Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس اَنْزَلَ : نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب مِنْهُ : اس سے (میں) اٰيٰتٌ : آیتیں مُّحْكَمٰتٌ : محکم (پختہ) ھُنَّ : وہ اُمُّ الْكِتٰبِ : کتاب کی اصل وَاُخَرُ : اور دوسری مُتَشٰبِهٰتٌ : متشابہ فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : جو لوگ فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل زَيْغٌ : کجی فَيَتَّبِعُوْنَ : سو وہ پیروی کرتے ہیں مَا تَشَابَهَ : متشابہات مِنْهُ : اس سے ابْتِغَآءَ : چاہنا (غرض) الْفِتْنَةِ : فساد۔ گمراہی وَابْتِغَآءَ : ڈھونڈنا تَاْوِيْلِهٖ : اس کا مطلب وَمَا : اور نہیں يَعْلَمُ : جانتا تَاْوِيْلَهٗٓ : اس کا مطلب اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ وَالرّٰسِخُوْنَ : اور مضبوط فِي الْعِلْمِ : علم میں يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِهٖ : اس پر كُلٌّ : سب مِّنْ عِنْدِ : سے۔ پاس (طرف) رَبِّنَا : ہمارا رب وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : سمجھتے اِلَّآ : مگر اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
بیشک اللہ ایسا ہے کہ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں زمین میں اور نہ آسمان میں۔ اللہ وہ ہے جو تمہاری تصوریں بناتا ہے رحموں میں جس طرح چاہے، کوئی معبود نہیں اس کے سوا، وہ غلبہ والا ہے، حکمت والا ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی اس میں آیات محکمات ہیں جو ام الکتاب ہیں اور دوسری آیات متشابہات ہیں سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ ان کے پیچھے پڑتے ہیں جو قرآن میں متشابہات ہیں فتنہ تلاش کرنے کے لیے اور اس کا مطلب تلاش کرنے کے لئے، اور نہیں جانتا اس کے مطلب کو مگر اللہ، اور جو لوگ علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نہیں نصیحت حاصل کرتے مگر عقل والے۔
(1) ابن جریر ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” محکمت “ سے مراد ہے ناسخ آیات حلت اور حرمت کے احکام والی آیات اور حدود اور فرائض والی آیات جن پر ایمان لایا جاتا ہے اور ” المتشبھت “ سے مراد ہے اس کی منسوخ مؤخر آیات مثالیں اور اس کی اقسام جن پر ایمان تو لایا جاتا ہے اور عمل نہیں کیا جاتا۔ (2) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” المحکمات “ سے مراد وہ منسوخ کرنے والی آیات ہیں (جو سابقہ حکم کو منسوخ کرنے والی آیات ہیں (جو سابقہ حکم کو منسوخ کردیتی ہے) جن کی تابعداری کی جاتی ہے اور اسی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے لفظ آیت ” والمتشبھات “ جن کی تابعداری نہیں کی جاتی سے مراد وہ منسوخ شدہ آیتیں ہیں۔ (3) سعید بن منصور ابن ابی حاتم حاکم نے اس کو صحیح کہا اور ابن مردویہ نے عبداللہ بن قیس (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابن عباس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لفظ آیت ” منہ ایت محکمت “ سے مراد سورة انعام کی آخری تین آیات محکمات ہیں (پہلی آیت) ” قل تعالوا “ اور اس کے بعد دو آیتیں۔ (4) عبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم نے وجہ آخر سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ایت محکمت “ کے بارے میں روایات کیا ہے کہ ” قل تعالوا “ سے آخری تین آیات تک اور ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ “ سے اس کے بعد والی تین آیات تک (آیات محکمات ہیں) ۔ (5) ابن جریر نے سدی کے طریق سے ابو مالک سے ابو صالح سے اور حضرت ابن عباس ؓ مرہ ابن مسعود اور صحابہ ؓ میں سے کچھ لوگوں سے روایت کیا ” محکمت “ سے وہ ناسخات مراد ہیں کہ جن پر عمل کیا جاتا ہے اور ” متشبھت “ سے منسوخات مراد ہیں۔ (6) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” محکمت “ سے حلال اور حرام مراد ہیں۔ (7) عبد بن حمید اور فریابی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” محکمت “ سے وہ آیات مراد ہیں جن میں حلال اور حرام کے بارے میں ہے۔ ان کے علاوہ اس میں سے متشابہ آیات ہیں جو بعض بعض کی کی تصدیق کرتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ہے ” وما یضل بہ الا الفسقین “ اور جیسے ان کا قول ہے لفظ آیت ” کذلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لا یؤمنون “ (انعام آیت 125) اور جیسے ان کا قول ہے لفظ آیت ” والذین اھتدوا زادہم ھدی واتہم تقوہم “ (محمد آیت 17) (8) ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” محکمت “ سے حکم کرنے والی اور تنبیہ کرنے والی آیات مراد ہیں۔ (9) عبد بن حمید ابن الضریس ابن جریر ابن ابی حاتم اسحاق بن سوید (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ یحییٰ بن یعمر (رح) اور ابو فاختہ (رح) سے اس آیت ” ھن ام الکتب “ کا جواب دیتے تھے ابو فاختہ (رح) نے کہا وہ سورتوں کے آغاز ہیں ان سے قرآن شروع ہوتا ہے لفظ آیت ” الم۔ ذلک الکتب “ اس کا سورة بقرہ شروع ہوتی ہے لفظ آیت ” الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم۔ “ اس سے سورة آل عمران شروع ہوتی ہے یحییٰ (رح) سے فرمایا یہ وہ آیات ہیں جن میں فرائض ہیں امر اور نہی ہے حلال ہے حدود ہیں اور دین کا ستون ہیں (یعنی دین کی بنیادی چیزیں ہیں) ۔ (10) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے لفظ آیت ” ھن ام الکتب “ سے اصل کتاب مراد ہے اس لیے کہ یہ چیزیں لکھی ہوئی ہیں ساری کتابوں میں۔ آیات محکم و متشابہ (11) ابن جریر نے محمد بن جعفر بن زبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” محکمت “ سے مراد ہے رب کی حجت اور بندوں حفاظت جھگڑے اور باطل کو دفع کرنا نہ اس سے انہیں پھیرا جاتا ہے اور نہ ہی اس سے تحریف کی جاتی ہے کہ جس معنی کے لیے ان کو وضع کیا گیا (اور) وہ آخر متشابہات یعنی دوسری متشابہات سچائی میں ایک دوسرے کے متشابہ ہیں ان کو (ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف) پھیرا جاتا ہے ان کی تعریف کی جاتی ہے اور ان میں تاویل کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اپنے بندوں کو اس طرح آزمائش میں ڈالا ہے جیسا کہ ان کو حلال اور حرام کے بارے میں آزمائش میں ڈالا ہے نہیں پھیرا جاتا ان کو باطل کی طرف اور نہ ان کو حق سے دور کیا جاسکتا ہے۔ (12) ابن جریر نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت حسن ؓ سے ” ام الکتاب “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے حلال و حرام مراد ہے پھر میں نے ان سے پوچھا لفظ آیت ” الحمد للہ رب العلمین “ (کیا ہے) تو انہوں نے فرمایا یہ ام القرآن ہے۔ (13) ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ جو فرمایا لفظ آیت ” ہن ام الکتب “ کیونکہ دین والا آدمی ان سے راضی ہوتا ہے (اور) لفظ آیت ” واخر متشابھات “ اور اور متشابہات سے مراد۔ الم۔ المص۔ المر اور السر ہیں۔ (14) ابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” متشابہات “ قرآن میں وہ آیات ہیں کہ جن کے ذریعہ لوگ شبہ میں پڑجاتے ہیں اس لیے گمراہ ہونے والے ان سے گمراہ ہوگئے ہر فرقہ قرآن میں سے آیات پڑھتا ہے اور وہ گمان کرتے ہیں کہ یہ آیت ان کے حق میں ہے اس میں سے (فرقہ) حرور یہ متشابہ آیت، میں سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الفسقون “ کو پڑھتے ہیں پھر وہ اس کے ساتھ (یہ آیت ” ثم الذین کفروا بربہم یعدلون “ ) بھی پڑھتے ہیں جب انہوں نے امام کو دیکھا کہ وہ بغیر حق کے فیصلہ کرتا ہے تو انہوں نے کہا تحقیق اس شخص نے کفر کیا جس نے کفر کیا تو اس نے اپنے آپ کو رب کے برابر قرار دیا جس نے اپنے آپ کو اپنے رب کے برابر قرار دیا اس نے اپنے رب کے ساتھ شرک کیا تو یہ فرقہ مشرک ہیں۔ (15) بخاری نے تاریخ میں ابن جریر نے ابن اسحاق کے طریق سے کلبی سے ابو صالح سے ابن عباس سے اور وہ جابر بن عبد اللہ بن رباب (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ (ایک مرتبہ) ابو یاسر بن اخطب جو یہودی تھا رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گذرا اور آپ سورة بقرہ کی ابتدائی آیات تلاوت فرما رہے تھے لفظ آیت ” الم۔ ذلک الکتب لا ریب فیہ “ پھر اپنے بھائی حی بن اخطب کے پاس آیا یہودیوں کے ساتھ اور کہنے لگا کیا تم جانتے ہو اللہ کی قسم میں نے محمد ﷺ کو ان آیتوں کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے جو ان پر اتاری گئیں یعنی لفظ آیت ” الم۔ ذلک الکتب لا ریب فیہ “ انہوں نے کہا کیا تو نے واقعی اس کو سنا ہے ؟ ابو یاسر نے کہا ہاں ! تو آپ چلے یہاں تک کہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی طرف پہنچ گئے اور انہوں نے کہا کیا آپ نے یہ آیت بھی تلاوت کی ہیں آیات میں سے جو آپ پر اتاری گئیں (یعنی) لفظ آیت ” الم ذلک الکتب “ آپ نے فرمایا کیوں نہیں پھر انہوں نے کہا ان حروف کے ساتھ انبیاء بھیجے گئے تو ان میں ان انبیاء کی بادشاہت کی مدت کو بیان کیا گیا (ان حروف سے معلوم ہوا) کہ آپ کی امت کی مدت یہ ہے الف کے لیے ایک ہے لام کے لئے تیس ہیں اور میم کے لیے چالیس ہیں اور یہ اکہتر سال ہوئے۔ پھر کہا (اے محمد ﷺ اس کے علاوہ کیا اور بھی تیرے پاس ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں (جیسے) ” المص “ تو کیا یہ بھاری ہے اور زیادہ لمبا ہے الف کے لیے ایک ہے لام کے لیے تیس ہیں میم کے لیے چالیس ہیں اور صاد کے لیے نوے ہیں اور یہ ایک سو اکتیس ہوئے کیا اس کے علاوہ بھی تیرے پاس ہے آپ نے فرمایا ہاں ” الر “ ہے تو کیا یہ پہلے سے بھاری ہے اور لمبا ہے الف کے لیے ایک ہے لام کے لیے تیس ہیں اور راء کے لئے دو سو ہیں یہ سب دو سو اکتیس سال ہوئے (پھر پوچھا) کیا اس کے علاوہ بھی تیرے پاس ہے ؟ فرمایا ہاں ” المر “ ہے تو کہا یہ زیادہ بھاری اور لمبا ہے یہ سب دو سواکہتر سال بنتے ہیں پھر کہا آپ کا معاملہ ہم پر شک میں پڑگیا یہاں تک کہ ہم نہیں جانتے کہ آپ کو تھوڑا وقت دیا گیا یا زیادہ۔ پھر کہا کھڑے ہوجاؤ ان سے پھر ابو یاسر نے اپنے بھائی سے اور جو اس کے ساتھ تھے ان سے کہا تم نہیں پاتے ہو (یعنی تم نہیں جانتے ہو) کہ شاید یہ سب کچھ جمع کردیا گیا ہو محمد ﷺ کے لیے یعنی اکہتر اور ایک سو اکتیس اور دو سو اکہتر اور یہ سارے سات سو چار سال ہوئے پھر کہنے لگے کہ ان کا معاملہ ہم پر شبہ میں پڑگیا ہے علماء گمان کرتے ہیں کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی لفظ آیت ” ھو الذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھن ام الکتب واخر متشبھت “۔ (16) یونس بن بکیر نے مغازی میں ابن اسحاق سے محمد بن ابی محمد عکرمہ سے سعید بن جبیر سے ابن عباس سے اور جابر بن رباب ؓ سے روایت کیا ہے کہ ابو یاسر بن اخطب نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گذرا اور آپ لفظ آیت ” فاتحۃ الکتب۔ الم ذلک الکتب “ پڑھ رہے تھے پھر تمام واقعہ ذکر کیا۔ (17) ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فاما الذین فی قلوبہم زیغ “ سے مراد شک والے ہیں تو وہ محکم کو متشابہ پر محمول کرتے ہیں اور متشابہ کو محکم پر اور وہ حق و باطل کو گڈ مڈ کردیتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر اس کی حکمت کو گڈ مڈ کردیا اور فرمایا لفظ آیت ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ “ یعنی اس کی تاویل کو قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ (18) ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” زیغ “ سے مراد شک ہے۔ (19) ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فاما الذین فی قلوبہم زیغ “ سے مراد منافق ہیں۔ (20) عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فیتبعون ما تشابہ منہ “ یعنی وہ باب ہے کہ جس میں سے وہ گمراہ ہوئے اور اسی ہلاک ہوگئے ” وابتغاء تاویلہ “ اور دوسرے قوم میں ابتغاء الفتنۃ سے شبہات مراد ہیں۔ (21) عبد الرزاق سعید بن منصور عبد بن حمید بخاری مسلم دارمی ابو داؤد ترمذی نسائی ابن ماجہ ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم ابن حبان اور بیہقی نے دلائل میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت ” ھو الذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھن ام الکتب واخر متشبھت فاما الذین فی قلوبہم زیغ “ سے ” اولوا الالباب “ تک تلاوت کی سو جب تم دیکھو ان لوگوں کو جو اس کی تعبیر میں جھگڑ رہے ہیں سو یہ وہ لوگ ہیں جو اس آیت سے مراد ہے سو بچو تم ان سے اور بخاری کے الفاظ یوں ہیں جب تو دیکھے ان لوگوں کو جو اتباع کر رہے متشابہ آیات کا یہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا سو بچو تم ان سے اور ابن جریر کے الفاظ یوں ہیں جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو پیروی کر رہے ہیں متشابہ آیات کی انہی کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا سو بچو تم ان سے اور ابن جریر کے الفاظ ہیں جب تم دیکھو ان لوگوں کو جو پیروی کر رہے ہیں متشابہ آیات کی اور وہ لوگ جو جھگڑتے ہیں اس بارے میں سو یہ وہ لوگ ہیں پس ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔ (22) عبد الرزاق احمد عبد بن حمید ابن المنذر ابن ابی حاتم طبرانی ابن مردویہ بیہقی نے اپنی سنن میں ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لفظ آیت ” فاما الذین فی قلوبہم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ “ سے خوارج مراد ہیں (اور) لفظ آیت ” یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ “ سے بھی خوارج مراد ہیں۔ آیات قرآنی کے بارے میں تاویلات فاسدہ (23) الطبرانی نے ابو مالک اشعری ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا مجھے اپنی امت پر تین باتوں کا ڈر ہے کہ ان کے لیے مال زیادہ ہوجائے گا (پھر) وہ آپس میں حسد کرنے لگیں گے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے اگر ان کے لئے کتاب کھولی جائے گی تو مؤمن اس کو لے لے گا اور اس کی تاویل کو طلب کرے گا (اور فرمایا) لفظ آیت ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ کل من عند ربنا وما یذکر الا اولوا الالباب “ اور اگر ان کا علم زیادہ کریں گے تو وہ اس کو ضائع کردیں گے اور اس کی پرواہ نہیں کریں گے۔ (24) حاکم نے اس کو صحیح کہا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان چیزوں میں سے کہ جن کا مجھ کو اپنی امت پر خوف ہے یہ کہ ان میں مال کی کثرت ہوجائے گی یہاں تک کہ اس کے بارے میں آپس میں لڑیں گے اور اس پر ایک دوسرے کو قتل کریں گے اور ان چیزوں میں سے کہ جن کا مجھے اپنی امت پر خوف ہے کہ ان کے لیے قرآن عام کردیا جائے گا حتی کہ اس کو مؤمن کافر اور منافق پڑھے گا تو مؤمن اس کے حلال کئے ہوئے کو حلال کرے گا۔ (25) ابو یعلی نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں ایسی قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی اور اسے یوں بکھیرے گی جس طرح ردی کھجوریں بکھیری جاتی ہیں اور وہ اس کا ایسا مطلب بیان کریں گے جو اس کا مطلب نہ ہوگا قرآن کریم کے بارے میں شک وشبہ نہ پڑے (26) ابن سعد ابن الضریس نے اپنے فضائل میں ابن مردویہ نے عمرو بن شعب (رح) سے روایت کیا ہے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے پاس آئے جو قرآن کے معانی میں بات چیت کر رہے تھے آپ ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا اس وجہ سے تم سے پہلی امتیں گمراہ ہوئیں اپنے انبیاء کے ساتھ اختلاف کرنے کی وجہ سے ٹکراتے تھے کتاب کو اس کے بعض حصے کو بعض کے ساتھ پھر فرمایا کہ بلاشبہ قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا تاکہ بعض اس کا بعض کی تکذیب کرے لیکن اس لئے نازل ہوا کہ اور جو کچھ تم نے اس میں پہچان لیا ہے اس پر عمل کرو اور جو تم پر شک پڑجائے اس پر ایمان لے آؤ۔ (27) احمد نے وجہ آخر سے عمروبن شعب (رح) سے روایت کیا ہے کہ اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک قوم کے بارے میں سنا کہ وہ اپنی رائے سے قرآن پاک کے معانی کر رہے ہیں آپ نے فرمایا تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوگئے انہوں نے کتاب کے بعض حصے کو بعض کے ساتھ ٹکرایا حالانکہ اللہ کی کتاب اس لیے نازل کی گئی کہ اس کا بعض بعض کی تصدیق کرتا ہے اور نہ جھٹلاؤ اس کے بعض حصے کو بعض کے ساتھ سو تم اس میں جو جانتے ہو اس کو تم کہو اور جس سے تم جاہل ہو تو اس کے جاننے والے کی طرف جاؤ۔ (28) ابن جریر حاکم نے اس کو صحیح کہا ابو نصر السجزی الابانۃ میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا پہلی کتاب نازل ہوئی ایک دروازہ سے اور ایک حرپر اور قرآن نازل ہوا سات دروازوں سے سات حروف پر جھڑکنے والا اور حکم کرنے والا اور اس میں حلال اور حرام کے احکام ہیں اور محکم اور متشابہ اور مثالوں والی آیات ہیں سو حلال جانو تم اس کے حلال کو اور حرام جانو اس کے حرام کو اور اس پر عمل کرو جس کا تم حکم کئے گئے ہو اور رک جاؤ ان سے جس سے تم کو روکا گیا ہے اور عبرت حاصل کردہ اس کی مثالوں سے اور محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو تم لفظ آیت ” امنا بہ کل من عند ربنا “۔ (29) الطبرانی ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے موقوفا بھی روایت کیا ہے عمر بن ابی سلمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے فرمایا کہ (سابقہ) کتابیں آسمان کے ایک دروازہ سے نازل ہوتی تھیں (لیکن) قرآن مجید سات حرفوں پر سات دروازوں سے نازل ہوا (جس میں) حلال اور حرام (کے احکام) ہیں (بعض آیات) محکم ہیں اور بعض متشابہ ہیں اور مثالیں ہیں امر اور نہی ہیں سو اس کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام جانو اور اس کی محکم آیات پر عمل کرو اور اس کے متشابہات پر رک جاؤ اور اس کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو اس لیے کہ ہر حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (30) ابن النجار نے تاریخ بغداد میں (انتہائی ضعیف سند کے ساتھ) حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اپنی محکم کتاب میں تمہارے لیے بیان فرما دیا جو چیزیں تمہارے لیے حلال اور جو چیز تم پر حرام ہیں پس اس کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام جانو اور اس کے متشابہات پر ایمان لاؤ اور اس کے محکمات پر عمل کرو اور اس کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو۔ (31) ابن الضریس ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ قرآن کو پانچ قسم (کے احکام) پر نازل کیا گیا، حرام، حلال، محکم، متشابہ اور امثال پس تم حلال جانو حلال کو حرام کو حرام جانو ایمان لاؤ متشابہ پر عمل کرو محکم پر اور عبرت حاصل کرو مثالوں سے۔ (32) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ قرآن مجید نازل کیا گیا تمہارے نبی پر سات حروف پر سات دروازوں سے اور تم سے پہلے کتاب صرف ایک حرف پر اور ایک ہی دروازہ سے نازل ہوتی تھی۔ (33) ابن جریر نصر المقدسی نے الحجہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن مجید نازل کیا گیا سات حروف پر قرآن مجید میں شک کرنا کفر ہے جو کچھ تم اس میں جان لو اس پر عمل کرو اور جو کچھ تم اس میں نہ جانو تو اس کو کسی جاننے والے کی طرف لوٹا دو ۔ آیات قرآنی کی پانچ قسمیں (34) البیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن مجید کے مطالب کو کھول کر بیان کرو اور اس کے غرائب کو تلاش کرو اور اس کے غرائب اس کے فرائض اور اس کی حدود ہیں کیونکہ قرآن پانچ قسموں پر نازل ہوا حلال و حرام محکم، متشابہ اور مثالیں سو تم حلال پر عمل کرو۔ اور حرام سے بچو۔ محکم کی تابعداری کرو اور متشابہ پر ایمان لاؤ اور مثالوں سے عبرت حاصل کرو۔ (35) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ قرآن مجید ذومعنی کئی فنون والا اور اس کے ظاہری علوم اور باطنی علوم ہیں اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے نہ کوئی اس کی انتہاء کو پہنچ سکتا ہے جو اس میں نرمی سے داخل ہوا وہ نجات پا گیا اور جو شخص اس میں سختی سے داخل ہوا وہ گمراہ ہوا (اس میں) خبریں مثالیں حرام اور حلال ناسخ اور منسوخ محکم اور متشابہ کے اور ظاہر اور باطن کے بارے میں سو اس کا ظاہر اس کی تلاوت ہے اور اس کا باطن تاویل ہے علماء کی خدمت میں بیٹھو اور بیوقوفوں سے کنارہ کش ہوجاؤ اور بچو تم عالم کی لغزش سے بچو۔ (36) ابن جریر ابن ابی حاتم نے ربیع سے روایت کیا ہے کہ نصاریٰ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کیا آپ یہ نہیں کہتے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کلمۃ اللہ اور اس کی روح ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں پھر انہوں نے کہا ہم کو یہی کافی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” فاما الذین فی قلوبہم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ “۔ (37) عبد الرزاق عبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر ابن الانبار نے کتاب الاضداد میں اور حاکم نے اس کو صحیح کہا طاؤس (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ اس کو (یوں) پڑھتے تھے لفظ آیت ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ “۔ (38) ابو داؤد نے مصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ؓ کی قرات میں اس طرح ہے لفظ آیت ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ “۔ (39) ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم نے ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ پر ان آیات کو پڑھا تو انہوں نے فرمایا علم میں ان کا رسوخ یہ ہے کہ تو ایمان لائے اس کی محکم اور اس کے متشابہات (آیات) پر لفظ آیت ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ “ یعنی وہ لوگ اس کی تاویل کو نہیں جانتے۔ (40) ابن جریر ابن ابی حاتم نے ابو الشعثا اور ابو نہیک رحمہما اللہ سے دونوں حضرات سے روایت کیا ہے کہ تم اس آیت کو ملا کر پڑھتے ہو حالانکہ یہ مقطوع ہے لفظ آیت ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ کل من عند ربنا “ ان کا علم ان کے قول پر ختم ہوگیا جو انہوں نے کہا۔ (41) ابن جریر نے عروہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” والرسخون فی العلم “ سے مراد ہے کہ وہ اس کی تاویل کو نہیں جانتے لیکن وہ جانتے ہیں لفظ آیت ” امنا بہ کل من عند ربنا “ یعنی ہم اس پر ایمان لے آئے کیونکہ یہ سب ان کے رب کی طرف سے ہے۔ (42) عبد بن حمید ابن جریر عمر بن عبد العزیز (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ علم میں رسوخ رکھنے والوں کے علم کی انتہاء ہوگئی قرآن کی تاویل میں یہاں تک کہ انہوں نے کہا لفظ آیت ” امنا بہ کل من عند ربنا “ ہم اس پر ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ (43) ابن ابی شیبہ نے مصنف میں حضرت ابی ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کتاب اللہ میں سے جو ظاہر ہو اس کے ساتھ عمل کرو اور جو چیز تجھ پر مشتبہ ہوجائے اس پر ایمان لے آؤ اور اس کو اس کے جاننے والے کے سپرد کردو۔ (44) ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ قرآن مجید کے مینار ہیں جیسے راستے کا مینار ہوتا ہے جس چیز کو تم پہچان لو اس کو مضبوطی سے پکڑ لو (یعنی اس پر خوب عمل کرو) اور جو چیز تم پر مشتبہ ہوجائے تو اس کو چھوڑ دو ۔ (45) ابن ابی شیبہ نے حضرت معاذ ؓ سے روایت کیا ہے کہ قرآن مجید کے مینار ہیں جیسے راستے کا مینار ہوتا ہے اور کسی پر چھپا نہیں رہتا سو جو کچھ تم اس میں سے سمجھ لو پھر کسی سے سوال نہ کرو اور جس میں تم شک کرو تو اس کو اس کے جاننے والے کے سپرد کر دو ۔ (46) ابن جریر نے اشھب کے طریق سے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ “ یعنی وہ لوگ اس کی تاویل کو نہیں جانتے۔ (47) ابن جریر ابن ابی حاتم طبرانی نے انس ابو امامہ واثلۃ بن الاسقع اور ابو درداء ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے لفظ آیت ” والرسخون فی العلم “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ شخص جو اپنے ہاتھوں سے نیک کام کرے اپنی زبان سے سچ بولے اور اسی کا دل (ایمان میں) پکا ہو اور وہ شخص جس کا پیٹ اور اس کی شرم گاہ پاک دامن ہوں تو وہ شخص لفظ آیت ” والرسخون فی العلم “ میں سے ہوگا۔ والرسخون فی العلم کی تعریف (48) ابن عساکر نے عبد اللہ بن یزید الاودی کے طریق سے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے لفظ آیت ” والرسخون فی العلم “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا جو شخص سچی بات کرنے والا قسم کو پورا کرنے والا اس کا پیٹ اور اس کی شرم گاہ پاک دامن ہوں تو یہ ” والرسخون فی العلم “ میں سے ہے۔ (49) ابن المنذر نے کلبی کے طریق سے اور ابو صالح نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے قرآن کی تفسیر چار قسم پر ہے وہ تفسیر جس کو علماء جانتے ہیں وہ تفسیر جس کا لوگ جہالت کی وجہ سے عذر نہیں کرسکتے حلال یا حرام میں سے وہ تفسیر جو عرب لوگ اپنی لغت کے ذریعہ جانتے ہیں اور وہ تفسیر کہ اس کی تاویل کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جو اس کے جاننے کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے۔ (50) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا حلال اور حرام کوئی عذر نہیں کرسکتا اس کی جہالت کی وجہ سے اور وہ تفسیر جس کو عرب کے لوگوں نے اس کی تفسیر کی اور وہ تفسیر جو علماء نے اس کی تفسیر (بیان) کی اور اس کے متشابہات کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو شخص اس کے جاننے کا دعویٰ کرے اللہ کے سوا تو وہ جھوٹا ہے۔ (51) ابن جریر ابن المنذر نے ابن الانباری نے مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس کی تاویل کو نہیں جانتے ہیں۔ (52) ابن جریر نے ربیع رحمۃ اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ علم میں رسوخ رکھنے والے اس کی تاویل کو نہیں جانتے ہیں اور وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ (53) ابن جریر ابن ابی حاتم عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یقولون امنا بہ “ سے مراد ہے کہ ہم محکم کے ساتھ ایمان لاتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور ہم متشابہ پر ایمان لاتے ہیں لیکن اس کی اطاعت نہیں کرتے حالانکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (54) ابن جریر ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” کل من عند ربنا “ یعنی سب آیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں جو ان میں سے منسوخ کی گئیں اور جو منسوخ نہیں کی گئیں۔ (55) دارمی نے اپنی سند میں نصر المقدسی نے الحجہ میں سلیمان بن یسار ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی جس کو صبیغ کہا جاتا تھا مدینہ منورہ آیا اور قرآن مجید کے متشابہات کے بارے میں پوچھنا شروع کیا حضرت عمر ؓ نے اس کو بلا بھیجا اور اس کے لیے کھجور کی چھڑیاں تیار کر کے رکھ لیں (جب وہ آیا) تو اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں عبد اللہ صبیغ ہوں پھر فرمایا میں اللہ کا بندہ عمر ہوں پھر حضرت عمر ؓ نے کھجور کی چھڑیوں میں سے ایک چھڑی اٹھائی اور اس کو مارا یہاں تک کہ اس کا سر خون آلود ہوگیا اس نے کہا اے امیر المؤمنین آپ کا (مارنا) کافی ہوگیا وہ بات چلی گئی جو میں اپنے سر میں پاتا تھا (یعنی میرے سر میں فتور تھا وہ چلا گیا ) ۔ صبیغ عراقی پر تعزیر (56) دارمی نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ صبیغ عراقی نے مسلمانوں کے لشکروں میں قرآن میں سے کئی چیزوں کے بارے میں پوچھنا شروع کیا یہاں تک کہ مصر میں آگیا عمرو بن عاص ؓ نے اس کو حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس بھیج دیا جب وہ ان کے پاس آیا تو حضرت عمر ؓ نے کھجور کی سبز ٹہنیاں منگوائیں اور اس کے ساتھ اس کو مارا یہاں تک کہ اس کی پیٹھ کو زخمی کردیا پھر اس کو چھوڑ دیا جب وہ صحیح ہوگیا پھر اس کو مارا پھر چھوڑ دیا یہاں تک کہ صحیح ہوگیا پھر اس کو بلوایا تاکہ پھر ماریں تو صبیغ ؓ نے فرمایا اگر تو میرے قتل کا ارادہ کرتا ہے تو مجھے اچھی طرح سے قتل کر اور اگر تو میرے علاج کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ کی قسم میں اب ٹھیک ہوگیا ہوں تو اس کو اس کے وطن کی طرف اجازت دے دی گئی اور ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ مسلمانوں میں سے کوئی آدمی اس کی مجلس میں نہ بیٹھے (57) ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے صبیغ کو مارا تھا قرآن کے ایک حرف کے بارے میں سوال کرنے پر کہ اس کی پیٹھ سے خون نکل آیا۔ (58) ابن الانباری نے مصاحف میں نصر المقدسی نے الحجہ میں ابن عساکر نے سائب بن یزید ؓ سے روایت کیا ہے ایک آدمی نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ میں ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرا ہوں جو قرآن مجید کے مشکل مقامات کی تفسیر کے بارے میں سوال کرتا تھا (یہ سن کر) حضرت عمر ؓ نے فرمایا اے اللہ ! مجھے قدرت دے دے اس سے (یعنی وہ آدمی کسی طرح میرے قابو میں آجائے) ایک دن ایک آدمی حضرت عمر ؓ کے پاس آیا اور اس نے (وہی قرآن مجید کے مشکل مقامات کے بارے میں) سوال کیا حضرت عمر ؓ کھڑے ہوگئے اور آپ نے اپنی دونوں آستینیں چڑھا لیں اور اس کو کوڑے مارنے شروع کئے پھر (دوسرے لوگوں سے فرمایا اس کو بنیان پہنا دو اور اس کو کجاوہ پر سوار کر کے اس کے قبیلہ تک پہنچا دو پھر چاہئے کہ ایک آدمی خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہو اور (یوں) کہے کہ صبیغ نے علم کی طلب کی اور اس میں غلطی کی وہ برابر اپنی قوم میں ذلیل رہا بعد اس کے کہ پہلے ان کا سردار تھا۔ (59) نصر المقدسی نے الحجہ میں ابن عساکر نے ابو عثمان نہدی (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر نے اہل بصرہ کی طرف لکھا کہ وہ صبیغ کے پاس نہ بیٹھا کریں تو انہوں نے فرمایا کہ اگر وہ آتا اور ہم سوا فراد ہوتے تو ہم جدا ہوجاتے۔ (60) ابن عساکر نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ وہ صبیغ کے پاس نہ بیٹھا کریں اور اس کو مجروم کر دے عطا اور رزق سے (یعنی اس کو عطیات اور خرچہ نہ دیا کرے) ۔ (61) نصر نے الحجہ میں ابن عساکر نے زرعہ (رح) سے روایت کیا ہے میں نے صبیغ بن عسل کو بصرہ میں دیکھا گویا والوں نے ان کو آواز دی امیر المومنین عمر ؓ کے حق کو (یاد کرو) وہ لوگ کھڑے ہوجاتے اور اس کو وہیں چھوڑ دیتے۔ (62) نصر نے الحجہ میں ابو اسحاق (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا اما بعد ! صبیغ نے تکلف کیا مخفی کاموں میں ضائع کیا (اس کام کو) جس کا وہ والی بنایا گیا جب یہ خط تیرے پاس پہنچے تو اس سے خریدوفروخت نہ کرنا اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت نہ کرنا اگر وہ مرجائے تو اس کے جنازہ میں حاضر نہ ہونا۔ (63) الھرومی نے ذم الکلام میں امام شافعی (رح) سے روایت کیا کہ علم کلام والوں کے بارے میں میرا وہی نظریہ ہے جو حضرت عمر ؓ کا تھا صبیغ کے بارے میں کہ ان کو مارا جائے چھڑی کے ساتھ ان کو اونٹ پر سوار کرو اور ان کو قبیلوں میں گھماؤ اور ان پر آواز لگاؤ کہ یہ سزا ہے جو کتاب اور سنت کو چھوڑ دے اور علم الکلام کی طرف متوجہ ہوجائے۔ (64) دارمی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا عنقریب تمہارے پاس ایسے لوگ آئیں گے جو تم سے متشابہات قرآن کے بارے میں جھگڑا کریں گے تم ان کا مقابلہ علماء احادیث کے ذریعہ کرنا کیونکہ اصحاب سنن (یعنی) علماء احادیث اور عمل کرنے والے اللہ کی کتاب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ (65) نصرالمقدسی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے تو وہ قرآن مجید میں جھگڑا کر رہے تھے ایک اس آیت میں استدلال کر رہا تھا دوسرا دوسری آیت سے استدلال کر رہا تھا۔ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا گویا آپ ﷺ کے چہرہ انور میں انار کا دانہ نچوڑ دیا آپ نے فرمایا کیا تم اس لیے پیدا کئے گئے یا فرمایا کیا تم اسی کا حکم دئیے گئے کہ تم اللہ کی کتاب کے ایک حصہ کو دوسرے حصہ سے ٹکراتے رہو دیکھو تم کو کس چیز کا حکم دیا گیا سو اسی کی اتباع کرو اور جس سے تم روکے گئے اس سے رک جاؤ۔ (66) ابو داؤد حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن مجید میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ (67) نصر المقدسی نے الحجہ میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے آپ کے حجروں کے باہر ایک قوم قرآن میں جھگڑا کر رہی تھی آپ ان کے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ کا چہرہ مبارک (غصہ کی وجہ سے) اتنا سرخ تھا گویا رخساروں میں خون بہہ رہا ہے اور آپ نے فرمایا اے قوم ! قرآن کے بارے میں جھگڑا نہ کرو بلاشبہ تم سے پہلے لوگ آسمانی کتابوں میں جھگڑا کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے قرآن مجید اس لئے نازل نہیں ہوا تاکہ بعض اس کا بعض کو جھٹلائے لیکن اس لیے نازل ہوا تاکہ اس کا بعض حصہ بعض کی تصدیق کرے اس میں سے محکمات آیات پر عمل کرو اور متشابہات پر ایمان لے آؤ۔ (68) نصر نے الحجہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ہم حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس تھے اچانک ایک آدمی ان کے پاس آیا اور قرآن کے بارے میں پوچھنے لگا کہ وہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق ہے حضرت عمر ؓ کھڑے ہوگئے اور اس آدمی کو کپڑوں سے پکڑ لیا اور گھسیٹتے ہوئے اس کو حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے پاس لے گئے اور ان سے فرمایا اے ابو الحسن (یہ علی ؓ کی کنیت ہے) کیا تو نے سنا کہ یہ آدمی کیا کہتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کیا کہتا ہے ؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا یہ آدمی میرے پاس آیا اور مجھ سے قرآن کے بارے میں پوچھا آیا وہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق ہے ؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا یہ ایسا کلمہ ہے کہ عنقریب اس پر بڑا فتنہ ہوگا اگر میں خلیفہ ہوتا تو میں اس کی گردن اڑا دیتا۔ (69) عبد بن حمید نے حضرت قتادہ (رح) سے اس آیت ” فاما الذین فی قلوبہم زیغ “ کے بارے میں روایت کیا کہ قوم نے (اس کی) تاویل طلب کی اور تاویل (کرنے) میں انہوں نے خطا کی اور فتنہ کو پہنچ گئے اور تابعداری کی انہوں نے ان میں سے متشابہ آیات کی اور اس میں ہلاک ہوگئے۔ (70) ابن الانباری نے کتاب الاضداد میں مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ جو لوگ علم میں مضبوط ہوتے ہیں وہ اس کی تاویل کو جانتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے۔
Top