Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 83
وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّكَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کریں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ایک گروہ فَوْجًا : ایک گروہ مِّمَّنْ : سے۔ جو يُّكَذِّبُ : جھٹلاتے تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو فَهُمْ : پھر وہ يُوْزَعُوْنَ : انکی جماعت بندی کی جائے گی
اور (اے پیغمبر اسلام ! ) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک جماعت کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتی تھی جمع کریں گے پھر وہ مختلف جماعتوں میں تقسیم کردیئے جائیں گے
ہم ہر امت سے ایک گروہ اکٹھا کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلانے والوں پر مشتمل ہوگا : 83۔ پیچھے ذکر محمد رسول اللہ ﷺ کا چلا آرہا تھا اور آپ ﷺ کو ہدایات اور تسلی دی جا رہی تھی کہ مضمون کو قیامت کے روز کی طرف منتقل کردیا گیا اور قیامت سے جس طرح کا تعلق نبی اعظم وآخر ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کا ہے بالکل اسی طرح دوسرے انبیائیکرام (علیہ السلام) اور رسل عظام (علیہ السلام) اور انکی امتوں کا بھی ہے چونکہ آپ ﷺ کی امت کا ذکر جاری تھا اس لئے وضاحت فرما دی کہ یہ بات نبی اعظم وآخر ﷺ کی امت ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے سارے نبیوں اور رسولوں کی امتوں کا مسئلہ ہے اس لئے ارشاد فرمایا کہ اس دن یاد رکھو جب ہم ہر امت میں سے اپنی آیات کی تکذیب کرنے والوں کے گروہوں کو اکٹھا کرلیں گے اور ان سب کی درجہ بندی کردی جائے گی خواہ وہ زمانہ اور وقت کے لحاظ سے ہوگی اور خواہ نوعیت جرم کے لحاظ سے اور پھر جو پارٹی جس سزا کی مستحق قرار پائے گی ان سب کو ایک جیسی سزا سنا دی جائے گی اور اس طرح ان سب کو دوزخ کے الگ الگ درکات میں رکھا جائے گا اور یہ بات پہلے واضح کی جا چکی ہے کہ جس طرح جنت کے لئے درجات کا لفظ بولا جاتا ہے کہ اس کے درجات اوپر سے اوپر کی طرف ہوں گے اس طرح دوزخ کے لئے درکات کا لفظ استعمال ہوتا ہے کیونکہ دوزخ کے درکات نیچے سے نیچے کی طرف چلیں گے اور پھر یہ بھی کہ زیر نظر آیت میں فرجا کا لفظ بول کر وضاحت کردی کہ ہر امت اور ہر قوم میں ان کی تعداد بہت ہوگی لیکن کثرت کے جمع کرنے کے لئے ہمیں کوئی زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ایک ہی آرڈر جس طرح ایک کے لئے ہوتا ہے سب کے لئے ہوتا ہے اس لئے اس طرح ان سب کے جمع کرنے میں کوئی زحمت پیش نہیں آئے گی ، بات تو بالکل صاف تھی لیکن مثل ہے کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے ، فرقہ بندی تو پہلے شرک ہے لیکن اسلامی گروہوں میں جو ناپاکی شیعوں میں ہے شاید ہی کسی دوسرے فرقہ میں ہوگی بلکہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کسی اور میں اس قدر نہیں ہوگی ، یہ بات اس لئے یہاں عرض کرنا پڑی کہ اس زیر نظر آیت سے شعیوں نے رجعت کا عقیدہ اخذ کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ امام مہدی کے ظہور کے وقت ان لوگوں کو جنہوں نے ان کے خیال میں آئمہ اہل تشیع کے ساتھ زیادتی کی ہے دوبارہ اس دنیا میں لایاجائے گا اور اس وقت کے مومنوں کو بھی تاکہ ان کی سزا ملے تو مومن خوش ہوں ، غور کیجئے کہ انسان اپنے مذہب و عقیدہ کی اپچ میں کیا کچھ ہے جو نہیں کہہ گزرتا اس سے بڑھ کر کیا کوئی تحریف ہو سکتی ہے کہ اگر لفظوں میں ممکن نہیں تو مفہوم پر تو کوئی قید نہیں چاہے وہ فرقہ کے مذہبی رہنما کسی طرح قرار دے لیں فرقہ والوں کو اب اسے تسلیم کرنا ہے حالانکہ قرآن کریم میں ایک یا دو نہیں بیسیوں آیات کریمات واضح دلائل پیش کر رہی ہیں کہ مردوں کو دوبارہ اس دنیا میں واپس آنے کو منع کردیا گیا ہے اور یہ قانون خداوندی کے بالکل خلاف ہے لیکن چونکہ اہل سنت کا بھی جب جی چاہے اور جس کے متعلق جی چاہے وہ واپس دنیا میں زندہ کر کے لے آتے ہیں اس لئے دوسروں کے لئے بھی پھر کیا پابندی ہوگی لہذا انہوں نے ان کے مقابلہ میں اپنے سارے گروہ کو لاکھڑا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے حالانکہ ان کا سارا عقیدہ ہی نار عنکبوت ہے جس کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں لیکن ان کے ساتھ اہل سنت کے اس عقیدہ کا بھی وہی حال ہے جو اہل تشیع کا ہے رہی اہل تشیع کے عقیدہ کی گندگی کی بات تو وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے نہ اس کے کفر میں کوئی شک کی بات ہے اور نہ عقیدہ کی گندگی میں ۔
Top