Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
(بےشک جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہر گزان کے مال ان کے کام نہیں آئیں گے اور نہ ان کی اولاد اللہ کے مقابلے میں، یہی لوگ دوزخ کا ایندھن بنیں گے
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا ط وَاُولٰٓئِکَ ہُمْ وَقُوْدُالنَّارِ ۔ لا کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ لا وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ط کَذَّبُوْا بِاٰیٰـتِـنَاج فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوْبِہِمْ ط وَاللّٰہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ (بےشک جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہر گزان کے مال ان کے کام نہیں آئیں گے اور نہ ان کی اولاد اللہ کے مقابلے میں، یہی لوگ دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ ان کا بھی وہی حال ہونا ہے جو آل فرعون اور ان لوگوں کا ہوا جو ان سے پہلے گزرے، انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایاتو اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انھیں پکڑ لیا اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے) (10 تا 11) قبولیتِ حق میں اصل رکاوٹ آیت 4 میں پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کیا ہے یعنی وہ ان پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں اور اللہ کی آیات کی تکذیب کو انھوں نے اپنا معمول اور مشغلہ بنا لیا ہے وہ قیامت کے دن سخت عذاب کا شکار ہوں گے۔ اللہ کی آیات سے مراد قرآن کریم ہے کیونکہ اسلامی دعوت کی بنیاد قرآن کریم کی دعوت پر ہے اور قرآن کریم پر ایمان آنحضرت ﷺ پر ایمان کا جزء اور توحید کا نتیجہ ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں انہی لوگوں کے ایمان نہ لانے کے حقیقی اسباب بیان فرمائے گئے ہیں۔ سابقہ آیات کریمہ سے یہ معلوم ہوا تھا کہ ان لوگوں کا قرآن کریم پر ایمان نہ لانے کا اصل سبب آیات متشابہات ہیں۔ وہ بجائے آیات محکمات سے فائدہ اٹھانے کے ‘ آیات متشابہات کے درپے ہوئے ‘ خود بھی فتنہ میں مبتلا ہوئے اور لوگوں کو بھی اس میں مبتلا کیا اور وہ اپنے انکار کی بنیاد اسی بات پر رکھتے تھے کہ جس کتاب کی بعض آیات کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں ‘ اس پر آخر ہم ایمان کیوں لائیں ؟ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں بتلایا گیا ہے کہ ان کے ایمان نہ لانے کا سبب آیات متشابہات کا ناقابلِ فہم ہونا نہیں کیونکہ جو شخص آیات محکمات پر یقین رکھتا ہے اور وہ انھیں منزل من اللہ مانتا ہے تو اس کے ایمان کے لیے آیات متشابہات رکاوٹ نہیں بنتیں { اور ہم اس سے پہلے اس کی وضاحت کرچکے ہیں } ان کے ایمان نہ لانے کا سبب درحقیقت وہی ہے جو ہر دور کے کافروں کا رہا اور ہر دور کے کفار نے کبھی اسے تسلیم نہیں کیا وہ اسباب کے طور پر ہمیشہ دوسری باتوں کا ذکر کرتے رہے۔ اللہ کے نبی کو کبھی شاعر کہتے ‘ کبھی کاہن قرار دیتے ‘ کبھی ساحر اور شعبدہ باز ٹھہراتے ‘ لیکن جو اس کا حقیقی سبب ہے اس کے ذکر سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ یہاں اسی حقیقی سبب کو بالواسطہ بیان کیا جا رہا ہے کہ جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ہے انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی مال اور اولاد سے حد سے بڑھی ہوئی محبت اللہ کے عذاب سے انھیں بچا نہیں سکے گی۔ اس میں کہنا یہ مقصود معلوم ہوتا ہے تم جو آج اسلام کی دعوت اور قرآن کریم کو قبول کرنے کے بجائے اس کا انکار کرتے ہو جبکہ قرآن کریم کی حقانیت سورج سے زیادہ روشن ہے۔ اس کے الفاظ کی فصاحت و بلاغت ‘ اس کے جملوں کا در و بست ‘ اس کی ترکیب کا حسن ‘ اس کے محاوروں کا جمال اور اس کے اسلوبِ کلام کی شیرینی اور ہیبت اور پھر اس کلام کے اندر باہمی حیرت انگیز نظم و ضبط اور اس میں بیان کیے جانے والے نظام زندگی کی یکسانی اور ہم آہنگی اور ہر طرح کے اختلاف اور تضاد سے پاکیزگی ہر قاری کو اپنی تاثیر اور تأ ثر میں کھینچ لیتی اور اپنی سحر آفرینی سے مسحور کردیتی ہے اور پھر صاحب قرآن کی دل آویز شخصیت کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھوں پر ظاہر ہونے والے معجزات اور اس کی غیر معمولی کامیابیاں اور مخالفتوں کے مقابلے میں حیرت انگیز استقامت ‘ ان میں سے ایک ایک بات مخاطب کے لیے اپنے اندر ایک ایسی قاطع دلیل رکھتی ہے جس کا جواب ممکن نہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود جو شخص قرآن پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ مال و دولت اور اولاد کی محبت نے اس کے دل و دماغ میں کسی اور بڑے مقصد کے لیے جگہ نہیں رہنے دی۔ وہ ہر وقت دولت کے لیے سوچتا اور دولت کے حصول کے لیے جان کھپاتا ہے۔ اولاد کا موہوم مستقبل ہمیشہ اسے پریشان رکھتا ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی انہی دو محبتوں کے سائے میں اس طرح گزارتا ہے کہ اس کی نگاہوں میں کوئی اور چیز جچنے نہیں پاتی۔ دولت کے حصول اور اپنی اولاد کی بھلائی کے لیے اگر انسانی رشتے توڑنے پڑیں ‘ اخلاقی قدریں پامال کرنی پڑیں ‘ عدل اور انصاف کا خون کرنا پڑے ‘ ملک و ملت سے غداری کرنا پڑے ‘ وہ یہ سب کچھ کر گزرے گا تاکہ مال و اولاد کی محبت کا حق ادا کرسکے۔ اپنے گرد و پیش میں نظر ڈال کے دیکھئے کہ وہ خونی رشتے جو محبت اور مودت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں انھیں بھی جب مال و دولت یا اولاد کی محبت سے تقابل پیش آتا ہے تو ان رشتوں کے خون کو بھی سفید ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ آدمی اپنے بیوی بچوں اور مال و دولت کے لیے اپنے ماں باپ اور اپنے بہن بھائیوں کو نظر انداز کردیتا ہے اور چند مرلے زمین یا چند گز کی دکان کے عوض اپنے بھائیوں حتیٰ کہ اپنے والدین تک کو بھی موت کی نیند سلا دینے سے خوف نہیں کھاتا۔ اخبارات ایسی خبروں سے بھرے رہتے ہیں کہ چند ٹکوں کی خاطر بھائی نے بھائی کو مار ڈالا۔ تو جو شخص چند ٹکوں کے لیے خون بہا سکتا ہے ‘ جب یہی ٹکے اور یہی درہم و دینار اس کا مقصود بن جائیں تو وہ کسی نظریئے اور کسی مقصد کی خاطر انھیں قربان کرنے کی کبھی حماقت نہیں کرسکتا۔ البتہ ! ان کی خاطر بڑے سے بڑے مقصد سے دستبردار ہوجائے گا۔ سقوط بغداد ہوس زر اور ہوس اقتدار کی وجہ سے پیش آیا۔ ایک شخص نے اپنے اقتدار کی حفاظت بلکہ اس میں ترقی کے لیے مسلمانوں کی تاریخ پامال کر ڈالی۔ بر صغیر میں سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو باوقار اور غیرت مند حکمران گزرے ہیں ‘ لیکن ان کے مقابلے میں انگریز کی نسبتاً حقیر قوت نے اس لیے ان پر فتح پائی کہ ان کے قلعوں کی چابیاں ان لوگوں کے ہاتھ میں تھیں جو درہم و دینار اور کرسی و اقتدار کی ہوس میں مسلمانوں کے مفادات کا سودا کرچکے تھے۔ آج بھی ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں کہ مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں ‘ قرآن و سنت کے مراکز مسلمانوں کے ہاتھوں اجاڑے جا رہے ہیں ‘ ہماری بڑی بڑی علمی و دینی شخصیتیں اپنے ہی لوگوں کی سازشوں سے موت کے گھاٹ اتاری جا رہی ہیں۔ ان انسانیت دشمنوں کے طور اطوار کو ملاحظہ فرمایئے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ مال و اولاد کی محبت کس قدر انسان کو بدل دیتی ہے اور عہدہ و منصب کی درازی کی ہوس آدمی سے کیا کیا کروا دیتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں اسی حقیقت کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ لیکن براہ راست بات کہنے کی بجائے بالواسطہ انداز اختیار فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ قرآن سے کفر کررہے ہیں اور ان کے کفر کا سبب مال اور اولاد کی محبت ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ قیامت کے دن جب انھیں اللہ کے عذاب سے سابقہ پیش آئے گا تو نہ مال ان کے کام آئے گا، نہ اولاد ان کے کام آئے گی اور اس بات کو مزید مؤکد کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں کا حال کوئی پہلا حادثہ نہیں بلکہ ان سے پہلے جو قومیں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئی ہیں وہ بھی اسی بیماری کا شکار تھیں اور یہی اسباب تھے جن کی وجہ سے وہ اللہ کے نبیوں اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان نہ لاسکے۔ پھر بطور خاص آل فرعون کی مثال دی کہ موسیٰ (علیہ السلام) جیسا جلیل القدر پیغمبر جس کے ہاتھوں بڑے بڑے معجزات کا صدور ہوا اور فرعون اور آل فرعون نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا ‘ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے اور انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو سحر اور جادو قرار دیا اور آپ پر عجیب عجیب اتہامات باندھے ‘ کئی سالوں تک موسیٰ (علیہ السلام) نے مسلسل فرعون اور آل فرعون کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی ‘ لیکن فرعون اور آل فرعون اپنے تخت و تاج کی محبت اور اپنی قومی عصبیت کے باعث موسیٰ (علیہ السلام) کی بات ماننے کے روادار نہ ہوئے۔ وہ بار بار آپ پر الزام لگاتے کہ تم درحقیقت نبوت کے پردے میں مصر کی حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے ہو۔ جب ان کا کفر اور جحود اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور انھوں نے موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) اور آپ کی قوم پر مظالم کی انتہا کردی تب پروردگار نے انھیں ان کے گناہوں کی پاداش میں پکڑا ‘ یعنی انھیں بحر قلزم میں ڈبو کے مار دیا۔ تو فرعون اور آل فرعون کی تاریخ اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ اقتدار کی ہوس میں اندھے ہوجاتے ہیں اور اولاد کی محبت انھیں اپاہج بنا دیتی ہے تو وہ حق کو قبول کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ بالآخر اللہ کا عذاب حرکت میں آتا ہے اور انھیں تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔ شَدِیْدُالْعِقَابِ کا مفہوم آخر میں فرمایا وَاللّٰہُ شَدِیْدُالْعِقَابِ (اور اللہ سخت عذاب اور سزا دینے والا ہے) وہ پیغمبر اور کتاب پر ایمان نہ لانے والوں کو مہلت پہ مہلت دیتا چلا جاتا ہے ‘ لیکن جب وہ کسی طرح بھی مال و دولت کی محبت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے تو ان کے اعمال کی پاداش میں انھیں وہ سزا دی جاتی ہے جو سخت ترین سزا ہوتی ہے۔ یہ اس کا ایک ایسا قانون جس میں کبھی پس و پیش نہیں ہوتا۔ جس طرح اللہ کے قانونِ تکوینی میں اسباب کا نتیجہ ضرور ظاہر ہوتا ہے اسی طرح اس کے تشریعی قانون میں کفر ‘ سرکشی اور تمرد کے نتیجے میں اللہ کا عذاب ضرور حرکت میں آتا ہے۔ مہلت دینا اللہ کی رحمت کا تقاضا ہے تاکہ کوئی آدمی سنبھلنا چاہے تو سنبھل جائے ‘ لیکن جب مہلت عمل کا وقت گزر جاتا ہے تو پھر اسی قانون کے تقاضے کے طور پر اللہ کا عذاب آتا ہے اور وہ سخت ترین عذاب ہوتا ہے۔ ان بنیادی حقائق کو ذکر کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ اپنے مخالفین بالخصوص یہود کو وارننگ دیجیے
Top