Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے ‘ انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ ان کا مال کچھ کام دے گا ‘ نہ اولاد ‘ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے ۔
یہ آیات بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے کہی گئی ہیں ۔ ان میں یہ دہمکی دی گئی ہے کہ وہ اہل کفر کے انجام پر غور کرلیں ۔ پہلے جو ہوچکا ہے اور آئندہ جو ہونے والا ہے ۔ اس میں ایک لطیف اور عمیق اشارہ ہے اس جانب کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا اور بنی اسرائیل کو نجات دی لیکن یہ ہلاکت اس لئے نہ تھی کہ فرعون فرعون تھا بلکہ اس لئے کہ وہ کافر تھا۔ اور نجات بنی اسرائیل بھی اس لئے نہ تھی کہ وہ قوم بنی اسرائیل سے نسبی رشتہ رکھتے تھے ۔ بلکہ اس لئے تھی کہ وہ اہل ایمان تھے ۔ اس لئے اب اگر وہ کفر اور گمراہی کا رویہ اختیار کریں گے تو وہ نجات کے مستحق نہ ہوں گے ۔ اگر وہ گمراہ ہوگئے تو وہ اہل کفر کہلانے سے نہ بچ سکیں گے ۔ اسی طرح وہ دنیا وآخرت میں اہل کفر کے انجام بد سے لازماً دوچار ہوں گے جیسا کہ بوجہ کفر آل فرعون کا یہ انجام ہوا۔ اسی طرح انہیں بدر کے میدان میں اہل قریش کے مقتل کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ اس صورت حال سے وہ محض اس لئے دوچار ہوئے کہ وہ کفار تھے ۔ اگر وہ بھی کفر پر قائم رہے تو پھر سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ لازماً اسی انجام سے دوچار ہوں گے جن سے اہل قریش دوچار ہوئے۔ اس لئے کہ اس انجام کا اصل سب کفر تھا۔ اللہ کے ہاں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے ‘ نہ وہاں سفارش چلتی ہے ‘ صرف ایمان صحیح ہی وہاں شفیع ہوسکتا ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ ” جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ‘ انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ ان کا مال کچھ کام دے گا اور نہ اولاد ‘ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے۔ “ دنیا میں مال اور اولاد بچاؤ کا سہارا ہوتے ہیں لیکن یہ دونوں چیزیں ‘ اس دن کام نہ دیں گی جس کے آنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس دن کے آنے کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اور اللہ کے وعدے میں کبھی تخلف نہیں ہوتا ۔ اللہ کا وعدہ کبھی ٹلتا نہیں ‘ اہل کفر وہاں جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ یہاں انداز تعبیر ایسا اختیار کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اہل جہنم سے انسانی خصوصیات سلب ہوجائیں گی اور وہ جہنم میں خس و خاشاک کی طرح سوختی کی اشیاء ہوں گے ۔ اور اس وقت نہ مال اور دولت ‘ نہ جاہ اور نہ سلطنت ان کے کچھ کام آئے گی۔
Top