Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس اَنْزَلَ : نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب مِنْهُ : اس سے (میں) اٰيٰتٌ : آیتیں مُّحْكَمٰتٌ : محکم (پختہ) ھُنَّ : وہ اُمُّ الْكِتٰبِ : کتاب کی اصل وَاُخَرُ : اور دوسری مُتَشٰبِهٰتٌ : متشابہ فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : جو لوگ فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل زَيْغٌ : کجی فَيَتَّبِعُوْنَ : سو وہ پیروی کرتے ہیں مَا تَشَابَهَ : متشابہات مِنْهُ : اس سے ابْتِغَآءَ : چاہنا (غرض) الْفِتْنَةِ : فساد۔ گمراہی وَابْتِغَآءَ : ڈھونڈنا تَاْوِيْلِهٖ : اس کا مطلب وَمَا : اور نہیں يَعْلَمُ : جانتا تَاْوِيْلَهٗٓ : اس کا مطلب اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ وَالرّٰسِخُوْنَ : اور مضبوط فِي الْعِلْمِ : علم میں يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِهٖ : اس پر كُلٌّ : سب مِّنْ عِنْدِ : سے۔ پاس (طرف) رَبِّنَا : ہمارا رب وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : سمجھتے اِلَّآ : مگر اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں، تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے پروردگا کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں
تقسیم آیات بسوئے محکمات ومتشابہات مع تقسیم سامعین بسوئے زائغین فہم وراسخین علم۔ قال اللہ تعالی، ھوالذی انزل علیک الکتاب۔۔۔ الی۔۔۔ المیعاد۔ جب دلائل واضحہ سے توحید کا اثبات اور تثلیث اور ابنیت کا رد اور ابطال ہوگیا تو نصاری نے عاجز ہو کر بطور معارضہ یہ کہا کہ آپ بھی حضرت مسیح کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ مانتے ہیں پس یہی الفاظ ہمارے مدعا کے اثبات کے لیے کافی ہیں۔ حق جل شانہ نے ان آیات میں ان کے اس شبہ کا جواب ایک عام ضابطہ اور قاعدہ کے شکل میں دیا جس کے سمجھ لینے کے بعد صدہا اور ہزارہا شبہات اور اشکالات اور نزاعات اور مناقشات کا خاتمہ ہوجاتا ہے وہ یہ کہ قرآن کریم بلکہ تمام کتب الٰہیہ میں آیات خداوندی کید وقسمیں ہیں ایک محکمات کہ جن کی مراد واضح اور متعین ہو اور بدنیت ان کے مفہوم اور معانی میں الٹ پھیر کر کے اور ان آیات کے ظاہری الفاظ کو اپنی غرض پر نہ ڈھال سکتا ہو یہ آیتیں ام الکتاب اور اصل کتاب کہلاتی ہیں جو کتاب الٰہی اور شریعت اور تمام تعلیمات کی جڑ ہوتی ہیں انہی پر دین اور شریعت کا دارومدار ہوتا ہے جیسے آیات توحید وتنزیہ وغیرہ۔ دوسری قسم کی آیات وہ ہیں جن میں ایک گونہ خفا اور ابہام ہوتا ہے اور مراد پوری واضح اور متعین نہیں ہوتی دوسرے معنی کا بھی ان میں احتمال ہوتا ہے ان آیات کا حکم یہ ہے کہ ان کو پہلی قسم کی طرف راجع کرکے دیکھنا چاہیے جو معنی محکمات کے مطابق ہوں ان کو لیاجائے اور جو معنی آیات محکمات کے خلاف ہوں ان کو نہ لیا جائے۔ بعض آیات کو اللہ جل شانہ نے قصدا مجمل اور متشابہ نازل فرمایا تاکہ بندوں کا امتحان کریں کہ کون، صریح اور واضح المراد یعنی آیات محکمات کا اتباع کرتا ہے اور کون کج رو اور ان مجملات اور متشابہات کو اپنی غرض پر ڈھالتا ہے اور محکمات اور آیات واضحات سے پہلوتہی کرتا ہے اور ایک حکمت آیات متشابہات کے نازل کرنے میں یہ ہے کہ جب باوجود جدوجہد کے متکلم کی مراد متعین نہ کرسکیں تو اپنے قصور علم کا اقرار کریں اور بزبان حال جو ہمہ دانی کے دعوے دار بنے ہوئے تھے اس سے توبہ کریں اور جس طرح قصورعلم اور قصور فہم کی وجہ سے اور دیگر بیشمار حقائق پر دسترس نہیں اسی طرح آیات متشابہات کو بھی ان کی فہرست میں شامل کرلیں مگر ایسی تاویلات سے پرہیزکریں کہ جو آیات بینات اور محکمات اور اسلام کے اصول مسلمہ کے خلاف ہوں پس جن آیات اور عبارات سے نصارائے نجران نے استدلال کیا ہے مثلا روح اللہ اور کلمۃ اللہ کے الفاظ سے وہ سب کے سب اقسام متشابہات سے ہیں اور جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کا بندہ اور بشر ہوناصاف اور واضح طور پر بیان کردیا وہ آیات محکمات ہیں مثلا قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق تصریح کردی، ان ھو الاعبد انعمنا علیہ۔ یا مثلا ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل آدم خلقہ من تراب۔ یا مثلا فرمایا ذالک عیسیٰ ابن مریم قول الحق الذی فیہ یمترون۔ یامثلا جن بیشمار آیات میں اللہ نے یہ امر واضح طور پر بیان فرمایا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ اس کے کوئی بیٹا ہے ماکان للہ ان یتخذ من والد، لم یلد ولم یولد۔ لیس کمثلہ شئی۔ پس آیات محکمات میں صاف طور پر غیر اللہ کی الوہیت اور ابنیت کا رد کیا گیا ہے ان سے تو آنکھیں بند کرلینا اور کلمتہ القاھا الی مریم وروح منہ۔ جیسی آیات متشابہات کو لے دوڑا اور ان کی ایسی تاویل کرنا جو صریح بینات اور آیات محکمات کے منافی ہوں یہ کج روی اور گمراہ لوگوں کا طریق ہے جو لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے اور سیدھے راستے سے ہٹانے کے لیے ایسا کیا کرتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں کہ عزیز و حکیم وہی ذات ہے کہ جس نے اپنی حکمت بالغہ سے آپ پر ایک جامع اور کامل کتاب اتاری جس کی کچھ آیتیں محکم ہیں یعنی ظاہر المراد اور واضح المعنی ہیں جن کے معنی اور مفہوم میں کسی قسم کا اشتباء اور التباس نہیں جو شخص ان کو سنے اور زبان سے اور اصطلاحات شریعت سے واقف ہو اس پر ان کا مفہوم مشتبہ نہیں رہتا یہی آیتیں کتاب الٰہی کی اصل اور جڑ ہیں انہی پر ساری تعلیم کا دارومدار ہے اور یہی آیتیں قرآن کا مغز ہیں۔ اور کچھ آیتیں اس کی متشابہ ہیں جن کی مراد میں کچھ خفا اور اشتباہ ہے سامع کو باوجود زبان دان ہونے کے اور باوجود غوروتامل کے اور باوجود اصول شریعت سے واقف ہونے کے ان کی پوری پوری مراد واضح نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ عزیز اور حکیم ہے بندوں کو جتنا بتلانا چاہتے ہیں اتنی مقدار واضح فرمادیتے ہیں اور جس قدر نہیں بتلانا چاہتے اتنی مقدار اس میں خفا اور ابہام رکھدیتے ہیں اور اس عزیز حکیم کا حکم یہ ہے کہ جس چیز کو ہم نے ظاہر اور واضح کردیا اس کا اتباع کرو اور کتاب الٰہی کی جو چیز تم پر مخفی اور مشتبہ رہے اس پر بےچون وچرا ایمان لاؤ اور اس قسم کی آیات کی تفسیر میں اس کا پورا پورا لحاظ رکھو کہ ان آیات کے کوئی معنی ایسے ہرگز ہرگز نہ بیان کیے جائیں جو آیات محکمات اور شریعت کے اصول مسلمہ کے خلاف ہوں متشابہات کو محکمات کی طرف راجع کرو۔ امام ابومنصور ماتریدی فرماتے ہیں کہ آیت محکم کی مراد عقل سے معلوم ہوتی ہے اور آیت متشابہ میں بدون نقل اور روایت کی مدد کے دخل دینا ممکن نہیں۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے طبعی طور پر کسی کفر اور بدعت کی طرف مائل ہیں نام کے مسلمان ہیں دل میں اپنے خیالات اور مزعومات چھپائے ہوئے ہیں سو یہ لوگ کتاب الٰہی میں سے صرف آیات متشابہات کی پیروی کرتے ہیں تاکہ حق اور باطل کو مشتبہ بناسکیں اتباع متشابہات سے کبھی تو ان لوگوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو الحاد اور بدعت کے فتنہ میں مبتلا کریں اور لوگوں کے دلوں میں دین کی طرف سے شکوک اور شبہات ڈالیں اور اس طرح مغالطہ دے کر لوگوں کو گمراہی میں پھنسائیں اور کبھی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان آیات متشابہات کی کوئی ایسی تاویل تلاش کی جائے جو ان کی خواہش اور غرض کے مطابق ہو اور کھینچ تان کرکے آیت کا ایسا مطلب بیان کیا جائے جو ان کی رائے اور ہوائے نفسانی کے موافق ہو اور کھینچ تان کر کے آیت کا ایسا مطلب بیان کیا جائے جو ان کی رائے اور ہوائے نفسانی کے موافق ہو ی سے لوگ اپنی مطلب برآری کے لیے آیات محکمات اور احادیث واضحات کی طرف نظر نہیں کرتے اور ہوائے نفسانی کی وجہ سے آیات متشابہات کا پیچھا کرتے ہیں تاکہ ان کے خفاء اور ابہام کی وجہ سے ان میں کھینچ تان کر اپنا مطلب نکال سکیں اور عوام کو دھوکہ دے سکیں حالانکہ ان متشابہات کی صحیح حقیقت اور یقینی مراد سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں اس نے اپنے لطف وکرم سے جس قدر حصہ پر آگاہ کرنا چاہا کردیا اور جتنا حصہ اپنی حکمت سے مخفی رکھنا چاہا وہ مخفی اور مشتبہ رکھا اور جو لوگ علم میں پختہ اور ثابت قدم ہیں جب وہ آیات متشابہات کو دیکھتے ہیں کہ ان میں متعدد معانی کا احتمال ہے تو اپنی نفسانی خواہش اور طبعی میلان کا ذرہ برابر بھی لحاظ نہیں کرتے بلکہ متشابہات کو محکمات کے ساتھ ملاکر معنی بیان کرتے ہیں جتنا سمجھ میں آگیا اس کو سمجھ گے اور جو نہ سمجھ میں آیا اس کو اللہ پر چھوڑ دیا اور اللہ علم ہی بہتر جاننے والا ہے ہم کو تو ایمان سے مطلب ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہم ان متشابہات پر اللہ کی مراد کے مطابق ایمان لائے سب کچھ یعنی محکم اور متشابہ اور ناسخ اور منسوخ جس کی مراد ہم کو معلوم ہے اور جس کی مراد ہم کو معلوم نہیں یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے محکم اور متشابہ سب سے ہماری تربیت مقصود ہے محکمات کو اس لیے نازل فرمایا کہ اس کے مطابق اعتقاد رکھیں اور عمل کریں اور متشابہات کو اس لیے اتارا اپنی قصور استعداد اور قصور علم کا اعتراف کریں اور ایسے موقع پر آیات اور محکمات کا اتباع کریں نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کریں اور نہیں نصیحت قبول کرتے مگر وہی لوگ جن کی عقل سلیم اور خالص ہے نفسانی خواہشوں کے زنگ سے پاک اور صاف ہے جس بات کا مطلب ان کی سمجھ میں نہیں آتا اسکومتکلم علیم و حکیم کے حوالہ کرتے ہیں اور لاادری اور لااعلم کہہ کر نصف علم حاصل کرلیتے ہیں اور باوجود اس کے وہ خائف رہتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ مبادا کسی پوشیدہ نفسانی خواہش کے فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائیں اس لیے یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار بعد اس کے کہ تو نے کتاب نازل فرما کر ہم کو ہدایت دی اور اس کتاب کے محکم اور متشابہ پر ایمان لانے کی توفیق عطا کی اب اس لطف و عنایت اور اس توفیق اور ہدایت کے بعد ہمارے دلوں کو حق اور ہدایت سے کج اور منحرف مت فرما ہمیں اپنے دلوں پر اطمینان نہیں دلوں کا ہدایت پانا اور حق کو قبول کرنا سب آپ کی توفیق سے ہے اور دے ڈال ہم کو اپنے پاس سے ہم کو خاص الخاص رحمت اور مہربانی یعنی توفیق اور فہم صحیح بیشک تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے اور دے ڈالنے والا ہے جس طرح ظاہری نعمتیں تیری بارگاہ سے ملتی ہیں اسی طرح علم صحیح اور فہم صحیح اور تاویل صحیح کی نعمت بھی تیری ہی بارگاہ سے ملتی ہے اور یہ سب تیری رحمت اور مہربانی ہے تجھ پر کوئی شے واجب نہیں اور اے پروردگار چند علوم اور معارف اور متفرق تاویلات کا کسی کے سینہ میں جمع کردینا تیرے لیے کوئی دشوار نہیں اس لیے کہ تحقیق تو تمام لوگوں کو اکناف عام سے اس دن کے لیے جمع کرنے والا ہے جس میں کسی قسم کا کوئی شک اور شبہ ہی نہیں پس اگر آپ اپنی رحمت سے ہم نابکاروں کے سینہ میں صحیح علوم اور صحیح تاویلات کو جمع فرمادیں تو بعید از رحمت نہیں ہم اگر اس کے اہل اور لائق نہیں مگر آپ کا اہل انابت اور اہل مجاہدہ سے یہ وعدہ ہے کہ جو ہماری طرف رجوع کرتا ہے اس کو اپنی خاص ہدایت اور توفیق سے سرفراز کرتے ہیں کماقال تعالی، والذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلنا، ویھدی الیہ من ینیب۔ تحقیق اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں یا یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو نے وعدہ فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سب کو جمع کرکے نزاعی مسائل کادوٹوک فیصلہ فرمائے گا جس میں زائغین اور راسخین فی العلم کے اختلاف کا فیصلہ بھی داخل ہے اس لیے ہمیں ڈر ہے کہ ہم زائغین اور مجرمین کا راستہ نہ اختیار کرلیں کیونکہ ہمیں اپنے دلوں پر اطمینان نہیں اس لیے آپ ہی سے استقامت اور کجی سے محفوظ رہنے کی درخواست کرتے ہیں باوجود راسخین فی العلم ہونے کے اپنے علم پر مغرور نہ ہونا یہ بھی ان کے راسخ فی العلم ہونے کی ایک علامت ہے۔ لطائف ومعارف۔ 1۔ محکم اور متشابہ کی تفسیر میں سلف سے مختلف تعبرات منقول ہیں سب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ محکمات وہ آیتیں ہیں کہ جن کے معنی ظاہر ہوں اور ان کی مراد معلوم اور متعین ہو خواہ نفس لغت کے اعتبار سے ان کے معنی ظاہر ہوں یا شریعت کے بیان کردینے سے ان کی مراد متعین ہو یعنی ان کی مراد یا تو اس لیے متعین ہے کہ لغت اور ترکیب اور سیاق اور سباق کے اعتبار سے نظم قرآنی میں کوئی ابہام اور اجمال نہیں اور یا شریعت کے اعتبار سے اس کی مراد متعین ہے مثلا لفظ صلوۃ اور لفظ زکوٰۃ اگرچہ لغت کے اعتبار سے دعا اور پاکیزگی کے معنی میں ہیں جس کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں لیکن شریعت کے بیان اور نصوص قطعیہ اور اسلام کے اصول مسلمہ اور اجماع امت سے یہ قطعا متعین ہوچکا ہے کہ صلوۃ اور زکوٰۃ سے متکلم کی مراد مخصوص طریقہ پر بدنی اور مالی عبادت بجالانا ہے شریعت کے بیان سے ان آیات کی مراد اس قدرصاف اور واضح ہے کہ کوئی بدنیت سے بدنیت بھی ان کے مفہوم اور معنی میں الٹ پھیر نہیں کرسکتا ایسی آیات کو محکمات کہتے ہیں۔ اور متشابہات ان آیات کو کہتے ہیں کہ جن کی مراد اور معنی کے معلوم اور متعین کرنے میں کسی قسم کا اشتباہ اور التباس واقع ہوجائے اور چونکہ اشتباہ اور تشابہ کی ایک امر اضافی ہے جس کے درجات اور مراتب ہیں اس لیے متشابہ کی دو قسمیں ہیں ایک متشابہ تو وہ ہے جس کی مراد معلوم ہونے کی نہ تو امید ہی باقی رہی اور نہ اس کی مراد معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ اور امکان ہو جیسے مقطعات قرآنیہ الم، المر، طسم وغیرہ وغیرہ نہ لغت سے ان کے معنی معلوم ہوسکتے ہیں اور نہ شریعت نے ان کے معنی بیان کیے ہیں اور دوسری قسم متشابہ کی یہ ہے کہ آیت میں اجمال اور ابہام یا اشتراک لفظی کی وجہ سے اس کی مراد میں اشتباہ پیش آگیا ہومتشابہ کے یہ اصطلاحی معنی مجمل اور موول کو بھی شالمل ہیں پس اگر آیت میں متشابہات سے پہلے معنی مراد لیے جائیں تو اس معنی کو متشابہ کی مراد سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں اور اگر متشابہات کے دوسرے معنی مراد لیے جائیں تو اس معنی کر متشابہات کے معنی اور تاویل راسخین فی العلم کو بھی بقدر اپنے علم اور فہم کے معلوم ہوجاتے ہیں اگرچہ اصل کنہ اور حقیقت اور پوری کیفیت اللہ ہی کو معلوم ہوتی ہے لیکن راسخین فی العلم جب محکمات کی طرف رجوع کرتے ہیں اور خداداد علم اور فہم سے ان میں غوروفکر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جتنی تاویل اور معنی ان پر واضح کرنا چاہتے ہیں اتنی تاویل اور معنی ان پر واضح فرمادیتے ہیں اور متشابہ کی قسم اول کو اصطلاح میں متشابہ حقیقی کہتے ہیں اور متشابہ کی قسم ثانی کو متشابہ اضافی کہتے ہیں۔ 2۔ سلف صالحین سے آیات متشابہات کی تاویل میں دو قول منقول ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ متشابہات کی تاویل سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں جیسا کہ ابی بن کعب اور عائشہ صدیقہ سے مروی ہے اور اکثر سلف سے یہی منقول ہے اور ابن عباس سے بھی ایک روایت ہے کہ متشابہات کی تاویل سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ متشابہات کی تاویل راسخین فی العلم بھی جانتے ہیں جیسا کہ ابن عباس اور مجاہد اور ربیع بن انس وغیرہم سے منقول ہے اور ان دونوں قولوں میں کوئی تعارض نہیں جن سلف کا یہ قول ہے کہ متشابہات کی تاویل سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں ان کی مراد متشابہ کی قسم اول ہے جیسے مقطعات قرآنیہ اور جن سلف سے یہ منقول ہے کہ متشابہات کی تاویل راسخین فی العلم بھی جانتے ہیں ان کی مراد متشابہ کی قسم ثانی ہے جو مجمل اور موول اور محتمل سب کو شامل ہے۔ 