Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
جو لوگ کافر ہوئے (اس دن) نہ تو ان کا مال ہی خدا (کے عذاب) سے ان کو بچاسکے گا اور ان کی اولاد ہی (کچھ کام آئے گی) اور یہ لوگ آتش (جہنم) کا ایندھن ہوں گے
آیت 10-13 اللہ تعالیٰ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرنے والے، اس کے دین اور اس کی کتاب کا انکار کرنے والے، اپنے کفر اور گناہوں کی وجہ سے سزا اور سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ وہاں انہیں اپنے مالوں اور اولادوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگرچہ دنیا میں وہ آنے والی مصیبتوں کا ان کے ذریعہ سے مقابلہ کرلیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے (نحن اکثر اھوالا واولادا وما نحن بمعذبین) (سبا :35/37) ” ہمارے مال اور ہماری اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ “ قیامت کے دن انہیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی انہیں بالکل توقع نہ ہوگی۔ (ویدالھم سیات ماکسبوا وحاق بھم ماکانوابہ یستھزء ون) (الزامر :38/39) ” ان کے کمائے ہوئے اعمال کا برا انجام ان کے سامنے آجائے گا اور انہیں وہ عذاب گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، اللہ کے ہاں مال اور اولاد کی قدر نہیں، بلکہ بندے کو اللہ پر ایمان لانے کا اور نیک اعمال کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے : (وما اموالکم ولا اولادکم بالتی تقربکم عندنا زلفی الا من امن وعمل صالحاً فاولئک لھم جزآء الضعف بما عملوا وھم فی الغرفت امنون) (سبا :38/37) ” تمہارے مال اور تمہاری اولاد وہ چیز نہیں جو تمہیں ہمارا قرب بخشتی ہیں بلکہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کئے انہی لوگوں کو اپنے اعمال کا دگنا بدلے ملے گا اور وہ بالا خانوں میں امن سے رہیں گے “ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ کافر جہنم کا ایندھن ہیں، یعنی ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ قانون کہ کافروں کو ان کے مالوں یا اولادوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا، گزشتہ امتوں میں بھی اللہ کا یہی قانون جاری رہا ہے۔ فرعون، اس سے پہلے اور اس کے بعد آنے والے سب جابر، سرکش، مالوں اور لشکروں والے، ان سب کے ساتھ یہی ہوا کہ جب انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان سے دشمنی کی، اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا، یہ اس کا عدل تھا، ظلم نہیں۔ جو کوئی ایسا کام کرے جو سزا کا مستوجب ہے تو اللہ اسے سخت سزا دے دیتا ہے۔ عذاب کا یہ سبب کفر بھی ہوسکتا ہے اور دوسرے گناہ بھی جن کی مختلف قسمیں اور بہت سے مراتب ہیں۔ اس کے بعد فرمایا : (قل للذین کفروا ستغلبون وتحشرون الی جھنم وبئس المھاد) ” اے محمد ﷺ ! ) کافروں سے کہہ دیجئے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے اور جہنم کی طرف سے جمع کئے جاؤ گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ “ اس میں مومنوں کی مدد اور فتح کا اشارہ ہے اور کافروں کو تنبیہ ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا تھا ویسے ہی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں یعنی مشرکین، یہود اور نصاریٰ جیسے کافروں کے خلاف مومنوں کی مدد فرمائی۔ قیامت تک وہ اپنے مومن بندوں اور لشکروں کی مدد فرماتا رہے گا۔ اس میں ایک عبرت اور قرآن کی ایسی نشانی ہے جو آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ اللہ نے بتایا کہ کافر دنیا میں مغلوب ہونے کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن جمع کر کے جہنم کی طرف ہانک دیئے جائیں گے جو برا ٹھکانہ ہے اور ان کے بداعمال کا برا بدلہ (قد کان لکم ایۃ) ” یقیناً تمہارے لئے نشانی تھی “ یعنی عظیم عبرت تھی۔ (فی فئتین التقتا) ” ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں۔ “ یہ غزوہ بدر کے موقع پر ہوا۔ (فءۃ تقاتل فی سبیل اللہ) ” ایک جماعت اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی۔ “ یہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام تھے۔ (واخری کافرۃ) ” اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا۔ “ یعنی کفار قریش جو فخر وتکبر کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لئے اور اللہ سے روکنے کے لئے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں جماعتوں کو بدر کے میدان میں اکٹھا کردیا۔ مشرکوں کی تعداد مومنوں سے کئی گنا تھی۔ اس لئے فرمایا : (یرونھم مثلیھم رای العلین) ” وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا دیکھتے تھے۔ “ یعنی مومن دیکھ رہے تھے کہ کافر تعداد میں ان سے بہت زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ دگنے سے زیادہ تھا۔ (یعنی کفار کی تعداد تین گنا سے زائد تھی) اللہ نے مومنوں کی مدد کی تو انہوں نے کفار کو شکست دی، ان کے سرداروں کو تہ تیغ کیا اور بہت سے افراد کو قید کرلیا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور جو کفر کرتا ہے اللہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس میں آنکھوں والوں کے لئے عبرت ہے۔ یعنی جن کی بصیرت اور عقل کامل ہے، جس کی وجہ سے وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس جماعت کی مدد کی گئی ہے وہی اہل حق ہیں اور دوسرے باطل پر ہیں۔ ورنہ محض ظاہری اسباب، سامان اور تعداد پر نظر رکھنے والا یہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس چھوٹی سی جماعت کا اتنی بڑی جماعت پر فتح پانا بالکل محال اور ناممکن ہے۔ لیکن بصارت سے نظر آنے والے ان اسباب کے پیچھے ایک عظیم ترسبب بھی ہے۔ جسے بصیرت، ایمان اور توکل علی اللہ کی نظر ہی دیکھ سکتی ہے اور وہ سبب ہے اللہ کا اپنے ومن بندوں کو توقیت بخشنا اور اپنے کافر دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرنا۔
Top