموشی سے تعلیم دیتے تھے۔ ان کے شاگردوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کتنا کمال عطا کیا تھا ان کے شاگردوں میں حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ۔ مولانا عبیداللہ سندھی ، شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور آپ کے شہر کے مولانا عبدالعزیز محدث ، حضرت مولاناانور شاہ کشمیری رحمہ سندھ کے مولانا محمد صادق اور مولانا احمد علی لاہوری شامل ہیں۔ ان لوگوں نے دنیا میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ انگریز کی اسلام دشمنی : مولانا سندھی فرماتے ہیں کہ میں نے اٹھارہ سال تک اپنے استاذ حضرت شیخ الہند (رح) کی خدمت میں رہ کر دین بھی سیکھا ہے اور سیاست بھی سیکھی ہے۔ آپ سیاست کے بھی امام تھے۔ آخر زمانہ میں جب ہندوستان آئے تو کلکتہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا ، میں نے انگریز کے قدم اکھاڑ دیے ہیں۔ اگر اب انگریز ہندوستان میں رہ گیا تو میری قبر پر تھوک دینا۔ آپ بارہ سال تک مکہ معظمہ میں رہے۔ تعلیم دیتے تھے ، اور انگریز کی تباہی کا سامان بھی کرتے تھے۔ فرماتے تھے۔ انگریز قوم نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان انگریز نے پہنچایا ہے۔ اس نے مسلمانوں کی سلطنتیں تباہ کردیں مقامات مقدسہ کی بےحرمتی کی۔ قرآن پاک کے خلاف بڑی سازشیں کیں۔ مولانا شیخ الہند (رح) کو انگریزوں سے نفرت تھی۔ کہ اگر کوئی ان کے بارے میں مسئلہ دریافت کرتا تو فرماتے کسی اور عالم سے پوچھ ، مجھے ان سے سخت نفرت ہے ، شاید میں غلطی نہ کرجاؤں۔ مگر آج لوگ انگریز کی تہذیب کو فخر سے اپناتے ہیں۔ حالانکہ وہ مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ علامہ اقبال بھی انگریزوں کو خوب سمجھتا تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری کا ایک معتد بہ حصہ انگریزوں کے خلاف لکھا ہے۔ بےعمل ہونا الگ بات ہے۔ مگر اقبال قومی آدمی تھا۔ اس نے انگریزوں کی خوب خبر لی ہے۔ علم سیکھنے سے آتا ہے : امام بخاری نے بخاری شریف میں لکھا ہے۔ العلم بالتعلم یعنی علم سیکھنے سے آتا ہے۔ خود بخود نہیں آجاتا۔ اس کے لیے بہرحال استاذ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ استاذ کے بغیر خود بخود عالم بن بیٹھتے ہیں وہ گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مرزا قادیانی اور پرویز جیسے لوگوں کو یہی حال ہوتا ہے۔ اسلام کو کفر اور کفر کو اسلام بنا دیتے ہیں۔ جب کہ انسان کسی راسخ فی العلم کے پاس نہ بیٹھے اس کے اشکال دور نہیں ہوتے۔ راسخ فی العلم : فرمایا والراسخون فی العلم اور جو علم میں پختہ ہیں یقولون آمنا بہ۔ وہ کہتے ہیں ہم ایمان لائے اس پر کل من عند ربنا۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔ یعنی جن باتوں کی تاویل صرف اللہ کے علم میں ہے۔ ان میں محض اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑاتے۔ بلکہ ان کا ایمان یہ ہوتا ہے۔ کہ سب کچھ ان کے اللہ کی طرف سے برحق ہے۔ فرمایا اس سیدھی سادھی بات کو بھی عام لوگ نہیں سمجھتے۔ وما یذکر الا اولوا الالباب۔ اور نہیں نصیحت پکڑتے۔ مگر عقلمند لوگ ، کم علم اور بےعقل لوگ ایسی باتوں کو نہیں سمجھتے اور خواہ مخواہ گمراہی کے گڑھے میں گر پڑتے ہیں ۔ طبرانی میں ابی مالک اشعری سے روایت ہے۔ کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اپنی امت سے یہ خوف ہے۔ کہ وہ متشابہ آیتوں کی تاویل کے درپے ہوں گے۔ حالانکہ ان کی تاویل سوائے خدا کے کسی کو معلوم نہیں۔ دعائیہ کلمات : فرمایا راسخون فی العلم یہ بھی کہتے ہیں۔ ربنا لا تزغ قلوبنا۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا۔ بعد اذ ھدیتنا۔ بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت سے نوازا ہے۔ ہمیں اسی راہ ہدایت پر قائم رکھ۔ اسی لیے حضور ﷺ دعا کیا کرتے تھے اللھم مصرف القلوب صرف قلوبنا علی طاعتک۔ یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے ، ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر قائم رکھ۔ وھب لنا من لدنک رحمۃ۔ اور اپنی طرف سے ہمیں رحمت بخش۔ کیونکہ انک انت الوھاب۔ تو ہی سب کچھ دینے والا ہے۔ ساری کی ساری مخلوق تیری ہی محتاج ہے۔ تیرے بغیر کوئی کسی کی حاجت روائی نہیں کرسکتا۔ اس لیے اپنی رحمت سے تو ہی ہماری حاجات پوری فرما۔ فرمایا پختہ علم والے یہ بھی دعا کرتے ہیں۔ ربنا انک جامع الناس لیوم لا ریب فیہ۔ اے ہمارے پروردگار ! تو ہی لوگوں کو اس دن میں جمع کرنے والا ہے۔ جس میں کوئی شک نہیں۔ وہ دن یقیناً آنے والا ہے جس دن تمام مخلوق اپنے رب کے ہاں پیش ہوگی۔ جس طرح انسان کو اپنے وجود پر شک نہیں۔ اسی طرح قیامت کے برپا ہونے اور پھر محاسبے کا عمل واقع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ وعداً علینا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ کہ ہم انسانوں کو دوبارہ اٹھائیں گے اور ان کا حساب لیں گے انا کنا فاعلین ہم ضرور ایسا کرنے والے ہیں۔ لہذا اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے ۔ فرمایا ان اللہ لا یخلف المیعاد۔ اللہ تعالیٰ جو وعدہ کرتا ہے اس کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ وہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اس لیے اس کے بندے اس کے آگے دعا کرتے ہیں کہ مالک الملک اس دن ہمیں رسوائی حاصل نہ ہو۔ ہم ذلیل و خوار نہ ہوں بلکہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں خصوصی رحمت اور مہربانی عطا فرما۔
Top