3۔ ومایعلم تاویلہ الا اللہ والراسخون فی العلم۔ الخ۔ میں قراء اور مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض کا قول ہے کہ الا اللہ پر وقف ضروری ہے اور لازم ہے اور والراسخون فی العلم جملہ مستانفہ یعنی کلام جدید ہے ماقبل پر عطف نہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ متشابہات کی تاویل سوائے اللہ کے کس کو معلوم نہیں اور اسخین فی العم متشابہات کی تاویل اور حقیقت کو محض اللہ پر چھوڑتے ہیں اور جو کچھ اللہ کی مراد ہے اس پر ایمان لاتے ہیں ان کا مسلک محض تفویض و تسلیم ہے۔ اور بعض کا قول یہ ہے کہ الا اللہ پر وقف جائز ہے ضروری اور لازم نہیں یعنی یہ بھی جائز ہے کہ الا اللہ پر وقف کیا جائے اور والراسخون فی العلم کو کلام جدید قرار دیا جائے اور یہ بھی جائز ہے کہ الا اللہ پر وقف نہ کیا جائے بلکہ والراسخون کا لفظ اللہ پر عط کیا جائے اس صورت میں آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد راسخین فی العلم بھی متشابہات کی تاویل اور معنی کو جانتے ہیں سلف صالحین کی ایک کثیر جماعت کا یہی مسلک ہے ابن عباس فرمایا کرتے تھے میں راسخین فی العلم سے ہوں اور میں متشابہ کی تاویل کو جانتا ہوں، غرض یہ کہ وقف اور عطف کے بارے میں سلف کے یہ دو قول ہیں اور سلف کا یہ اختلاف اور نزاع حقیقی نہیں بلکہ لفظی اور صوری ہے جن لوگوں نے متشابہ کے پہلے معنی مراد لیے ہیں ان کے نزدیک الا اللہ پر وقف ضروری اور لازم ہے اس لیے کہ مقطعات قرآنیہ جیسے متشابہات کی تاویل سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں اور جن لوگوں نے متشابہ کے دوسرے معنی مراد لیے جو مجمل اور محتمل اور مؤول کو بھی شامل ہیں ان کے نزدیک والراسخون کا عطف لفظ اللہ پر جائز ہے اس لیے کہ ایسے متشابہات کی تاویل اور معنی غوروخوض کرنے اور محکمات کی طرف رجوع کرنے سے راسخین فی العلم کو بھی بقدر ان کے علم اور فہم ان پر منکشف ہوجاتے ہیں اگرچہ اصل حقیقت اور اصل کنہ اللہ ہی کو معلوم ہوتی ہے مگر بقدر علم راسخین فی العلم بھی اس کی تاویل کو جانتے اور سمجھتے ہیں اور متشابہ کے دوسرے معنی لے کر یہ بھی جائز ہے کہ الا اللہ پر وقف کیا جائے اس صورت میں آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہات کی اصل تاویل اور صحیح کنہ اور پوری حقیقت سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر متشابہات کے اول معنی مراد لیے جائیں تو الا اللہ پر وقف ضروری اور لازم ہوگا اور اگر آیت میں متشابہات کے دوسرے معنی مراد لیے جائیں تو آیت میں وقف اور عطف دونوں جائز ہیں جس نے وقف کو ضروری قرار دیا اس نے متشابہ کے پہلے معنی مراد لیے ہیں اور آیت میں وقت اور عطف کی جو قرآتیں آئی ہیں وہ دونوں حق اور صحیح ہیں جس قرات میں غیر اللہ سے متشابہ کی تاویل کی نفی کی گئی ہے وہاں متشابہ کے اول معنی مراد ہیں اور جس قرات میں غیر اللہ یعنی راسخین کے لیے متشابہات کی تاویل کے علم کو ثابت کیا گیا ہے وہاں متشابہ کے دوسرے معنی مراد ہیں خوب سمجھ لو اور جس نے عطف جائز قرار دیا اس نے متشابہ کے دوسرے معنی مراد لیے اس لیے عرض کیا گیا کہ یہ اختلاف اور نزاع حقیقی نہیں بلکہ لفظی اور صوری ہے۔ 