Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
بیشک جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفرو (باطل) پر، ان کو اللہ کے مقابلے میں نہ تو ان کے مال کچھ کام آسکیں گے، اور نہ ہی ان کی اولادیں، اور یہی لوگ ہیں جو ایندھن ہوں گے (دوزخ کی) اس ہولناک آگ کا،4
18 اہل کفر کا انجام نہایت ہولناک ۔ والعیاذ باللہ : سو اہل کفر کا انجام نہایت ہی ہولناک ہوگا اور ان کو اللہ کے مقابلے میں نہ ان کے مال کچھ کام آسکیں گے اور نہ ان کی اولادیں۔ جن کا یہ اپنے طور پر بڑا زعم اور گھمنڈ رکھتے ہیں۔ اور اعلانیہ اور فخریہ طور پر کہتے ہیں ۔ { نَحْنُ اَکْثَرُ اَمْوَالاً وَّاَوْلادًا } ۔ (سبا۔ 35) کہ " ہم مال و دولت میں بھی سب سے بڑھ کر ہیں اور آل اولاد میں بھی "۔ لہذا ہم ٹھیک اور ہمارا راستہ بھی ٹھیک۔ ورنہ ہمیں یہ سب کچھ کیوں ملتا ؟ اور جب ہم ایسے اور اس قدر مال و دولت اور آل و اولاد رکھنے والے ہیں تو پھر کوئی ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے، مگر حقیقت میں یہ محض ایک دھوکہ ہے جو شیطان اور اس کے اعوان و اَنصار کی طرف سے ان لوگوں کو دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ قدر و قیمت اصل میں حق کی، اور حق کے قبول کرنے کی ہے، نہ کہ متاع دنیا کے اس حطام زائل کی۔ البتہ اس مال و متاع دنیا کی قدر و قیمت اس صورت میں ہوسکتی ہے، جبکہ حق کو قبول کرنے کے بعد اس کو راہ حق میں، اور اپنے خالق ومالک کی رضا کی طلب میں صرف و خرچ کیا جائے، کہ اس صورت میں یہ عارضی اور فانی اشیاء بھی دائمی اور قیمتی بن جائیں گی۔ اور اگر یہ چیزیں اس کے برعکس حق کی قبولیت کی بجائے اس کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں، تو پھر یہ الٹا دائمی عذاب کا باعث بن جائینگی، اور یہ سب سے بڑا خسارہ اور انتہائی ہولناک نقصان ہے۔ اور اتنا بڑا اور اس قدر ہولناک خسارہ کہ اس جیسا دوسرا کوئی خسارہ نہیں ہوسکتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 19 کافرو منکر دوزخ کا ایندھن ۔ والعیاذ باللہ : کہ انہوں نے اپنے مال و متاع پر نظر کرتے ہوئے، اور اس کے زعم اور گھمنڈ میں مبتلا ہو کر دولت حق اور راہ صدق و صواب سے منہ موڑ لیا۔ اور اس طرح انہوں نے دائمی ناکامی اور ابدی خسران کو اپنے گلے کا ہار بنادیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور یہ سب کچھ چونکہ انہوں نے اپنے ارادہ و اختیار سے اور ازخود کیا، اس لئے یہ اپنی اس ابدی ناکامی اور دائمی خسارہ کے ذمہ دار خود ہیں۔ سو دنیاوی مال و دولت اور جاہ و اقتدار کا یہ پہلو بڑا ہی خطرناک اور سخت نقصان دہ ہے کہ اس کی بناء پر انسان تکبر میں مبتلا ہو کر راہ حق و صواب سے اعراض کرتا، اور منہ موڑ لیتا ہے۔ اور ایسی ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ کلمہ حق و ہدایت کو سننے اور ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ اور اس طرح وہ دائمی خسارہ و ہلاکت کے عمیق گڑھے اور گہری کھائی میں جا گرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ایسے لوگوں کے لئے یہاں پر صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو حساب و کتاب کے اس یوم عظیم میں ان کے مال و اولاد کچھ بھی کام نہ آسکیں گے اور یہ دوزخ کی اس دہکتی بھڑکتی آگ میں ہمیشہ کے لئے ایندھن بنیں گے جہاں ان کو ہمیشہ کے لئے رہنا اور جلنا ہوگا۔ نہ ان سے وہاں کا عذاب ہلکا ہوگا اور نہ ہی یہ اس سے کسی طرح چھٹکارا پاسکیں گے، اور نہ ہی ان کو وہاں پر موت آئے گی کہ کسی طرح ان کو وہاں سے رہائی مل سکے۔ سو کفر وانکار ہلاکتوں کی ہلاکت اور محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top