Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ
: وہی
الَّذِيْٓ
: جس
اَنْزَلَ
: نازل کی
عَلَيْكَ
: آپ پر
الْكِتٰبَ
: کتاب
مِنْهُ
: اس سے (میں)
اٰيٰتٌ
: آیتیں
مُّحْكَمٰتٌ
: محکم (پختہ)
ھُنَّ
: وہ
اُمُّ الْكِتٰبِ
: کتاب کی اصل
وَاُخَرُ
: اور دوسری
مُتَشٰبِهٰتٌ
: متشابہ
فَاَمَّا
: پس جو
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
فِيْ
: میں
قُلُوْبِهِمْ
: ان کے دل
زَيْغٌ
: کجی
فَيَتَّبِعُوْنَ
: سو وہ پیروی کرتے ہیں
مَا تَشَابَهَ
: متشابہات
مِنْهُ
: اس سے
ابْتِغَآءَ
: چاہنا (غرض)
الْفِتْنَةِ
: فساد۔ گمراہی
وَابْتِغَآءَ
: ڈھونڈنا
تَاْوِيْلِهٖ
: اس کا مطلب
وَمَا
: اور نہیں
يَعْلَمُ
: جانتا
تَاْوِيْلَهٗٓ
: اس کا مطلب
اِلَّا
: سوائے
اللّٰهُ
: اللہ
وَالرّٰسِخُوْنَ
: اور مضبوط
فِي الْعِلْمِ
: علم میں
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
اٰمَنَّا
: ہم ایمان لائے
بِهٖ
: اس پر
كُلٌّ
: سب
مِّنْ عِنْدِ
: سے۔ پاس (طرف)
رَبِّنَا
: ہمارا رب
وَمَا
: اور نہیں
يَذَّكَّرُ
: سمجھتے
اِلَّآ
: مگر
اُولُوا الْاَلْبَابِ
: عقل والے
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں
ہماری سمجھ سے بلند آیات یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے۔ ہر شخص اس کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے، اور بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے مطلب تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہوسکتی، اب جو لوگ نہ سمجھ میں آنے والی آیتوں کے مفہوم کو پہلی قسم کی آیتوں کی روشنی میں سمجھ لیں یعنی جس مسئلہ کی صراحت جس آیت میں پائیں لے لیں، وہ تو راستی پر ہیں اور جو صاف اور صریح آیتوں کو چھوڑ کر ایسی آیتوں کو دلیل بنائیں جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں، ان میں الجھ جائیں تو منہ کے بل گرپڑیں، ام الکتاب یعنی کتاب اللہ اصل اصولوں کی وہ صاف اور واضح آیتیں ہیں، شک و شبہ میں نہ پڑو اور کھلے احکام پر عمل کرو انہی کو فیصلہ کرنے والی مانو اور جو نہ سمجھ میں آئے اسے بھی ان سے ہی سمجھو، بعض اور آیتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک معنی تو ان کا ایسا نکلتا ہے جو ظاہر آیتوں کے مطابق ہو اور اس کے سوا اور معانی بھی نکلتے ہیں، گو وہ حرف لفظ اور ترکیب کے اعتبار سے واقعی طور پر نہ ہو تو ان غیر ظاہر معنوں میں نہ پھنسو، محکم اور متشابہ کے بہت سے معنی اسلاف سے منقول ہیں، حضرت ابن عباس تو فرماتے ہیں کہ محکمات وہ ہیں جو ناسخ ہوں جن میں حلال حرام احکام حکم ممنوعات حدیں اور اعمال کا بیان ہو، اسی طرح آپ سے یہ بھی مروی ہے (آیت قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم الخ،) اور اس کے بعد کے احکامات والی اور (آیت وقضی ربک ان لا تبعدوا الخ،) اور اس کے بعد کی تین آیتیں محکمات سے ہیں، حضرت ابو فاختہ فرماتے ہیں سورتوں کے شروع میں فرائض اور احکام اور روک ٹوک اور حلال و حرام کی آیتیں ہیں، سعید بن جبیر کہتے ہیں انہیں اصل کتاب اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ تمام کتابوں میں ہیں، حضرت مقاتل کہتے ہیں اس لئے کہ تمام مذہب والے انہیں مانتے ہیں، متشابہات ان آیتوں کو کہتے ہیں جو منسوخ ہیں اور جو پہلے اور بعد کی ہیں اور جن میں مثالیں دی گئیں ہیں اور قسمیں کھائی گئی ہیں اور جن پر صرف ایمان لایا جاتا ہے اور عمل کیلئے وہ احکام نہیں، حضرت ابن عباس کا بھی یہی فرمان ہے حضرت مقاتل فرماتے ہیں اس سے مراد سورتوں کے شروع کے حروف مقطعات ہیں۔ حضرت مجاہد کا قول یہ ہے کہ ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ) 39۔ الزمر :23) اور مثانی وہ ہے جہاں دو مقابل کی چیزوں کا ذکر ہو جیسے جنت دوزخ کی صفت، نیکوں اور بدوں کا حال وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں متشابہ محکم کے مقابلہ میں اس لئے ٹھیک مطلب وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا اور حضرت محمد بن اسحاق بن یسار کا یہی فرمان ہے، فرماتے ہیں یہ رب کی حجت ہے ان میں بندوں کا بچاؤ ہے، جھگڑوں کا فیصلہ ہے، باطل کا خاتمہ ہے، انہیں ان کے صحیح اور اصل مطلب سے کوئی گھما نہیں سکتا نہ ان کے معنی میں ہیرپھیر کرسکتا ہے۔ متشابہات کی سچائی میں کلام نہیں ان میں تصرف و تاویل نہیں کرنی چاہئے۔ ان سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ایمان کو آزماتا ہے جیسے حلال حرام سے آزماتا ہے، انہیں باطل کی طرف لے جانا اور حق سے پھیرنا چاہئے۔ پھر فرماتا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ٹیڑھ پن گمراہی اور حق سے باطل کی طرف ہی ہے وہ تو متشابہ آیتوں کو لے کر اپنے بدترین مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور لفظی اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کی طرف موڑ لیتے ہیں اور جو محکم آیتیں ان میں ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کے الفاظ بالکل صاف اور کھلے ہوئے ہوتے ہیں نہ وہ انہیں ہٹا سکتے ہیں نہ ان سے اپنے لئے کوئی دلیل حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی لئے فرمان ہے کہ اس سے ان کا مقصد فتنہ کی تلاش ہوتی ہے تاکہ اپنے ماننے والوں کو بہکائیں، اپنی بدعتوں کی مدافعت کریں جیسا کہ عیسائیوں نے قرآن کے الفاظ روح اللہ اور کلمۃ اللہ سے حضرت عیسیٰ کے اللہ کا لڑکا ہونے کی دلیل لی ہے۔ پس اس متشابہ آیت کو لے کر صاف آیت جس میں یہ لفظ ہیں کہ (آیت ان ھو الا عبد الخ، یعنی حضرت عیسیٰ اللہ کے غلام ہیں، جن پر اللہ کا انعام ہے، اور جگہ ہے آیت (اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ) 3۔ آل عمران :59) یعنی حضرت عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم کی طرح ہے کہ انہیں اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا کہ ہوجا، وہ ہوگیا، چناچہ اسی طرح کی اور بھی بہت سی صریح آیتیں ہیں ان سب کو چھوڑ دیا اور متشابہ آیتوں سے حضرت عیسیٰ کے اللہ کا بیٹا ہونے پر دلیل لے لی حالانکہ آپ اللہ کی مخلوق ہیں، اللہ کے بندے ہیں، اس کے رسول ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کی دوسری غرض آیت کی تحریف ہوتی ہے تاکہ اسے اپنی جگہ سے ہٹا کر مفہوم بدل لیں، حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں میں جھگڑتے ہیں تو انہیں چھوڑ دو ، ایسے ہی لوگ اس آیت میں مراد لئے گئے ہیں۔ یہ حدیث مختلف طریق سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے، صحیح بخاری شریف میں بھی یہ حدیث اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے، ملاحظہ ہو کتاب القدر، ایک اور حدیث میں ہے یہ لوگ خوارج ہیں (مسند احمد) پس اس حدیث کو زیادہ سے زیادہ موقوف سمجھ لیا جائے تاہم اس کا مضمون صحیح ہے اس لئے کہ پہلے بدعت خوارج نے ہی پھیلائی ہے، فرقہ محض دنیاوی رنج کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ ہوا۔ حضور ﷺ نے جس وقت حنین کی غنیمت کا مال تقسیم کیا اس وقت ان لوگوں نے اسے خلاف عدل سمجھا اور ان میں سے ایک نے جسے ذواخویصرہ کہا جاتا ہے اس نے حضور ﷺ کے سامنے آکر صاف کہا کہ حضرت عدل کیجئے، آپ نے اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا، آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اللہ نے امین بنا کر بھیجا تھا، اگر میں بھی عدل نہیں کروں تو پھر برباد ہو اور نقصان اٹھائے، جب وہ پلٹا تو حضرت عمر فاروق نے درخواست کی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اسے مار ڈالوں، آپ ﷺ نے فرمایا چھوڑ دو ، اس کے ہم خیال ایک ایسی قوم پیدا ہوگی کہ تم لوگ اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنی قرآن