4۔ لفظ تاویل متقدمین کی اصطلاح میں تفسیر کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے تفسیر ابن جریر میں جابجاتاویل کا لفظ تفسیر کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اور متاخرین کی اصطلاح میں کسی قرینہ دلیل کی بناء پر ظاہر سے غیر ظاہر کی طرف پھیرنے کا نام تاویل ہے اور بلا کسی دلیل اور قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ مستعمل ہوا ہے وہاں تاویل سے مخفی حقیقت اور مصداق اور مآل اور انجام اور نتیجہ اور حکمت اور کلام کی غرض اور غایت کے معنی مراد لیے گئے ہیں لفظ تاویل اصل میں اول سے مشتق ہے جس کے معنی اصل کی طرف رجوع کرنے کے ہیں مثلا ھل ینظرون الاتاویلہ یوم یاتی تاویلہ۔ سے یوم آخرت مراد ہے جس دن وعدہ اور وعید کا مصداق ظاہر ہوگا اور جزاء اور سزا کی حقیقت واضح ہوگی۔ اور بل کذبوا بمالم یحیطوا بعلمہ ولما یاتھم تاویلہ۔ میں تاویل سے خبر خداوندی کے مصداق کا ظہور مراد ہے یا عاقبت اور انجام کے معنی مراد ہیں ہر خبر کا ایل کفظی مفہوم اور مدلول ہوتا ہے اور ایک اس کا خارجی اور واقعی مصداق ہوتا ہے جو وقوع کے بعد ظاہر ہوتا ہے کماقال تعالی، لکل نبا مستقر وسوف تعلمون۔ قرآن کریم نے خبر کے اس خارجی اور وقوعی مصداق کو تاویل سے تعبیر کیا ہے بسا اوقات خبرکالفظی مدلول اور مفہوم ظاہر ہوتا ہے اور اس کا خارجی مصداق کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں اور ھذا تاویل رویای میں تاویل سے تعبیر مراد ہے جو خواب کا مال اور انجام اور خارجی مصداق ہے اور وزنوبالقسطاس المستقیم ذالک خیر واحسن تاویلا۔ میں تاویل سے مآل اور انجام کا مراد ہونا بالکل ظاہر ہے، اور ذالک تاویل مالم تسطع علیہ صبرا میں تاویل سے مصداق اور خارجی حقیقت اور حکمت کے معنی مراد ہیں حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابن عباس کے حق میں یہ دعا فرمائی، اے اللہ اس کو دین کی سمجھ دے اور تاویل کا علم عطا فرما۔ ظاہر ہے کہ یہاں تاویل سے مخفی حقیقت اور پوشیدہ حکمت کا منکشف کرنا اور مآل اور انجام کا ظاہر کرنا مراد ہے۔ عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ رکوع اور سجود میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے، سبحانک اللہم ربنا وبحمدک اللہم اغفرلی، گویا کہ آپ اس دعا کے ذریعہ سے فسبح بحمد ربک واستغفرہ کی تاویل ظاہر فرماتے یعنی اس آیت کا عملی مصداق بیان فرماتے ہیں کہ آیت قرآنی میں تسبیح وتحمید اور استغفار کی تاویل یہ ہے کہ رکوع میں اس طرح تسبیح اور استغفار پڑھی جائے۔ معلوم ہوا کہ حدیث میں تاویل سے کلام کا ظاہر سے پھیرنا مراد نہیں بلکہ اس کے خارجی مصداق کا تعین مراد ہے۔ 5۔ اس سورت میں آیات قرآنی کی دو قسمیں بیان کی گئیں ایک محکم اور ایک متشابہ، اور سورت ھود کے شروع میں یعنی کتب احکمت آیاتہ میں قرآن کریم کی تمام آیات کو محکم بتلایا گیا اور سورة زمر کی اس آیت، اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا، میں سارے قرآن کو متشابہ بتایا گیا۔ سو ان آیات میں محکم اور متشابہ کے دوسرے معنی مراد ہیں محکم کے معنی لغت میں مضبوط اور مستحکم کے ہیں چونکہ قرآن کریم نظمی اور معنی کے اعتبار سے نہایت مستحکم اور سراسر حق اور سراپا حکمت سے کہیں جائے انگشت نہیں اس لیے سارے قرآن کو محکم کیا گیا اور متشابہ کے معنی لغت میں مشابہ اور ملتے جلتے کے ہیں اختلاف اور تناقض سے پاک ہونے میں ایک دوسرے کے متشابہ ہیں کماقال تعالیٰ ولوکان من عندغیر اللہ لوجدوا۔۔۔ الی۔۔۔ کثیرا۔ اس لیے تمام قرآن کو کتابا متشابھا فرمایا پس جس جگہ قرآن کی بعض آیتوں کو محکم اور بعض کو متشابہ کہا گیا وہاں محکم اور متشابہ کے اور معنی مراد ہیں اور جہاں سارے قرآن کو محکم یا متشابہ کہا گیا وہاں اور معنی مراد ہیں پس جب ہر جگہ معنی جداجدا ہوئے تو آیات میں کوئی تعارض اور تناقض نہ رہا۔ 6۔ آیت کو راسخین فی العلم سے شروع فرمایا اور الااولوالباب پر ختم فرمایا معلوم ہوا کہ راسخین فی العلم وہ لوگ ہیں جن کی عقل نفسانی خواہشوں سے کج اور خراب نہ ہوگئی ہو جب تک عقل سے نفسانی خواہشوں کا زنگ دور نہ ہو وہ اللہ کے نزدیک راسخین فی العلم میں سے نہیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنی سند سے بیان کیا کہ عبیداللہ بن یزید ( کو جنہوں نے صحابہ کرام کو پایا اور انس بن مالک اور ابوامامہ اور ابوالدرداء) دیکھا وہ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ راسخین فی العلم جن کا آیت میں ذکر ہے وہ کون لوگ ہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنی قسم اور نذر میں پورا ہو اور زبان کا سچا ہو اور دل اس کا جادہ محبت وفا پر قائم اور مستقیم ہو اور اس کا شکم اور اس کی شرمگاہ حرام اور مشتبہ سے عفیف ور پاک ہو پس ایسا شخص راسخین فی العلم میں سے ہے، یعنی علم میں پختہ اور ثابت قدم وہی شخص ہے جس کا حال اور قال یہ ہو جو بیان کیا گیا اور ظاہر ہے کہ یہ حال اور یہ قال انہیں لوگوں کا ہوسکتا ہے جن کے دل نفسانی خواہشوں کے زنگ سے صیقل ہوچکے ہوں اور انوار و تجلیات کے عکس قبول کرنے کے لیے صاف و شفاف آئینہ بن چکے ہوں اور راسخین فی العم کے مقابل زائغین کا گروہ ہے جو نفسانی خواہشوں کی وجہ سے کج اور خراب ہوچکے ہیں حق بات ان کے دل میں نہیں اترتی۔ ملحد اور زندیق رافضی اور خارجی اور تمام بدعتی فرقے اس میں داخل ہیں جس طرح تمام اہل حق راسخین فی العلم میں داخل ہیں جس کا صحیح مصداق اہل سنت والجماعت ہیں جو کتاب وسنت کے محکمات کو مضبوط پکڑتے ہیں اور متشابہات کو محکمات کے ساتھ ملاکرآیات کے معنی بیان کرتے ہیں اپنی نفسانی خواہشوں کا اتباع نہیں کرتے بلکہ صحابہ وتابعین کے نقش قدم پر چلتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرمایا جس شخص کا علم اور فہم خلفاء راشدین اور صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ٹکراتا ہو تو سمجھ لو کہ ایساشخص زائغین میں سے ہے اس سے بچتے رہو۔
Top