Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
جو لوگ کافر ہوئے (اس دن) نہ تو ان کا مال ہی خدا (کے عذاب) سے ان کو بچاسکے گا اور ان کی اولاد ہی (کچھ کام آئے گی) اور یہ لوگ آتش (جہنم) کا ایندھن ہوں گے
آیت نمبر 10 تا 20 ترجمہ : یقیناً جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں ہرگز ان کے کچھ کام نہ آئیں گے (یعنی عذاب کو) رفع نہ کریں گے، اور وہی لوگ آگ کے ایندھن ہوں گے، واؤ کے فتحہ کے ساتھ، جس کے ذریعہ آگ جلائی جاتی ہے جیسا کہ معاملہ آل عمران اور ان سے قبل والوں کے ساتھ ہوا، (یعنی) سابقہ امتوں کے ساتھ جیسا کہ عاد وثمود (کے ساتھ) انہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی تو اللہ نے ان کے گناہوں کے باعث ان کی گرفت کی یعنی ان کو ہلاک کردیا اور جملہ ” کَذَُبُوْا “ الخ ماقبل کے جملہ ” کَدَأبِ اٰلِ فرعون الخ “ کی تفسیر ہے، اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے، اور جب آپ ﷺ غزوہ بدر سے واپس ہوئے اور یہود کو اسلام کی دعوت دی تو یہود نے آپ سے کہا کہ ناتجربہ کار اور فن قتال سے ناواقف چند قریش کو قتل کردینا آپ کو دھوکے میں نہ ڈال دے، اے محمد آپ کفر کرنے والے یہودیوں سے کہہ دیجئے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے، سیغلبون، یاء اور تاء کے ساتھ تو تم اس میں داخل ہوگے، اور وہ برا ٹھکانہ، فرش ہے، بیشک تمہارے لیے یوم بدر میں دونوں فریقوں کے قتال کے لیے مقابل ہونے میں عبرت ہے (کان) فعل کو درمیان میں فصل کی وجہ سے مذکر لایا گیا ہے، ایک جماعت اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اس کی اطاعت میں، اور وہ نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب تھے، جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی ان کے ساتھ (صرف) دو گھوڑے اور چھ زرہ اور آٹھ تلواریں تھیں ان میں کے اکثر لوگ پا پیادہ تھے۔ اور دوسری جماعت کافروں کی تھی جو ان (مسلمانوں) کو اپنے سے کئی گنا زیادہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، یعنی اپنے سے زیادہ ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی، (یَرَوْنَ ) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی قلت کے باوجود مدد فرمائی، اور اللہ جس کی نصرت چاہتا ہے اپنی نصرت سے مدد کرتا ہے بلاشبہ اس مذکورہ (واقعہ) میں اہل بصیرت کے لئے بڑا سبق ہے تو تم اس سے سبق نہیں لیتے کہ ایمان لے آؤ۔ اور خوشنما کردی گئی ہے لوگوں کے لیے مرغوبات کی محبت یعنی قلب جس کی خواہش کرتا ہے۔ اور اس کی طرف بلاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان مرغوبات کو بطور آزمائش خوشنما بنادیا ہے یا شیطان نے (خوشنما بنادیا ہے) خواہ (وہ مرغوبات) عورتیں ہوں اور بیٹے اور اموال کثیرہ یا سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے عمدہ گھوڑے اور مویشی یعنی اونٹ گائے اور بکری اور زراعت یہ سب دنیوی زندگی کے سامان ہیں، دنیا ہی میں ان سے نفع حاصل کیا جاتا ہے، پھر ختم ہوجاتا ہے۔ اور حُسْبِ انجام تو اللہ کے پاس ہے اور وہ جنت ہے چناچہ وہی رغبت کے لائق ہے نہ کہ اس کے علاوہ اور کچھ۔ اے محمد آپ اپنی قوم سے کہئے کیا میں ان مذکورہ (مرغوبات) سے بھی بہتر چیزیں نہ بتلاؤں ؟ ان (لوگوں) کے لیے جو کہ شرک سے ڈرتے رہتے ہیں، استفہام تقریر کے لیے ہے، ان کے پروردگار کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے بڑی نہریں بہہ رہی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یعنی ان کے لیے ہمیشہ رہنا مقدر کردیا گیا ہے، اور وہ ہے جنت اس میں داخل ہوجائیں گے (عند ربّھم) مبتداء ہے، اور (جنّٰتٍ تجری) اس کی خبر ہے، اور حیض وغیرہ (مثلا بول و براز) سے کراہت ہوتی ہے صاف ستھری بیویاں ہوں گے، اور اللہ کو خوشنودی ہوگی، (رِضْوانٌ) راء کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ۔ یہ دو لغت ہیں، یعنی بڑی رضامندی، اللہ اپنے بندوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، ان میں سے ہر ایک کو ان کی جزاء دے گا، (یہ وہ لوگ ہیں) جو کہتے رہتے ہیں (اَلَّذِیْنَ ) یہ سابق اَلَّذِیْنَ کی صفت یا بدل ہے، اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے یعنی ہم نے تیری اور تیرے رسول کی تصدیق کی، سو تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا، یہ طاعت پر اور معصیت سے صبر کرنے والے ہیں۔ (یہ بھی) صفت ہے، اور ایمان میں سچے ہیں اور اللہ کے لیے عاجزی کرنے والے ہیں، اور صدقہ کرنے والے ہیں اور صبح کے وقت، یا پچھلے پہر رات میں ” الَلّٰھُمَّ اغفرلنا “ کہتے ہوئے اللہ سے مغفرت مانگنے والے ہیں اور وقت سحر کی تخصیص اس وجہ سے ہے کہ وہ غفلت اور نیند کی لذت کا وقت ہے، اللہ نے اپنی مخلوق کے لیے دلائل اور آیات کے ذریعہ (عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ) بیان فرما دیا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں یعنی کوئی معبود برحق موجود نہیں، اور ملائکہ نے بھی اقرار کرکے یہی گواہی دی ہے اور اہل علم نے کہ وہ انبیاء اور مومنین ہیں جنہوں نے اعتقاد کے ذریعہ (دل سے) گواہی دی ہے اور زبان سے تلفظ (اقرار) کر کے، اور وہ عدل سے انصاف قائم رکھنے والا ہے، یعنی اپنی مخلوقات کی تدبیر کرنے والا ہے (اور) قائما، حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، اور عامل اس میں جملہ کے معنیٰ ہیں۔ ای تَفَرَّدَ (یعنی لا الہ الا ھو، تَفَرَّدَ کے معنیٰ میں ہے) بجز اس کے کوئی معبود نہیں تاکیدًا اس کو مکرر لایا گیا ہے، وہ اپنے ملک میں زبردست ہے، اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے یقیناً پسندیدہ دین تو اللہ کے نزدیک السلام ہی ہے یعنی وہ شریعت کہ جس کو لیکر رسول مبعوث ہوئے جن کا مدار توحید پر ہے، اور ایک قراءت میں اَنَّ کے فتحہ کے ساتھ اَنّہٗ الخ سے بدل الاشتمال ہے اور اہل کتاب یہود و نصاریٰ نے توحید کا علم آجانے کے بعد جو اختلاف کیا کہ بعض توحید کے قائل ہوئے اور بعض منکر محض کافروں کی جانب سے آپسی ضد کی وجہ سے کیا، اور جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرے گا اللہ بلاشبہ جلدی حساب لینے والا ہے، یعنی اس کو جزاء دینے والا ہے سوائے محمد ﷺ اگر یہ کافر آپ سے دین میں حجت کریں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں اور جس نے میری اتباع کی تو رخ اللہ کی طرف کرچکا ہوں (یعنی) اس کا فرمانبردار ہوچکا ہوں، اور چہرہ کی تخصیص اس کے افضل ہونے کی وجہ سے ہے۔ تو اس کا غیر تو بطریق اولیٰ فرمانبردار ہوگا، اور آپ اہل کتاب یہود و نصاریٰ اور ناخواندہ مشرکین عرب سے دریافت کیجئے کہ کیا تم اسلام لاتے ہو ؟ یعنی اسلام لے آؤ، سو اگر اسلام لے آئے تو وہ گمراہی سے راہ ہدایت پر آگئے اور اگر انہوں نے اسلام سے اعراض کیا تو آپ کے ذمہ صرف پیغام پہنچا دینا ہے، اور اللہ اپنے بندوں پر نظر رکھنے والا ہے لہٰذا وہ ان کو ان کے اعمال کی جزاء دے گا، اور یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے کا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَقُودُ ، واؤ کے فتحہ کے ساتھ ایندھن اسم ہے واؤ کے خمہ کے ساتھ مصدر ہے، مصدر کا حمل ذوات پر چونکہ درست نہیں ہے اس لیے مفتوح الواؤ کو اسم قرار دیا گیا تاکہ حمل درست ہوسکے۔ قولہ : دَأبُھُمْ ، یہ لفظ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ کَدَأبِ فرعونَ مبتداء محذوف کی خبر ہو کر جملہ مستانفہ ہے اس کا تعلق نہ لن تغنی سے ہے اور نہ وقود النار، سے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ دأبٌ بمعنی عادت، حال دأبٌ (ف) سے مصدر ہے لگاتار کسی کام میں لگنا اسی وجہ سے اس کے معنی عادت کے ہیں۔ قولہ : الجملۃ مفسرۃ مفسر علام نے مذکورہ عبارت مقدر مان کر اشادہ کردیا کہ کذّبُوا بآیاتِنَا، جملہ حالیہ نہیں ہے اس لیے کہ ماضی کے حال واقع ہونے کے لیے ” قد “ ضروری ہوتا ہے بلکہ یہ جملہ، سابقہ جملہ کی تفسیر ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں جملوں کے درمیان واؤ نہیں لائے۔ قولہ : اعمار، غمرٌ کی جمع ہے ناتجربہ کار جاہل۔ قولہ : ذُکِّرَ الفعل للفصل یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : آیۃٌ، کان کا اسم ہے اور فعل کو مذکر لایا گیا ہے حالانکہ کانَتْ لانا چاہیے تھا تاکہ فعل اور اسم میں موافقت ہوجاتی۔ جواب : فعل اور اس کے اسم میں جب فصل واقع ہوجائے تو موافقت ضروری نہیں ہوتی، یہاں لَکُمْ ، کا فصل واقع ہے۔ قولہ : اَلْفِئَۃُ جماعت، لفظوں میں اس کا واحد مستعمل نہیں ہے اس کی جمع فئات ہے۔ قولہ : المذکور، ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : ذٰلِکَ کا مشارٌ الیہ التقلیل والتکثیر ہے، اسم اشارہ اور مرجع میں مطابقت نہیں ہے۔ جواب : التقلیل والتکثیر بمعنی المذکور ہے لہٰذا مطابقت موجود ہے۔ قولہ : مَاتَشتھِیْہِ اس میں اشارہ ہے کہ شہوات، مصدر مبالغۃ بمعنی مفعول کے ہے، کقولہ احببت حبَّ الخیر میں۔ قولہ : نعتٌ اور بدلٌ مِن الَّذِیْنَ قَبْلَہٗ اس اضافہ کا مقصد اس اعتراض کا دفاع ہے کہ العباد جو کہ قریب ہے، سے بدل یا نعت ہو اس کو دفع کردیا کہ یہ اتقوا سے بدل یا نعت ہے نہ کہ العباد سے۔ قولہ : یا ربّنا، یا مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ رَبَّنَا، یا کے مقدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : نعتٌ یعنی جس طرح الذِیْنَ اتقوا سے نعت ہے یہ اتقوا بھی نعت ہے۔ قولہ : نَصْبُہٗ علی الحال، یعنی قائماً ھُوْ سے حال ہے نہ کہ اِلہٌ، کی صفت ہونے کی وجہ سے اس لئے کہ صفت اور موصوف کے درمیان فصل بالاجنبی واقع ہے۔ قولہ : والفاعل فیہا معنی الجملۃ، ای تَفَرَّدَ یہ دراصل سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ قائماً اگر معطوف اور معطوف علیہ کے مجموعہ سے حال ہے تو اس صورت میں حمل درست نہ ہوگا اور اگر فقط، لفظ اللہ، سے حال ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے جیسا کہ جاء زیدٌ و عمروراکباً اس وقت حال کا کوئی عامل نہ رہے گا۔ جواب : یہ دیا کہ جملہ ” لا اِلٰہَ اِلاَّ ھو “ معنی میں تَفَرَّدَ کے ہے، اس لیے کہ استثناء نفی کے بعد تفرد کا فائدہ دیتا ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ الِاحتباک، دو کلاموں میں حذف ہو اور اول کلام سے وہ حذف کردیا جائے جو ثانی سے مفہوم ہو اور ثانی سے وہ حذف کردیا جائے جو اول سے مفہوم ہو۔ فِئۃٌ تُقَاتِلُ فی سبیل اللہ واخریٰ کافِرَۃٌ۔ اس میں صنعت احتباک ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، فِئۃٌ مؤمِنَۃٌ تقاتِلُ فِی سَبِیْلِ اللہ وَفِئْۃٌ اُخْرٰی کافِرَۃٌ فِی سِبِیْلِ الشَّیْطَانِ ، فِئْۃٌ تقاتلُ فی سبیل اللہ یہ اول کلام ہے اور اخریٰ کافرۃٌ یہ ثانی کلام ہے ثانی کلام میں کافِرَۃٌ کے لفظ سے مؤمنۃ مفہوم ہے لہٰذا اس کو اول کلام سے حذف کردیا اور اول کلام میں تقاتل فی سبیل اللہ مذکور ہے اسی سے تقاتل فی سبیل الشیطان مفہوم ہے لہٰذا اس کو ثانی کلام میں حذف کردیا گیا۔ قولہ : اَلْقَنطَرۃ، یہ قنطارٌ کی جمع ہے مال کثیر، ڈھیر کو کہتے ہیں۔ قولہ : المُسَوَّمَۃ عمدہ گھوڑا، علامت لگایا ہوا گھوڑا۔ قولہ : مَآبِ مصدر بھی ہوسکتا ہے اور اسم مکان و اسم زمان بھی، یہ اصل میں (ن) مَاْوَبٌ بروزن مَفْعَلٌ تھا، واؤ کی حرکت نقل کرکے ہمزہ کو دیدی واؤ کو الف سے بدل دیا مَآبٌ ہوگیا لوٹنے کہ جگہ یا زمانہ۔ قولہ : زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَھَوَاتِ مِنَ النِّسَآءِ ، (الآیۃ) اس آیت میں صنعت مراعاۃ النظیر ہے۔ مَرَاعَاۃُ النظیر : اس کو صنعت تناسب اور توفیق بھی کہتے ہیں۔ مراعَاۃُ النظیر : یہ ہے کہ ایسے دو یا زیادہ امور کو ایک جگہ جمع کردیں جو ایک دوسرے کے مناسب ہوں، لیکن یہ مناسبت تضاد کی نہ ہو، ورنہ یہ صنعت طباق ہوجائے گی مذکورہ آیت میں متعدد ایسی چیزوں کو جمع کر سیا ہے جن میں مناسبت ہے، مگر یہ مناسبت تضاد نہیں ہے، اردو میں جیسے اس شعر میں ہے۔ چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجمل تھا ہزاروں بلبلوں کی فوج تھی اور شور تھا غل تھا خزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جزخار، گلشن میں بتاتا باغباں رو رو کے یاں غنچہ یہاں گل تھا ان دو شعروں میں چمن کے مناسب بہت سے الفاظ شاعر نے جمع کر دئیے ہیں۔
Top