Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا، نہ ان کے مال خدا کے ہاں کچھ کام آئیں گے، نہ ان کی اولاد، اور وہی لوگ دوزخ کے ایندھن بنیں گے۔
تفسیر آیت 10-11: راہ حق کی اصل رکاوٹ : اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سے یہاں مراد، جیسا کہ آیت 4 میں گزر چکا ہے، قرآن کے منکرین ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ مال و اولاد، جن کی محبت آج ان کے لیے ایک سورج سے زیادہ واضح حق کے قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، انہیں خدا کی پکڑ سے نہیں بچا سکیں گے۔ اس وجہ سے ان کی محبت میں اس خدا کو نہیں بھولنا چاہیے جس کے حقوق سب پر مقدم ہیں اور جس کی پکڑ بھی بےپناہ ہے۔ مال و اولاد کا ذکر یہاں قبول حق کی راہ کے اصل حجاب کی حیثیت سے ہوا ہے۔ آگے آیت 14 میں ان کا ذکر تفصیل کے ساتھ آ رہا ہے۔ درحقیقت انہی کی محبت ہے جو انسان کے لیے قبول حق میں رکاوٹ بنتی ہے لیکن انسان اصل حقیقت کے اعتراف سے گریز کرتا ہے اور اپنے اغراض کے لیے کچھ ایسے بہانے تلاش کرتا ہے جو اس کی اصل بیماری پر پردہ ڈال سکیں۔ قرآن نے یہ ان لوگوں کی اصلی اندرونی بیماری سے پردہ اٹھایا ہے کہ یہ درحقیقت مال و اولاد کی محبت ہے جو انہیں قرآن کی پیش کردہ سچائیوں کے آگے جھکنے سے روک رہی ہے لیکن وہ اس کو چھپانے کے لیے متشابہات کے اندر سے کچھ اعتراضات و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی دنیا پرستی بےنقاب نہ ہونے پائے۔ انسان کی یہ عام کمزوری ہے کہ وہ ایک حقیقت سے گریز تو اختیار کرتا ہے اپنے نفس کی کسی کمزوری کے سبب سے لیکن نمائش کچھ ایسی کرتا ہے جس سے مخاطب پر یہ اثر پڑے کہ فی الواقع اس کے اس گریز کے لیے کچھ وجوہ و اسباب اور کچھ اعتراضات و شبہات ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان کی یہ روش بعینہ وہی روش ہے جو اس سے پہلے فرعون اور اس کی قوم نے اور خدا کے رسولوں کو جھٹلانے والی دوسری قوموں نے اختیار کی۔ انہوں نے بھی جان بوجھ کر محض دنیا کی محبت میں، خدا کی نشانیوں اور اس کی پیش کردہ نشانیوں کو کوئی سحر وشعبدہ خیال کر رہے، اس وجہ سے ان کو قبول نہیں کر رہے ہیں۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا اور جب پکڑ لیا تو پھر کوئی نہیں تھا جو خد کی پکڑ سے ان کو بچا سکے۔ شَدِيْدُ الْعِقَابِ کے لفظ میں دو مفہوم موجود ہیں۔ ایک تو یہ کہ خدا کی طرف سے انسان کو جو سزا بھی ملتی ہے وہ انسان کے اپنے ہی اعمال کا رد عمل ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ جس طرح خدا کے قوانین طبیعی کے نتائج بےلاگ اور لازمی ہیں اسی طرح خدا کے اخلاقی قوانین کے نتائج بھی بےلاگ اور لازمی ہیں جب ان کے ظہور کا مرحلہ آئے گا تو وہ اس طرح بےلاگ لپیٹ اور ایسی قطعیت اور قوت کے ساتھ ظاہر ہوں گے کہ نہ کوئی ان سے بچ سکے گا اور نہ کوئی ان سے بچا سکے گا۔
Top