Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس اَنْزَلَ : نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب مِنْهُ : اس سے (میں) اٰيٰتٌ : آیتیں مُّحْكَمٰتٌ : محکم (پختہ) ھُنَّ : وہ اُمُّ الْكِتٰبِ : کتاب کی اصل وَاُخَرُ : اور دوسری مُتَشٰبِهٰتٌ : متشابہ فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : جو لوگ فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل زَيْغٌ : کجی فَيَتَّبِعُوْنَ : سو وہ پیروی کرتے ہیں مَا تَشَابَهَ : متشابہات مِنْهُ : اس سے ابْتِغَآءَ : چاہنا (غرض) الْفِتْنَةِ : فساد۔ گمراہی وَابْتِغَآءَ : ڈھونڈنا تَاْوِيْلِهٖ : اس کا مطلب وَمَا : اور نہیں يَعْلَمُ : جانتا تَاْوِيْلَهٗٓ : اس کا مطلب اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ وَالرّٰسِخُوْنَ : اور مضبوط فِي الْعِلْمِ : علم میں يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِهٖ : اس پر كُلٌّ : سب مِّنْ عِنْدِ : سے۔ پاس (طرف) رَبِّنَا : ہمارا رب وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : سمجھتے اِلَّآ : مگر اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں، تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے پروردگا کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم محکمات اور متشابہات کا بیان قول باری ہے (ھوالذی انزل علیک الکتاب منہ ایات محکمات ھن امرالکتب واخرمتشابھات) وہی خدا ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے اس میں دوطرح کی آیتیں ہیں ایک حکمات جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات تاآخر آیت ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی اس تفسیر کے آغاز میں محکم اور متشابہ کے معانی بیان کردیئے ہیں اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی دوقسمیں ہیں، ایک کے لحاظ سے پورے قرآن کو اس کے ساتھ موصوف کرنا ورست ہے اور دوسرے کے لحاظ سے قرآن کے بعض حصوں کو اس کے ساتھ مختص کرنا صحیح ہے قول باری ہے (الرکتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر) ، الریہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات محکم ہیں اور پھر ان کی تفصیل ایک حکیم وخبیرذات کی طرف سے بیان کردی گئی ہے) نیز فرمایا (الرتلک آیات الکتاب الحکیم ، الر، یہ حکمت والی کتاب کی آیات ہیں) اللہ تعالیٰ نے ان آیات ہیں پورے قرآن کو صفت محکم کے ساتھ موصوف کردیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا (اللہ نزل احسن الحدیث کتا بامتشابھامثانی ما اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل کیا ہے، ایک کتاب باہم ملتی جلتی ہے اور بار باردہرائی ہوئی) یہاں اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن کو صفت متشابہ کے ساتھ موصوف کردیا۔ پھر دوسری جگہ فرمایا (ھو) الذی انزل علیک الکتاب منہ ایات محکمات ھن امر الکتاب واخرمتشابھات) اس آیت میں یہ بیان کیا کہ قرآن کے بعض حصے محکم ہیں اور بعض حصے متشابہ ، محکمیت کی صفت جو پورے قرآن میں پائی جاتی ہے اس سے مراد وہ درستی صداقت اور اتقان اور پختگی جن کی بناپر قرآن کو ہر کلام پر فضیلت حاصل ہے رہ گئے قرآن مجید کے وہ مخصوص مقامات جن کے متعلق ارشاد ہوا (منہ ایات محکمات ھن ام الکتاب) تو اس سے مرادہروہ لفظ سے جس کے معنی میں کوئی اشتراک نہ ہو اور سامع کے نزدیک اس میں ایک کے سوا اور کسی معنی کا احتمال ہی نہ ہو۔ ہم نے اس بارے میں اہل علم کے اختلاف کا ذکر کردیا ہے تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اس آیت میں مذکورلفظ احکام ہمارے بیان کردہ مفہوم کو لازما اپنے ضمن میں لیئے ہوئے ہے۔ یعنی وہ آیات جو کتاب کی اصل بنیاد قراردی گئی ہیں اور جنکی طرف متشابہات کو لوٹایاجاتا ہے۔ یعنی متشابہات کے معانی کی تقین کے لیئے ان آیات کو معیار اورکسوٹی بنایاجاتا ہے تشابہ کی صفت جو پورے قرآن میں پائی جاتی ہے اور جس کا ذکرباری تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا، (کتابامتشابھا) تو اس سے مراد وہ ماثلت ہے جو آیات میں پائی جاتی ہے۔ نیز اس سے اس بات کی بھی نفی کرنا مقصود ہے کہ قرآنی آیات اختلاف بیان اور تضادات کے نقائص سے پاک ہیں۔ رہ گئے وہ متشابہات جو قرآن کے بعض حصوں کے ساتھ مختص ہیں تو ہم نے ان کے متعلق سلف کے اقوال کا تذکرہ کردیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہے کہ محکم سے مرادناسخ اور متشابہ سے مراد منسوخ ہے۔ ہمارے نزدیک یہ محکم اور متشابہ کی ایک قسم ہے اس لیئے کہ حضرت ابن عباس نے اس بات کی نفی نہیں کی نفی نہیں کی کہ محکم اور متشابہ کی ان کے علاوہ اور صورتیں نہیں ہیں۔ اسی بات کی گنجائش ہے کہ ناسخ کو محکم کا نام دیاجائے اس لیئے کہ اس کا حکم اپنی جگہ باقی رہتا ہے اور عرب کے لوگ مضبوط اور پائیدار عمارت کو محکم کے نام سے پکارتے ہیں اسی طرح مضبوط لڑی والے ہارکو بھی محکم کا نام دیاجاتا ہے ۔ جسے کھولنا ممکن نہ ہو اس لیئے ناسخ کو بھی محکم کانا م دینا درست ہے اس لیئے کہ ناسخ کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ثبات اور بقار کی صفت پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف منسوخ کو متشابہ کہنا بھی درست ہے کیونکہ وہ تلاوت میں محکم کے مماثل ہوتا ہے۔ اس بناپر تلاوت کرنے والے کے لیئے اس کا حکم ثابت اور نسخ کے لحاظ سے مشتبہ ہوجاتا ہے۔ اس حیثیت سے منسوخ کو متشابہ کہنا درست ہے۔ جس شخص نے یہ کہا ہے کہ محکم وہ ہے جس کے الفاظ میں تکرارنہ ہو اور متشابہ وہ ہے جس کے الفاظ میں تکرارہو، چونکہ سامع کے نزدیک الفاظ کی تکرار کی حکمت کی وجہ میں اشتباہ ہوتا ہے، اس جہت سے آیت متشابہ بن جاتی ہے۔ اس سبب کا اطلاق ان تمام مقامات پر ہوسکتا ہے جہاں سامع پر حکمت کی وجہ میں اشتباہ پیدا ہوجائے۔ یہاں تک کہ وہ خود اس وجہ سے آگاہ ہوجائے اور اس کی حکمت کا مفہوم اس کے ذہن میں واض ہوجائے۔ اس وقت تک ایسی آیت پر متشابہ کے اسم کا اطلاق جائز ہے۔ دوسری طرف جن آیات میں سامع کے لیئے وجہ حکمت میں اشتباہ نہ ہو تو وہ اس قائل کے قول کے مطابق محکم ہوں گی جن میں کسی تشابہ کی گنجائش نہیں۔ اس قائل کے قول میں بیان کردہ مفہوم بھی محکم اور متشابہ کی ایک صورت ہے اور اسپران اسمابہ کا ا طلاق جائز ہے۔ حضرت جابربن عبداللہ سے ایک روایت ہے کہ محکم وہ ہے جس کی تاویل اور تفسیر کی تعیین کا علم ہوجائے اور متشابہ وہ ہے جس کی تاویل وتفسیر کی تعیین کا علم نہ ہوسکے مثلاقول باری ہے (یسئلونک عن الساعۃ ایان مرساھا۔ یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا) یا اس قسم کی اور آیات ایسی پر محکم اور متشابہ کے اسم کا اطلاق درست ہے۔ اس لیئے کہ جس چیز کے وقت اور مفہوم کا علم ہوجائے اس میں کوئی اشتباہ باقی نہیں رہتا اور اس کا بیان محکم ہوتاہی اور جس چیز کے وقت معنی اور تاویل کا علم نہ ہوسامع کے نزدیک وہ اشتباہ کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیئے اس پر متشابہ کے اسم کا اطلاق جائزہوتا ہے۔ آیت میں واردالفاظ میں روایت شدہ ان تمام وجوہ کا احتمال موجود ہے۔ اگر یہ احتملات موجودنہ ہوتے توسلف سے مروی تاویلات کا ذکرنہ ہوتا۔ ہم نے اہل علم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ محکم وہ لفظ ہے جس میں صرف ایک معنی کا احتمال ہو اورمتشابہ وہ لفظ ہے۔ جس میں ایک سے زائدمعانی کا احتمال ہوتویہ ان وجوہ میں سے ایک ہے جوان الفاظ میں بطور احتمال موجود ہیں۔ اس لیئے کہ اس قسم کے محکم کو اس کی دلالت کی مضبوطی اور اس کے معنی کے وضوح اور ظہور کی بناپرمحکم کہاجاتا ہے جبکہ متشابہ کو اس بناپرمتشابہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک لحاظ سے محکم کے مشابہ ہوتا ہے۔ اور اس محکم کے معنی کا احتمال ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے لحاظ سے وہ ایسی چیز کے مشابہ ہوتا ہے جس کا معانی محکم کے معنی کے خلاف ہوتا ہے۔ اس بناپر اس کا نام متشابہ رکھاگیا ہے۔ جب محکم اور متشابہ پر ان تمام معانی کا پے درپے ورددہوتا ہے جن کا ہم نے ابھی ذکرکیا ہے تو اب ہمیں قول باری (منہ ایات محکمات ھن ام الکتاب واخرمتشابھات فاماالذین فی قلوبھم زیع فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ۔ اس کتاب میں دوطرح کی آیات ہیں۔ ایک محکمات جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں) کے معنی ومرادجاننے کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ اگرچہ ہمیں اس آیت کے مضمون اور مفہوم میں موجودبات کا علم ہے اور وہ یہ کہ متشابہ کو محکم کی طرف لوٹا نا اور اس سے محکم کے معنی پر محمول کرنا واجب ہے۔ نہ کہ اس کے مخالف معنی پر محمول کرنا۔ اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے محکم آیات کی صفت یہ بیان کی کہ (ھن ام الکتاب) اور، ام، وہ ہے جس سے ایک چیز کی ابتداہو اور وہ چیز اسی کی طرف لوٹ کرآئے۔ اس لیئے اس کا نام، ام، رکھا گیا، اس لیے اس لفظ کا اقتضابہ یہ ہوگیا کہ متشابہ کی بنیادمحکم پر رکھی جائے اور اسے محکم کیطرف ہی لوٹایاجائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مفہوم کی تاکید اپنے اس قول سے کردی کہ (فاماالذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ) اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے متعلق یہ حکم لگادیاجومتشابہ کو محکم پر محمول کیئے بغیر اس کے پیچھے پڑجاتا ہے کہ اس کے دل میں کجی اور ٹیڑھ ہے یہ بتادیا کہ ایساشخص قتنے کا متلاشی ہوتا ہے جس سے یہاں کفر اور گمراہی مراد ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے۔ (والفتنۃ اشدمن اقتل، اور فتنہ یعنی کفرقتل سے بھی بڑھ کر جرم ہے) یعنی فتنہ سے مرادکف رہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ نے یہ خبردی ہے کہ متشابہ کے درپے ہونے والا اور اسے محکم کے مخالف معنی پر محمول کرنے والا دراصل اپنے دل میں زیغ لیئے ہوئے ہے۔ یعنی راہ حق سے ہٹ کر دوسروں کو متشابہ کے واسطے سے کفروضلال کی طرف دعوت دینے والا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں مذکورمتشابہ سے مراد وہ لفظ ہے جو کئی معانی کا احتمال رکھتا ہو اورج سے محکم کی طرف لوٹا نا اور اس کے معنی پر محمول کرنا واجب ہو۔ پھر ہم نے ان معانی پر غور کیا جو متشابہ پر آگے پیچھے واردہوتے ہیں اور جن کا ہم نے متشابہ کی اقسام بیان کرتے وقت ان حضرات کے اقوال کی صورت میں ذکر کیا ہے۔ جوان معانی کے قائلین ہیں جن اگرچہ اختلاف ہے لیکن الفاظ میں ان سب کا احتمالموجود ہے۔ اس غور و فکر سے ہم جس نتیجے پر پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ جو اہل علم محکم اور متشابہ کے ناسخ اور منسوخ ہونے کے قائل ہیں ان کا قول اس حدتک درست ہے کہ اگر ان دونوں کے نزول کی تاریخیں معلوم ہوں قوان کی تاریخوں کا علم رکھنے والے کے لیئے کوئی اشتباہ نہیں ہوگا اور اسے یقینی طورپر یہ معلوم ہوجائے گا کہ منسوخ کا حکم متردک اور ناسخ کا حکم ثابت اور قائم ہے۔ اس طرح ان کی تاریخوں کا علم رکھنے والے سامع پر ان کے حکموں کے متعلق کوئی اشتباہ نہیں ہوگا۔ جن میں نسخ کے علاوہ اور کسی چیز کا احتمال نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر ان کی تاریخوں کا علم نہ ہونے کی بناپرسامع کے لیئے اشتباہ پیدا ہوجائے۔ جس کے نتیجے میں ایک لفظ کا دوسرے کی بہ نسبت محکم یامتشابہ ہونا اس وجہ سے اولی قرارنہ دیاجاسکے کہ دونوں لفظوں میں سے ہر ایک کے اندرناسخ اور منسوخ بننے کا احتمال ہے تو اس صورت میں درج بالاقول کو اس قول باری (فیہ ایات محکمات ھن ام الکتاب واخرامتشابھات) کی تفسیر و تاویل میں کوئی دخل نہیں ہوگا بلکہ یہ قول بےمعنی ہوجائے گا۔ جواہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ محکم وہ ہے جس کے لفظ میں تکرارنہ ہو اورمتشابہ وہ ہے جس کے لفظ میں تکرارہوتو اس قول کا بھی زیربحث آیت کی تفسیر و تاویل میں کوئی دخل نہیں ہے اس لیئے کہ تکرار کی صورت میں اسے محکم کی طرف لوٹا نے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ اس پر غفلی طورپرغوروفکر کی ضرورت ہوگی اور یہ کہ لغوی طورپر اسے اس معنی پر محمول کرنے کا کہاں تک جواز ہوسکتا ہے۔ اس طرح یہ قول بھی زیربحث آیت کی تفسیر و تاویل کے حکم سے خارج ہے کہ محکم وہ ہے جس کے وقت اور اس کی تعیین کا علم ہو اورمتشابہ وہ ہے جس کی تاویل کی تعیین کا علم نہ ہومثلا قیامت کا معاملہ یاصغیرہ گناہوں کی بات جن کے متعلق ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاف جواب ہے کہ اس دنیامیں ہمیں ان کا علم نہیں ہوسکتا۔ اس طرح یہ قول بھی اس آیت کی تفسیر و تاویل کے حکم سے خارج ہے۔ اس لیئے کہ ہم اس صورت میں بھی متشابہ کو محکم کی طرف لوٹاکر اس کے معنی کا علم حاصل نہیں کرسکتے۔ اس لیئے محکم اور متشابہ کی اقسام کے سلسلے میں ایک کی بنیاددوسرے پر رکھنے اور اس کے معنی پر محمول کرنے کے وجوب کے متعلق ہمارے بیان کردہ وجوہ میں سے صرف آخری وجہ باقی رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ متشابہ وہ لفظ ہے جس میں کئی معانی کا احتمال ہو اس لیئے اسے محکم پر محمول کرنا واجب ہے جس میں ایسا احتمال نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے لفظ میں کوئی اشتراک ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی نظائرہم نے اس کتاب کی ابتدا میں بیان کردیئے ہیں اور یہ واضح کردیا ہے کہ اس کی آگے دوقسمیں ہیں عقلیات اور سمعیات۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم نے محکم اور متشابہ کے سلسلے میں سلف سے جو اقوال نقل کیئے ہیں الفاظ میں ان کا احتمال ممتنع ہے۔ ہم نے الفاظ میں ان معانی کے احتمال کی وجوہات بیان کردی ہیں۔ نیز متشابہ کو محکم پر محمول کرنے کے وجوب کی آخری وجہ جو بیان کی گئی ہے۔ اس کے درست ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ کیونکہ متشابہ کو محکم پر محمول کرنے کے باقی ماندہ تمام وجوہ ہمارے بیان کی روشنی میں ممکن نہیں رہے بلکہ ان کا امکان ممتنع ہوچکا ہے۔ پھر قول باری (ومایعلم تاویلہ الا اللہ حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا) کے معنی یہ ہیں کہ تمام متشابہات کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں یعنی کوئی بھی اس کے سواتمام متشابہات کے علم کا احاطہ کرسکتا ہے۔ لیکن اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوئی کہ ہمیں بعض آیات متشابہات کے معانی کا اس بناپرعلم ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان معانی پر دلالت قائم کردی گئی ہے۔ جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے (ولایحیطون بشیء من علمہ الاب ماشاء اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیزان کو گرفت اور اک میں نہیں آسکتی الایہ کہ کسی چیز کا علم وہ خودہی ان کو دینا چاہے) اس لیئے کہ آیت زیربحث کے مفہوم میں یہ دلالت موجود ہے کہ ہم بعض آیات متشابہات کے معانی کا علم انہیں محکمات کی طرف لوٹاکر اور ان پر محمول کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ بات محال ہے متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانے کے وجوب پر آیت کی دلالت ہورہی ہو۔ نیز یہ کہ ہم متشابہ کے علم اور اس کی معرفت تک پہنچ نہیں سکتے اس لیئے مناسب ہے کہ قول یاری (ومایعلم تاویلا الا اللہ) کو بعض متشابہات کے متعلق وقوع علم کی نفی کرنے والا قرارنہ دیاجائے۔ جن متشابہات کے متعلق ہمارے علم کی رسائی کا کوئی جو از نہیں ان میں سے ایک قیامت آنے کا وقت ہے اور دوسراصغیرہ گناہوں کا معاملہ ہے۔ بعض اہل علم اس بات کے جو از کے قائل ہیں کہ شریعت میں ایک ایسامجمل لفظ واردہوجائے جو تفصیل وبیان کا متقاضی ہومیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بالکل ہی بیان نہ کیا جائے، اس صورت میں یہ مجمل لفظ اس متشابہ کے حکم میں ہوگا جس کے حقیقی معنی تک ہمارے علم کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ راسخون فی العلم کی تفسیر میں اختلاف رائے۔ اہل علم کا، قول باری (ومایعلم تاویلہ الا اللہ والراسخون فی العلم) کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کے نزدیک فقرہ (الرسخون فی اعلم) پر مکمل ہوتا ہے۔ اور اس میں واقعہ حرف واؤجمع کے لیئے ہے مثلا آپ کہیں کہ لقیت زیدا وعمرا۔ (میں نے زید اور عمرکودیکھا) یا اس قسم کے دوسرے فقرات۔ بعض کے نزدیک فقرہ (ومایعلم تاویلہ الا اللہ) پر ختم ہوجاتا ہے اور بعد میں آنے والا حرف واؤاگلے خطاب کی ابتدا کے لیئے ہے اور اس کا ماقبل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلے قول کے قائلین کے نزدیک راسخین فی العلم بعض متشابہات کا علم رکھتے ہیں تمام کا نہیں۔ حضرت عائشہ اور حسن بصری سے اس قسم کی روایت ہے۔ ابن ابی تجیح کی روایت کے مطابق قول باری (واماالذین فی قلوبھم زیغ) کی تفسیر میں مجاہدنے کہا ہے کہ زیغ سے مراد شک ہے۔ (وابتغاء الفتنۃ) یعنی شبہات کی تلاش میں جن کا تعلق ان کی ہلاکت سے ہے۔ لیکن علم میں رسوخ اور گہرائی کر رکھنے والے اس کے معنی سے واقف ہیں اور اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جملے کے الفاظ کی ترتیب اس طرح ہے۔ ، ویقول الراسخون العلم، حضرت عمربن عبدالعزیز سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ آیت کا مفہوم کچھ اس طرح ہے۔ ومایعلم تاویلہ الا اللہ ولراسخون فی العلم یعلمونہ قائلین آمنابہ، (متشابہ کی تاویل یعنی حقیقی معنی کا علم صرف اللہ کو ہے اور علم میں رسوخ اور گہرائی رکھنے والے بھی فی الجملہ اس کا علم رکھتے ہیں اور اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے) ربیع بن انس سے بھی یہی تضیر منقول ہے۔ لفظ جس احتمال کا متقاضی ہے اس کی بناپر عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہونی چاہیئے کہ تمام متشابہات کے معانی کا علم تو صرف اللہ کو ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ تاہم علم میں رسوخ رکھنے والے بعض متشابہات کا علم رکھتے ہیں۔ اور اپنی زبان سے یہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ یعنی ایسے متشابہات جن کے معانی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلالت قائم کردی گئی ہے۔ کہ ان کی بنیادمحکمات پر رکھ کر انہیں ان کی طرف لوٹاؤ۔ اور وہ متشابہات بھی جن کے معانی تک ہمارے علم کی رسائی کا کوئی وسیلہ نہیں بنایا گیا۔ مثلا وہ باتیں جن کی ہم پچھلے سطور میں اشارے کر آئے ہیں جب راسخین فی العلم کو بعض متشابہ کا علم ہوجاتا ہے اور بعض کا نہیں ہوتا تو وہ کہتے ہیں ہم سب پر ایمان لاتے ہیں یہ تمام کے تمام ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کا علم اس وجہ سے نہیں دیا اور ہم سے انہیں مخفی رکھا کہ اسے معلوم تھا کہ اس میں ہماری بھلائی اور ہمارے دین اور دنیا کی بھلائی مضم رہے۔ دوسری طرف جن متشابہات کا اس نے ہمیں علم دے دیاوہ بھی اس بناپردیا کہ اسے معلوم تھا کہ اس میں ہماری مصلحت پوشیدہ ہے۔ اس طرح راسخین فی العلم تمام کی تمام آیات متشابہات کی صحت کا اعتراف کرتے اور سب کی تعریف کرتے ہیں۔ خواہ ان میں سے بعض کا انہیں علم ہوگیا ہو یا بعض کانہ ہواہو۔ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ صرف ایک ہی صورت درست ہے وہ یہ کہ کلاس کی انتہار قول باری (ومایعلم تاویللہ الا اللہ) پر ہوجائے، اور واؤکواستقبال کے معنی میں لیا جائے جمع کے معنی میں نہ لیاجائے، اس لیئے کہ اگر واؤجمع کے لیئے ہوتا تو کلام باری یوں ہوتا، ویقولون امنابہ، واؤکا ازسرنوذکرخیر نے اسرنوذکر کی بناپرہوتا۔ جو لوگ پہلے قول کے قائل ہیں یعنی فقرے کی انتہاء (والراسخون فی العلم) پر کرتے اور واؤکوجمع کے معنی میں لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ لغت میں ایسا استعمال جائز ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔ تقسیم فی (زکواۃ کے سوابیت المال کی آمدنی کے دیگر ذرائع مثلا مال غنیمت خراج اور جزیہ وغیرہ) کے سلسلے میں قول میں باری ہے (ماافاء اللہ علی رسولہ من اھل القوی فلللہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمساکین وابن السبیل جو کچھ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطورفی ولوادے، سو وہ اللہ ہی کا حق ہے۔ اور رسول کا اور رسول کے عزیزوں کا اور تیمیوں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا) تاقول باری (ان اللہ شدیدالعقاب، بیشک اللہ سزادینے میں بڑاسخت ہے) پھر اس کے بعد تفصیل آئی اور ان لوگوں کا نام لیا گیا جو اس فئی کے مستحق تھے فرمایا (للفقرآء المھاجرین الذین اخرجوامن دیارھم واموالھم یبتغون فضلامن اللہ ورضوانا۔ ان حاجت مندمہاجروں کا خاص طورپریہ حق ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے جدا کردیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کے طلب گار ہیں) تاقول باری (والذین جاؤ امن یعدھم، اور ان لوگوں کا بھی حق ہے جوان کے بعدائے) یہ لوگ بھی لامحالہ پہلوں کی طرح فئی کے استحقاق میں داخل ہیں اور اس میں مذکورہ حرف واؤجمع کے معنی دیتا ہے۔ پھر ارشاد ہو (یقولون ربنا اغفرلنا والاخواننا الذین سبقونا بالایمان، اور وہ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم کو بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو بھی جو ایمان لانے میں ہم سے سبقت کرگئے ہیں) معنی کے لحاظ سے یہ فقرہ یوں ہوگا، قائلین ربنااغفرلنا۔۔۔۔ (یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے پروردگار !۔۔۔۔ ) ٹھیک اسی طرح قول باری (والرسخون فی العلم یقولون) بھی ہے اور فقرے کے معنی یہ ہوں گے، علم میں رسوخ رکھنے والے ایسی آیات متشابہات کی تفسیر و تاویل کا علم رکھتے ہیں جن کے معانی تک رسائی کے لیئے دلالت قائم کردی گئی ہے، ساتھ ساتھ وہ بھی کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ان سب پر ایمان لے آئے، اس بناپران کا ماقبل پر عطف ہوگا اور وہ ماقبل کے حکم میں شامل اور داخل ہوں گے۔ عربی شعر میں بھی اس کی مثال موجود ہے یزیدبن مفرغ حمیرکاشع رہے ؎ وشریت بردالیتنی من بعد بردکنت ھامہ فافریح تبکی شجوہ والبرق یلمع فی الغمامہ میں نے ایک دھاری دارچادرخریدی کاش ! کہ سردی گذرجانے کے بعد میں اس کے استعمال کا ارادہ کرسکتا، سردی گذرگئی اور اب موسم بہار کی ہوا اس کی یاد میں غم کے آنسوبہاتی ہے اور بجلی بادلوں میں چمکتی ہے۔ (موسم سرماکے بعد بہار کی آمد آمد ہے) معنی یہ ہیں کہ بادل میں چمک کر اپنے غم کے آنسوبہارہی ہے۔ جب لغت میں اس استعمال کی گنجائش ہے توپھریہ ضروری ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانے کے سلسلے میں آیت کی دلالت کی موافقت میں اسے محمول کیا جائے اور اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ راسخین فی العلم متشابہ کو محکم کی طرف لوٹاکر اور اس کے معنی پر محکم کے ذریعے استدلال کرکے اس کی تاویل وتفسیر کا علم حاصل کرلیتے ہیں، ایک اور جہت سے دیکھاجائے تو واؤ کے حقیقی معنی جمع کے ہیں اس لیئے اسے اسی معنی پر محمول کرنا واجب ہے۔ یہی اس کا متقضی ہے۔ ابتداء کے معنی پر کسی دلالت کے بغیریہ محمول نہیں ہوسکتا اور ہمارے پاس کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے جوا سے اس کے حقیقی معنی سے پھیردینا ضروری قراردے۔ اس لیئے اسے جمع کے معنی میں استعمال کرنا واجب ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ جب محکم کے استعمال کو عقلی طورپرسمجھ میں آنے دالے معنی کے ساتھ مقید کردیاگیا جس کی بناپریہ گنجائش پیدا ہوگئی کہ ہر باطل پرست عقل کے استعمال کا دعویداربن سکتا ہے تو ایسی صورت میں محکم سے استدلال کا فائدہ باطل ہوجائے گا۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ محکم کا استعمال اس معنی کے ساتھ مقید ہے۔ جو اہل عقول کے درمیان متعارف ہو۔ اس صورت میں لفظ اس معنی کے مطابق ہوگا ۔ جس سے اہل لغت کے عقلاء متعارف ہوں اور اس میں عقل سے کام لینے میں مقدمات وقضایا کی ضرورت نہ پڑے بلکہ سننے والے کو اس کے معنی مراد کا علم اس طریقے پر ہوجائے جو عقلا کے عقول میں ثابت اور درست ہے نہ کہ اس طریقے پر جو لوگوں کی فاسدعادتوں میں پایاجاتا ہے جن پر یہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ جب یہ باتیں پائی جائیں گے توپھریہ محکم ہوگا جس کے معنی میں اس کے لفظ کے ساتھ مقتضی اور حقیقت کے سوا اور کسی بات کا احتمال نہیں ہوگا۔ رہ گئیں فاسدعادتیں تومحکم کے معنی کے سلسلے میں ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگریہ کہاجائے کہ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ محکمات کو چھوڑکرمتشابہات کی کس طرح پیروی کرتے ہیں کیا اس کی کوئی مثال موجود ہے تو جواب میں کہاجائے گا اس کی مثال ربیع بن انس کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ اس آیت کا نزول وفدنجران کے متعلق تھا۔ جب عیسائیوں کا یہ وفد مدینے آکرحضور ﷺ کے بارے میں بحث ومباحثہ کرنے لگاتو دوران بحث انہوں نے پوچھا کہ آیاعلیہ السلام اللہ کے کلمہ اور اس کی روح نہیں ہیں ؟ حضور ﷺ نے جواب میں فرمایا کیوں نہیں ؟ اس پر انہوں نے کہا بس ہمارے لیئے اتناہی کافی ہے۔ (یعنی آپ ہماری بات مان گئے۔ ) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ) پھریہ آیت نازل ہوئی) ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون۔ اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال کی طرح ہے۔ اللہ نے اسے مٹی سے پیداکیا پھر اس سے کہا ہوجاوہ ہوگیا) یہاں نجرانی عیسائیوں نے کلمہ اللہ، کے قول کو اس مفہوم کی طرف موڑدیاجوان کے عقیدے اور قول کے مطابق تھا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات (نعوذ باللہ) اللہ کی ذات کی طرح قدیم ہے اور اس کی روح ہے۔ انہوں نے اس لفظ، کلمتنہ اللہ، سے یہ مراد لیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) (نعو ذ باللہ) اللہ تعالیٰ کا جز ہیں اور کی ذات کے ساتھ ان کی ذات بھی روح انسان کی طرح قدیم ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے لفظ کلمۃ اللہ، سے یہ مراد لیا تھا کہ انبیائے متقدمین نے ان کی بشارت دی تھی۔ بشارت کی قدامت کی بناپرا نہیں کلمتنہ اللہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اللہ نے انہیں، اپنی روح، کانا اس لیئے دیا کہ انہیں مذکرکے بغیر یعنی بن باپ کے پیدا کیا تھا۔ حضرت جبریل کو حکم ملاتھاجس کے تحت انہوں نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماردی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں شرف عطا کرنے کے لیئے ان کی نسبت اپنی ذات کی طرف کردی جس طرح، بیت اللہ، سماء اللہ ، اور، ارض اللہ، میں اللہ کی طرف نسبتیں ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ، روح اللہ، اسی طرح کہا گیا ہے جس طرح قرآن کو روح کا نام دیا گیا ہے۔ چناچہ قول باری سے (وکذلک اوحینا الیک روحامن امرنا۔ اور اس طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی یعنی اپناحکم بھیجا ہے) قرآن مجید کو اس وجہ سے روح کے نام سے موسوم کیا کہ اس میں لوگوں کے دینی امور میں ان کی زندگی کا سامان مہیا کردیا گیا ہے۔ لیکن اہل زیغ اور کج روانسانوں نے اپنے فاسدمذاہب اور کفروضلال کے عقائد کے اثبات کے لیئے اسے استعمال کیا۔ قتادہ کا قول ہے کہ اہل زیغ جو متشابہات کے پیروکار ہیں ان کا تعلق خوارج کے فرقہ حروریہ اور سبائیہ (ابن سبا کے پیروکار) سے ہے۔
Top