خوانی کو ان کی قرآن خوانی کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے لیکن دراصل وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے، تم جہاں انہیں پاؤ گے قتل کرو گے، انہیں قتل کرنے والے کو بڑا ثواب ملے گا، حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں ان کا ظہور ہوا اور آپ نے انہیں نہروان میں قتل کیا پھر ان میں پھوٹ پڑی تو ان کے مختلف الخیال فرقے پیدا ہوگئے، نئی نئی بدعتیں دین میں جاری ہوگئیں اور اللہ کی راہ سے بہت دور چلے گئے، ان کے بعد قدریہ فرقے کا ظہور ہوا، پھر معتزلہ پھر جہمیہ وغیرہ پیدا ہوئے اور حضور ﷺ کی پیشنگوئی پوری ہوئی کہ میری امت میں عنقریب تہتر فرقے ہوں گے سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے۔ صحابہ نے پوچھا وہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ جو اس چیز پر ہوں جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب (مستدرک حاکم) ایویعلیٰ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ایک قوم پیدا ہوگی جو قرآن تو پڑھے گی لیکن اسے اس طرح پھینکے گی جیسے کوئی کھجور کی گٹھلیاں پھینکتا ہو، اس کے غلط مطالب بیان کرے گی، پھر فرمایا اس کی حقیقی تاویل اور واقعی مطلب اللہ ہی جانتا ہے، لفظ اللہ پر وقف ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے، حضرت عبداللہ بن عباس تو فرماتے ہیں تفسیر چار قسم کی ہے، ایک وہ جس کے سمجھنے میں کسی کو مشکل نہیں، ایک وہ جسے عرب اپنے لغت سے سمجھتے ہیں، ایک وہ جسے جید علماء اور پورے علم والے ہی جانتے ہیں اور ایک وہ جسے بجزذات الہٰی کے اور کوئی نہیں جانتا۔ یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے، حضرت عائشہ کا بھی یہی قول ہے، معجم کبیر میں حدیث ہے کہ مجھے اپنی امت پر صرف تین باتوں کا ڈر ہے۔ مال کی کثرت کا جس سے حسد و بغض پیدا ہوگا اور آپس کی لڑائی شروع ہوگی، دوسرا یہ کہ کتاب اللہ کی تاویل کا سلسلہ شروع ہوگا حالانکہ اصلی مطلب ان کا اللہ ہی جانتا ہے اور اہل علم والے کہیں گے کہ ہمارا اس پر ایمان ہے۔ تیسرے یہ کہ علم حاصل کرنے کے بعد اسے بےپرواہی سے ضائع کردیں گے، یہ حدیث بالکل غریب ہے اور حدیث میں ہے کہ قرآن اس لئے نہیں اترا کہ ایک آیت دوسری آیت کی مخالف ہو، جس کا تمہیں علم ہو اور اس پر عمل کرو اور جو متشابہ ہوں ان پر ایمان لاؤ (ابن مردویہ) ابن عباس حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت مالک بن انس سے بھی یہی مروی ہے کہ بڑے سے بڑے عالم بھی اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے، ہاں اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ پختہ علم والے یہی کہتے ہیں اس کی تاویل کا علم اللہ ہی کو ہے کہ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ ابی بن کعب بھی یہی فرماتے ہیں، امام ابن جریر بھی اسی سے اتفاق کرتے ہیں، یہ تو تھی وہ جماعت جو الا اللہ پر وقف کرتی تھی اور بعد کے جملہ کو اس سے الگ کرتی تھی، کچھ لوگ یہاں نہیں ٹھہرتے اور فی العلم پر وقف کرتے ہیں، اکثر مفسرین اور اہل اصول بھی یہی کہتے ہیں، ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ جو سمجھ میں نہ آئے اس بات کا ٹھیک نہیں، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے میں ان راسخ علماء میں ہوں جو تاویل جانتے ہیں، مجاہد فرماتے ہیں راسخ علم والے تفسیر جانتے ہیں، حضرت محمد بن جعفر بن زبیر فرماتے ہیں کہ اصل تفسیر اور مراد اللہ ہی جانتا ہے اور مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے پھر متشابہات آیتوں کی تفسیر محکمات کی روشنی کرتے ہیں جن میں کسی کو بات کرنے کی گنجائش نہیں رہتی، قرآن کے مضامین ٹھیک ٹھاک سمجھ میں آتے ہیں دلیل واضح ہوتی ہے، عذر ظاہر ہوجاتا ہے، باطل چھٹ جاتا ہے اور کفر دفع ہوجاتا ہے، حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس کیلئے دعا کی کہ اے اللہ انہیں دین کی سمجھ دے اور تفسیر کا علم تھے، بعض علماء نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے، قرآن کریم میں تاویل دو معنی میں آئی ہے، ایک معنی جن سے مفہوم کی اصلی حقیقت اور اصلیت کی نشاندہی ہوتی ہے، جیسے قرآن میں ہے (يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ ۡ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّيْ حَقًّا) 12۔ یوسف :100) میرے باپ میرے خواب کی یہی تعبیر ہے، اور جگہ ہے آیت (هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِيْلَهٗ ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بالْحَقِّ) 7۔ الاعراف :53) کافروں کے انتظار کی حد حقیقت کے ظاہر ہونے تک ہے اور یہ دن وہ ہوگا جب حقیقت سچائی کی گواہ بن کر نمودار ہوگی، پس ان دونوں جگہ پر تاویل سے مراد حقیقت ہے، اگر اس آیت مبارکہ میں تاویل سے مراد یہی تاویل لی جائے تو الا اللہ پر وقف ضروری ہے اس لئے کہ تمام کاموں کی حقیقت اور اصلیت بجز ذات پاک کے اور کوئی نہیں جانتا تو راسخون فی العلم مبتدا ہوگا اور یقولون امنابہ خبر ہوگی اور یہ جملہ بالکل الگ ہوگا اور تاویل کے دوسرے معنی تفسیر اور بیان اور ہے اور ایک شئی کی تعبیر دوسری شے ہے، جیسے قرآن میں ہے آیت (نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ) 12۔ یوسف :36) ہمیں اس کی تاویل بتاؤ یعنی تفسیر اور بیان، اگر آیت مذکورہ میں تاویل سے یہ مراد لی جائے تو فی العلم پر وقف کرنا چاہئے، اس لئے کہ پختہ علم والے علماء جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیونکہ خطاب انہی سے ہے، گو حقائق کا علم انہیں بھی نہیں، تو اس بنا پر امنا بہ حال ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بغیر معطوف علیہ کے معطوف ہو، جیسے اور جگہ ہے آیت (لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ) 59۔ الحشر :8) سے (يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) 59۔ الحشر :10) تک دوسری جگہ ہے آیت (وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا) 89۔ الفجر :22) یعنی وجاء الملائکۃ صفوفا صفوفا اور ان کی طرف سے یہ خبر کہ ہم اس پر ایمان لائے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہ پر ایمان لائے، پھر اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب یعنی محکم اور متشابہ حق اور سچ ہے اور یعنی ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا) 4۔ النسآء :82) یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا، اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ اسے صرف عقلمند ہی سمجھتے ہیں جو اس پر غور و تدبر کریں، جو صحیح سالم عقل والے ہوں جن کے دماغ درست ہوں، حضور ﷺ سے سوال ہوتا ہے کہ پختہ علم والے کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کی قسم سچی ہو، جس کی زبان راست گو ہو، جس کا دل سلامت ہو، جس کا پیٹ حرام سے بچا ہو اور جس کی شرم گاہ زناکاری سے محفوظ ہو، وہ مضبوط علم والے ہیں (ابن ابی حاتم) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو دیکھا کہ وہ قرآن شریف کے بارے میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا سنو تم سے پہلے لوگ بھی اسی میں ہلاک ہوئے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی آیتوں کو ایک دوسرے کیخلاف بتا کر اختلاف کیا حالانکہ کتاب اللہ کی ہر آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے، تم ان میں اختلاف پیدا کرکے ایک کو دوسری کے متضاد نہ کہو، جو جانو وہی کہو اور جو نہیں جانو اسے جاننے والوں کو سونپ دو (مسند احمد) اور حدیث میں ہے کہ قرآن سات حرفوں پر اترا، قرآن میں جھگڑنا کفر ہے، قرآن میں اختلاف اور تضاد پیدا کرنا کفر ہے، جو جانو اس پر عمل کرو، جو نہ جانو اسے جاننے والے کی طرف سونپو جل جلالہ (ایویعلی) راسخ فی العلم کون ؟ نافع بن یزید کہتے ہیں راسخ فی العلم وہ لوگ ہیں جو متواضح ہوں جو عاجزی کرنے والے ہوں، رب کی رضا کے طالب ہوں، اپنے سے بڑوں سے مرعوب نہ ہوں، اپنے سے چھوٹے کو حقیر سمجھنے والے نہ ہوں۔ پھر فرمایا کہ یہ سب دعا کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں کو ہدایت پر جمانے کے بعد انہیں ان لوگوں کے دلوں کی طرح نہ کر جو متشابہ کے پیچھے پڑ کر برباد ہوجاتے ہیں بلکہ ہمیں اپنی صراط مستقیم پر قائم رکھ اور اپنے مضبوط دین پر دائم رکھ، ہم پر اپنی رحمت نازل فرما، ہمارے دلوں کو قرار دے، ہم سے گندگی کو دور کر، ہمارے ایمان و یقین کو بڑھا تو بہت بڑا دینے والا ہے، رسول اللہ ﷺ دعا مانگا کرتے تھے حدیث (یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک) اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر جما ہوا رکھ، پھر یہ دعا ربنا لاتزغ پڑھتے اور حدیث میں ہے کہ آپ بکثرت یہ دعا پڑھتے تھے حدیث (اللھم مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک حضرت اسماء نے ایک دن پوچھا کیا دل الٹ پلٹ ہوجاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہر انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے، اگر چاہے قائم رکھے اگر چاہے پھیر دے، ہماری دعا ہے ہمارا رب دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمتیں عنایت فرمائے، وہ بہت زیادہ دینے والا ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے کہ میں اپنے لئے مانگا کروں، آپ نے فرمایا یہ دعا مانگ (حدیث اللھم رب محمد النبی اغفرلی ذنبی و اذھب غیظ قلبی و اجرنی من مضلات الفتن) اے اللہ اے محمد نبی ﷺ کے رب میرے گناہ معاف فرما، میرے دل کا غصہ اور رنج اور سختی دور کر اور مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بچا لے، حضرت عائشہ صدیقہ نے بھی آپ کی دعا یا مقلب القلوب سن کر حضرت اسماء کی طرح میں نے بھی یہی سوال کیا اور آپ نے وہی جواب دیا اور پھر قرآن کی یہ دعا سنائی، یہ حدیث غریب ہے لیکن قرآنی آیت کی تلاوت کے بغیر یہی بخاری مسلم میں بھی مروی ہے، اور نسائی میں ہے کہ حضور ﷺ جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے (حدیث لا الہ الا انت سبحانک استغفرک لذنبی واسئلک رحمۃ اللھم زدنی علما ولا تزغ بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب) اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں، اللہ میرے علم میں زیادتی فرما اور میرے دل کو تو نے ہدایت دے دی ہے اسے گمراہ نہ کرنا اور مجھے اپنے پاس کی رحمت بخش تو بہت زیادہ دینے والا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے مغرب کی نماز پڑھائی، پہلی دو رکعتوں میں الحمدشریف کے بعد مفصل کی چھوٹی سی دو سورتیں پڑھیں اور تیسری رکعت میں سورة الحمد شریف کے بعد یہی آیت پڑھی۔ ابو عبد اللہ صبالجی فرماتے ہیں میں اس وقت ان کے قریب چلا گیا تھا، یہاں تک کہ میرے کپڑے ان کے کپڑوں سے مل گئے تھے اور میں نے خود اپنے کان سے ابوبکر صدیق کو یہ پڑھتے ہوئے سنا (عبدالرزاق) حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب تک یہ حدیث نہیں سنی تھی آپ اس رکعت میں قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے لیکن یہ حدیث سننے کے بعد امیرالمومنین نے بھی اسی کو پڑھنا شروع کیا اور کبھی ترک نہیں کیا۔ پھر فرمایا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ تو قیامت کے دن اپنی تمام مخلوق کو جمع کرنے والا ہے اور ان میں فیصلے اور حکم کرنے والا ہے، ان کے اختلافات کو سمیٹنے والا ہے اور ہر ایک کو بھلے برے عمل کا بدلہ دینے والا ہے اس دن کے آنے میں اور تیرے وعدوں کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں۔
Top