Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
جو لوگ کافر ہوئے (اس دن) نہ تو ان کا مال ہی خدا (کے عذاب) سے ان کو بچاسکے گا اور ان کی اولاد ہی (کچھ کام آئے گی) اور یہ لوگ آتش (جہنم) کا ایندھن ہوں گے
مال واولاد کے نشہ میں حق سے استغنا پر وعید اور تہدید۔ قال تعالی، ان الذین کفروا لن تغنی عنھم۔۔۔ الی۔۔۔ الابصار۔ ربط) ۔ یہ آیتیں بھی نصارائے نجران کے بارے میں نازل ہوئیں دلائل اور براہین سے حق ان پر واضح ہوچکا تھا مگر مال و دولت کے غرور اور نشہ نے ان کو قبول حق اور قبول ہدایت سے باز رکھا اس لیے ان ارباب غرور کی وعید اور تہدید کے لیے یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ آخرت میں مال اور اولاد کچھ کام نہیں آئیں گے اور پھر یہ ارشاد فرمایا کہ اب ان کافروں سے یہ کہہ دیں کہ یہ لوگ عنقریب دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھ سے مغلوب ہوں گے اور قیامت کے دن جہنم میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر واقعہ بدر کو ان کی عبرت کے لیے ذکر فرمایا محمد بن اسحاق کی سیرت میں ہے کہ نصارائے نجران کا وفد جب بغرض مناظرہ مدینہ منورہ روانہ ہوا تو راستہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ان کا بڑا عالم ابوحارثہ بن علقمہ خچر پر سوار تھا یکایک خچر کو ٹھوکرلگی اور وہ عالم سواری سے گرا تو اس کے بھائی کرز بن علقمہ کی زبان سے نکلا تعس الابعد یعنی ہلاک ہو وہ شخص جس کے ہم پاس جارہے ہیں اس نے الابعد سے نبی ﷺ کو مراد لیا، العیاذ بااللہ۔ ابوحارثہ نے کہا بلکہ تو ہلاک ہو کیا تو ایسے شخص کی شان میں نازیبا الفاظ کہتا ہے جو رسولوں میں سے ہے تحقیق بلاشبہ آپ وہی نبی ہیں جن کی عیسیٰ بن مریم نے بشارت دی ہے اور جن کا تذکرہ توریت میں ہے اور خدا کی قسم یہ وہی نبی ہیں جن کے اخیرزمانہ میں ظہور کے ہم سب منتظر ہیں۔ اس پر ابوحارثہ کے بھائی کرز نے کہا، کہ جب تم کو ان کی نبوت اور رسالت کا اس درجہ علم اور یقین ہے تو پھر ایمان لانے سے کیا چیز مانع ہے۔ ابوحارثہ نے جواب دیا کہ ہم ایمان اس لیے نہیں لاتے کہ ان عیسائی بادشاہوں نے جو بیشمار اموال ہم کو دے رکھے ہیں اور ہمارا اعزاز واکرم کرتے ہیں اگر ہم آپ پر ایمان لائیں گے تو یہ سب ہم سے چھین لیں گے۔ یہ کلمہ کرز کے دل میں اتر گیا اور یہ کہا کہ خدا کی قسم جب تک مدینہ پہنچ کر ایمان نہ لے آؤں گا اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھوں گا اور کرز اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوا اونٹنی کو تیز کیا اور بطور جزیہ پڑھتا جاتا تھا، الیک تغدو قلقا وضینھا، معترضا فی بطنھا جنینھا۔ آپ ہی کی طرف یہ اونٹنی چل رہی ہے دراں حالیکہ اس کا تنگ حرکت کررہا ہے اور اس کے پیٹ میں اس کا جنین حرکت کررہا ہے۔ اب اس اونٹنی کا (عینی اس کے سوار کا) دین، نصاری کے دین کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ کرز وفد سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گیا اور مشرف باسلام ہوا اور وفد بعد میں پہنچا (طبقات ابن سعد ص 108 ج 1، وروض الانف ص 45 ج 4، ترجمہ کرز بن علقمہ) ۔ اور مشرف باسلام ہونے کے بعد کرز نے حج بھی کیا۔ خلاصہ کلام۔ یہ کہ یہ آیتیں اسی وفد کے بارے میں نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس مال کے لالچ میں تم نے ایمان سے روگردانی کی ہے وہ قیامت کے دن کچھ کام نہیں آئیگا اور جن سلاطین اور امراء پر تم کو بھروسہ ہے وہ عنقریب مسلمانوں کے ہاتھوں سے مقہور اور مغلوب ہوں گے اور تمہارا تو ذکر ہی کیا چناچہ فرماتے ہیں تحقیق جن لوگوں نے کفر اور انکار کی راہ اختیار کی اللہ کے مقابلہ میں ان کے مال اور ان کی اولاد جس پر ان کو ناز اور فخر ہے ہرگز کچھ بھی کام نہ آئیں گے البتہ مسلمانوں کے مال اور اولاد آخرت میں کام آئیں گے اس لیے کہ مسلمانوں نے اپنے مال خدا کی راہ میں خرچ کیے اور اولاد کو اللہ کی عبادت اور دین کی تعلیم میں لگایا، اور ایسے کافر تو مع مال اور اولاد کے دوزخ کا ایندھن ہوں گے اور ان کا حال اور مآل تو فرعونیوں جیسا ہے کہ جس طرح دنیا میں فرعونیوں کو ان کے مال اور اولاد ان کو اللہ کے قہر سے نہ بچاسکے ان کی بھی ایسی گت بنے گی اور کچھ کام نہ آئے گا اور جس طرح ان سے پہلے لوگوں نے یعنی قوم عاد اور ثمود اور قوم لوط نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا پس اللہ نے ان کو ان کے جرائم کی بناء پر پکڑا اور ہلاک کیا ان کا سارا مال ومتاع اور اولاد دھری رہ گئی اگر تم نے حق کو قبول نہ کیا تو سمجھ لو کہ تمہارا بھی یہی انجام ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت سخت ہے جس کے مقابلہ میں مال اور اولاد کچھ کام نہیں دیتا اے نبی کریم آپ ان کافروں سے جو اپنے مال و دولت اور قوت اور کثرت پر نازاں ہیں یہ کہہ دیجئے کہ تم عنقریب اسی دار دنیا میں ہمارے دوستوں کے ہاتھ سے مغلوب اور مقہور ہوؤ گے اشارہ اس طرف ہے کہ بنوقریظہ اور بنونضیر جلا وطن کیے جائیں گے اور خیبر اور مکہ فتح ہوگا یہ ذلتیں تو ان منکرین کو دنیا میں پہنچیں گی اور آخرت کی بابت یہ فرمادیجئے کہ تم جہنم کی طرف جانوروں کی طرح ہانکے جاؤ گے اور دوزخ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے چونکہ کفار اپنے مال اور اولاد یعنی قوت اور کثرت اور ثروت پر نازاں تھے اور یہ کہتے تھے کہ نحن اکثر اموالا واولادا ومانحن بمعذبین اور یہ خیال کرتے تھے کہ دنیا کی طرح آخرت میں بھی مال اور اولاد کام آئیں گے کماقال تعالیٰ حکایت عنہم، افرء یت الذی کفر بایتنا وقال لاوتین مالاو ولدا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان آیات میں متنبہ فرمایا کہ مال و دولت صرف آخرت ہی میں بےسود نہ ہوگی بلکہ بسا اوقات وہ دنیا میں بھی سود مند اور کارآمد نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ جس کو غلبہ دینا چاہتے ہیں اس کے مقابلہ میں ساری قوت اور ثروت اور کثرت دھری رہ جاتی ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے جو پیش گوئی فرمائی تھی چند روز کے بعد وہ حرف بحرف پوری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھ سے بنوقریظہ اور بنونضیر کو مقہور اور مغلوب کیا اور خیبر اور مکہ انہی فقراء مسلمین کی ہاتھوں پر فتح ہوا جن کو یہ حقیر سمجھتے تھے۔ ذکر استشہاد برائے دفع استبعاد۔ حق جل شانہ نے جب گزشتہ آیت (قل للذین کفروا ستغلبون، الخ) میں مسلمانوں کے غلبہ کی خبر دی تو منافقین نے اس کو مستبعد سمجھا تو اللہ نے ان کے استبعاد دفع کرنے کے لیے بطور استشہاد واقعہ بدر کو مذکور فرمایا چناچہ فرماتے ہیں کہ تحقیق تمہارے لیے دو جماعتوں کے بارے میں ایک عبرت اور عجیب نمونہ قدرت ہے کہ جو باہم ایک دوسرے سے لڑیں اس معرکہ اور لڑائی میں ایک جماعت تو وہ تھی کہ جو خدا کی راہ میں لڑتی تھی یعنی مسلمانوں کی جماعت تھی جن کی تعداد تین سوتیرہ تھی اور بےسروسامان تھی اور دوسری جماعت کافروں کی تھی جن کی تعداد نوسو پچاس تھی جو جنگی سازوسامان سے لیس تھی ور جس کو اپنی قوت اور شوکت اور کثرت اور ثروت پر ناز تھا بدر کے میدان میں دونوں جماعتوں کا مقابلہ ہوا عین مقابلہ اور مقاتلہ کے وقت یہ کافر کھلی آنکھوں سے مسلمانوں کو اپنے سے دوچند دیکھتے تھے یعنی مسلماں کافروں کو دوچند (تقریبا دوہزار) دکھائی دیتے تھے جس سے کافروں کے دل مرعوب اور خوف زدہ ہوگئے اور یہ اس طرح کا دیکھنا صریح اور کھلی آنکھوں سے تھا کوئی خواب و خیال نہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ قلیل کو کثیر اور کثیر کو قلیل کردکھلائے حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے احول کو ایک کے دو دکھلاتا ہے یہ کوئی کذب اور دروغ نہیں بلکہ اس کی قدرت کا کرشمہ ہے جس طرح خوردوبین اور دوربین سے چھوٹی چیزبڑی نظر آنے لگتی ہے تو یہ جھوٹ نہیں بلکہ کاری گری اور صنعت کا کمال ہے چناچہ بہت سے لوگ جو بعد میں مشرفب اسلام ہوئے انہوں نے یہ بیان کیا کہ مسلمان ہم کو تعداد میں بہت نظر آئے اسیطرح سمجھو کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اپنے دشمنوں کو وقتی طور پر دو درجہ کا بھینگا بنادے کہ بجائے کہ ایک ایک کے تین نظرآنے لگے تو یہ کوئی کذب اور دروغ نہیں بلکہ اس کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے۔ فائدہ) ۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے مسلمان کافروں کی نظر میں تھوڑے دکھائی دیتے تھے جیسا کہ سورة انفال میں ہے ویقللکم فی اعینہم، یعنی اے مسلمانوا۔ اللہ تعالیٰ تم کو کافروں کی نظر میں تھوڑا کر کے دکھلاتا تھا لیکن جب اس کے بعد گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی تو کافر، مسلمانوں کو خود اپنے سے بھی دو چند دیکھنے لگے پس اس آیت میں عین جنگ کے وقت کا ذکر ہے اور سورة انفال میں جنگ چھیڑنے سے پہلے کا ذکر تھا لہذا دونوں آیتوں میں کوئی تعارض اور نتاقض نہیں رہا اور اللہ تعالیٰ اپنی امداد سے جس کو چاہتے ہیں قوت دیتے ہیں اور فتح اور غلبہ کا اصل مدار تائید خداوندی پر ہے تائید خداوندی کے مقابلہ میں کوئی طاقت اور قوت غالب نہیں آسکتی جیسا کہ تم نے بدر کے معرکے میں اس کا مشاہدہ کرلیا تحقیق اس بدر کے واقعہ میں آنکھ والوں کے لیے بڑی عبرت اور نصیحت ہے کہ کس طرح ایک کمزور اور بےسروسامان گروہ ایک پوری قوت اور شوکت والے گروہ پر غالب آگیا وجہ اس کی یہ تھی کہ تائید خداوندی اور امداد غیبی مسلمانوں کے ساتھ تھی اور خدا کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا اس لیے تم کو چاہیے کہ تم اپنے مال و دولت کے غرور سے تائب ہو کر اس جماعت میں داخل ہوجاؤ کہ جن کے ساتھ تائید خداوندی ہے۔ فائدہ۔ آیت یرونھم مثلیھم کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں پہلاقول یہ ہے کہ یرون کے ضمیر فاعل فءۃ کافرۃ کی طرف راجع ہے جو قریب ہے اور ھم کی ضمیر مفعول مسلمانوں کی طرف راجع ہے اور مثلیھم کی ضمیر مجرور کافروں کی طرف راجع ہے یعنی کافروں کا گروہ مسلمانوں کو اپنے دوچند دیکھتا تھا تفسیر میں ہم نے اسی قول کو اختیار کیا ہے دوسراقول یہ ہے کہ یرون لیکن مثلیھم کی ضمیر مجرور بجائے کافروں کے مسلمان کی طرف راجع ہو اور معنی یہ ہوں کہ کافر مسلمانوں کو مسلمانوں کے اعتبار سے دوچند دیکھتے تھے یعنی مسلمان کافروں کی نظر میں بجائے تین سوتیرہ کے چھ سو چھبیس دکھائی دیتے تھے مقصود یہ تھا کہ کافر جب مسلمانوں کی ایک عظیم تعداد دیکھیں گے تو مرعوب ہوجائیں گے، تیسرا قول یہ ہے کہ یرون کی ضمیر فاعل مسلمانوں کی طرف راجع ہو اور ھم کی ضمیر مفعول کافرون کی طرف راجع ہوا اور مثلیھم کی ضمیر مجرور مسلمانوں کی طرف راجع ہو اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مسلمان کافروں کو اپنے سے دوچند دیکھتے تھے یعنی کافر مسلمانوں کی نظر میں چھ سو چھبیس دکھائی دیے کفار اگرچہ فی الواقع مسلمانوں سے سہ چند تھے مگر مسلمان ان کو اپنے سے صرف دوچند دیکھتے اور سمجھتے تھے کیونکہ بہادر اور جری طبیعتیں اپنے سے دوچند سے مقابلہ کرنے کو معمولی بات سمجھتے ہیں لیکن دوچند سے زیادہ کا مقابلہ باعث تشویش اور پریشانی ہوتا ہے چوتھا قول اور یہ درحقیقت قول نہیں بلکہ محض احتمال ہے وہ یہ کہ یرون کی ضمیر فاعل مسلمانوں کی طرف راجع ہو اور ھم اور مثلیھم کی دونوں ضمیریں کافروں کی طرف راجع ہوں اور معنی یہ ہوں کہ مسلمان، کافروں کو کافروں سے دوچند دیکھتے تھے یعنی کافر مسلمانوں کو تقریبا دوہزار دکھائی دیتے تھے اور اس قول کا کوئی قائل نہیں محض احتمال عقلی ہے جو غیر معقول بھی ہے کہ اس لیے کہ جب مسلمان کافروں کو دوہزار کی تعداد میں دیکھیں گے تو طبعی طور پر مرعوب ہوجائیں گے تفصیل کے لیے تفسیر کبیر کی مراجعت کریں۔
Top