Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس اَنْزَلَ : نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب مِنْهُ : اس سے (میں) اٰيٰتٌ : آیتیں مُّحْكَمٰتٌ : محکم (پختہ) ھُنَّ : وہ اُمُّ الْكِتٰبِ : کتاب کی اصل وَاُخَرُ : اور دوسری مُتَشٰبِهٰتٌ : متشابہ فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : جو لوگ فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل زَيْغٌ : کجی فَيَتَّبِعُوْنَ : سو وہ پیروی کرتے ہیں مَا تَشَابَهَ : متشابہات مِنْهُ : اس سے ابْتِغَآءَ : چاہنا (غرض) الْفِتْنَةِ : فساد۔ گمراہی وَابْتِغَآءَ : ڈھونڈنا تَاْوِيْلِهٖ : اس کا مطلب وَمَا : اور نہیں يَعْلَمُ : جانتا تَاْوِيْلَهٗٓ : اس کا مطلب اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ وَالرّٰسِخُوْنَ : اور مضبوط فِي الْعِلْمِ : علم میں يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِهٖ : اس پر كُلٌّ : سب مِّنْ عِنْدِ : سے۔ پاس (طرف) رَبِّنَا : ہمارا رب وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : سمجھتے اِلَّآ : مگر اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں، تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے پروردگا کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں
7 : ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ ٰایٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ۔ فََاَ مَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَاتَشَا بَہَ مِنْہُ ابْتِغَآ ئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلاَّ اللّٰہُ وَالرّٰ سِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ ٰامَنَّابِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۔ (وہی ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس کی کچھ آیات محکم ہیں اور وہ کتاب کی اصل ہیں۔ اور دوسری متشابہات ہیں پس جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ متشابہات کے پیچھے چلتے ہیں۔ فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے اور (مرضی کے موافق) اس کی تاویل ڈھونڈنے کی غرض سے۔ حالانکہ اس کی اصل مراد اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں اور جو لوگ علم میں مضبوط ہیں وہ کہتے ہیں سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور صرف صحیح عقل والے ہی اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں) الکتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ منہ من بیانیہ ہے اور ہٗ ضمیر قرآن مجید کی طرف لوٹتی ہے۔ مراد قران مجید ہی ہے۔ محکمات۔ جس کی عبارت محکم ہے کسی احتمال و اشتباہ سے محفوظ ھن ام الکتب۔ وہ کتاب کی اصل ہیں کہ متشابہات کو انکی طرف پھیرا جائے گا۔ اور ان کے مطابق مراد لیجائے گی۔ اُخَرُ یعنی دوسری آیات اس کا موصوف آیات محذوف ہے۔ متشابہات کی توضیح : مُتَشٰبِہٰتٌ، احتمال و اشتباہ والی۔ اس کی مثال سورة طہٰ کی آیت نمبر 5 الرحمٰن علی العرش استوی ہے پس استواء تو جلوس یعنی بیٹھنے کے معنی میں ہوتا ہے اور قدرت و غلبہ کے معنی بھی آتے ہیں اور پہلا معنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق محکم دلیل اور لیس کمثلہ شیٔ۔ (الشوری آیت نمبر 11) دوسرا قول : محکم وہ ہے جس کا حکم ہر منزلہ کتاب میں دیا گیا ہو۔ جیسا کہ سورة انعام کی آیت نمبر 151، قل تعالوا اتل ماحرم ربکم علیکم، الاٰیہ۔ میں فرمایا سورة الاسراء آیت نمبر 23 وقضٰی ربک الا تعبدوا الَّا اِیاہ۔ اور متشابہ وہ ہے جو اس کے علاوہ آیات ہیں۔ یا متشابہ کی ایک قسم وہ ہے جس میں ایک ہی جانب کا احتمال ہو۔ دوسری قسم یا جس میں کئی طرح کا احتمال ہو یا ایک قسم متشابہ کی وہ ہے جس کی تاویل معلوم ہوسکے یا ناسخ مراد ہے جس پر عمل ہوتا ہو اور منسوخ جس پر عمل نہ ہوتا ہو۔ تمام قرآن کی آیات محکم نہیں لائی گئیں بلکہ متشابہ بھی لائی گئیں کیونکہ اس میں ان لوگوں کیلئے ابتلاء اور امتحان ہے جو حق پرست اور متزلزل ہیں۔ متشابہات کے معانی معلوم کرنے کے لیے علماء کا باہمی ردو قدح اور طبائع کا اس میں تھکانا اور پھر محکم کی طرف اس کا لوٹا نا اس میں بہت سے عظیم الشان فوائد حاصل ہوتے ہیں اور بہت سا علم میسر آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں درجات قرب حاصل ہوتے ہیں۔ نکتہ : قرآن مجید کی تمام آیات کے محکم ہونے کا مطلب فساد معنی سے پاک ہونا ہے اور اسی طرح متشابہ ہونے کا مطلب حسن و کمال میں ایک جیسا ہونا ہے اور بعض آیات کے محکم ہونے کا مطلب ان کے معانی کا واضح ہونا ہے اور متشابہ کا مطلب ان کے معانی کا مخفی ہونا ہے۔ اہلِ بدعت کا طرز عمل : فََاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ۔ ٹیڑھ کا مطلب حق سے مائل ہونا ہے اور اس کا مصداق اہل بدعت ہیں۔ فَیَتَّبِعُوْنَ مَاتَشَا بَہَ یعنی وہ متشابہ کا وہ معنی اختیار کرتے ہیں جس میں احتمال ہے اور اہل بدعت کے طرز عمل کے ساتھ موافقت رکھتا ہے اور محکم سے مطابقت نہیں رکھتا اور نہ ہی اہل حق کے قول سے موافقت کرنے والا ہے۔ مِنْہُ ابْتِغَآ ئَ الْفِتْنَۃِ وہ متشابہات کے پیچھے اس لئے لگتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں دین کے سلسلہ میں فتنہ پیدا کریں اور ان کو گمراہ کریں۔ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وہ متشابہات کے پیچھے اس لیے پڑتے ہیں تاکہ اپنی خواہشات کے مطابق اس کی تاویل کریں۔ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلاَّ اللّٰہُ حالانکہ متشابہات کی اصل مراد و منشاء کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ وَالرّٰ سِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ اور وہ لوگ جو علم میں پختہ کار یعنی جمے ہوئے ہیں اور اس پر پورا قابو ہے ان کو اس پر شبہ ہوتا ہی نہیں بلکہ مضبوط داڑھوں سے اس کو پکڑنے والے ہیں۔ نحوی تحقیق : جمہور کے ہاں یہ جملہ مستانفہ ہے اور وقف اِلاَّ اللّٰہ پر لازم ہے اسلئے متشابہ اس کو کہتے ہیں۔ جس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ جمہور کے ہاں وَالرّٰ سِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مبتداء اور یَقُوْلُوْنَ ٰامَنَّابِہٖ یہ خبر ہے اور اس میں راسخین کے ایمان قلبی پر مدح وثناء کی گئی ہے اور کیفیت کا سوال کرنے کے بغیر اس کی حقانیت کے اعتقاد کو سراہا گیا۔ متشابہ کے نزول کا فائدہ : سوال : متشابہات کے نزول کا کیا فائدہ ہے جبکہ اس کی حقیقی مراد معلوم نہیں۔ جواب : اللہ تعالیٰ کی جو اس سے مراد ہے اس کی حقانیت پر ایمان و اعتقاد کرنے کا امتحان اور انسانوں کا ان چیزوں کے معلوم کرنے سے قاصر رہنا جو اللہ تعالیٰ نے نہیں بتلائی اور مقرر کی۔ حضرت ابی ابن کعب ؓ کی قراءت اس کی تائید کرتی ہے۔ قراءت : ویقول الراسخون اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت ان تاویلہ الاعند اللّٰہ۔ دوسرا قول : بعض وقف نہیں کرتے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ راسخین فی العلم متشابہ کو جانتے ہیں مگر یہ قول سیاق قرآن سے موافقت نہیں کرتا۔ ( بغوی) ویقولون یہ جملہ مستانفہ ہے اور راسخین سے حال ہے۔ معنی یہ ہوگا یہ تاویل کا علم رکھنے والے کہتے ہیں ہم متشابہ پر یا مکمل کتاب پر ایمان رکھتے ہیں کل من عند ربنا ہر ایک متشابہ ہو یا محکم وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو کہ حکیم ہیں وہ حکمت والا جس کے کلام میں تناقض نہیں۔ وما یذکر اور نصیحت حاصل نہیں کرتے یہ اصل میں یتذکر ہے۔ اِلاَّ اُولُوا الْاَلْبَابِمگر صرف عقلوں والے ہی اس میں راسخین کے عمدہ ذہن اور حسن تامل کی تعریف کی گئی ہے۔ بعض نے کہا کہ یقولون یہ راسخین سے حال ہے۔
Top