Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو کہ یقین کرتے ہیں بےدیکھی چیزوں کا4 اور قائم رکھتے ہیں نماز کو5  اور جو ہم نے روزی دی ہے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں6
4 ۔ متقین کی پہلی صفت، یومنون، ایمان سے ماخوذ ہے اور ایمان کے معنی دل سے ماننے اور تصدیق کرنے کے ہیں (قرطبی ص 162 ج 1) اور غیب ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو حس و عقل کی رسائی اور دسترس سے ماورا ہو۔ ما لا یقع تحت الشعور ولا تقضیہ بداھۃ العقل (روح المعانی ص 114 ج 1) وھو قول جمہور المفسرین ان الغیب ھو الذی یکون غائباً عن الحاسۃ (تفسیر کبیر ص 250 ج 1) اور یہاں غیب سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کا ادراک عقل وحس سے ناممکن ہے اور ان کے متعلق جو کچھ بھی معلوم ہے وہ پیغمبر خدا ﷺ کی اطلاع واخبار ہی سے معلوم ہے۔ مثلاً ذات باری تعالی، فرشتے، کتب سماویہ، انبیائے متقدمین علیہم السلام، احوالِ برزخ، علامات قیامت، حشر ونشر، صراط ومیزان، جنت و دوزخ وغیرہ۔ کل ما اخبر بہ الرسول (علیہ السلام) مما لا تھتدی الیہ العقول من اشراط الساعۃ و عذاب القبر والحشر والنشر والصراط والمیزان والجنۃ والنار الخ (قرطبی ص 163 ج 1) انہ ما اخبر بہ الرسول ﷺ فی حدیث جبریل (علیہ السلام) وھو اللہ تعالیٰ و ملائکتہ ورسلہ والیوم الاخر والقدر خیرہ وشرہ الخ (روح المعانی ص 114 ج 1، ابن کثیر ص 41 ج 1، قرطبی ص 163 ج 1، ابن جریر ص 78 ک 1) تو آیت کا ماحصل یہ ہوا کہ وہ لوگ ان تمام امور کو جو ان کی عقل وفہم اور حس وادراک سے باہر ہیں، محض پیغمبر (علیہ السلام) کی اطلاع پر سچا مانتے اور ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ عالم غیب کی تمام اشیاء اور ان سے متعلق احوال و کوائف مثلاً عالم برزخ اور مابعد الحشر کی تفصیلات و کوائف کو مخبر صادق ﷺ کے بیان کے مطابق ہی مانا جائیگا۔ ظن وتخمین اور عالم شہادت پر قیاس کے ذریعے عالم غیب کی کوئی چیز ثابت نہیں کی جاسکتی۔ عالم غیب کے امور جو نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں مثلاً عذاب قبر، حشر ونشر وغیرہ ان کا انکار کفر اور جو امور دلائل ظنیہ سے ثابت ہیں مثلاً زندوں کے بعض اعمال سے مردوں منتفع ہونا (مثلاً ایصالِ ثواب) امت کے صلوۃ وسلام کا حضور ﷺ کو پہنچنا، اور عالم برزخ میں ارواح کا اجساد مثالیہ میں متمثل ہو کر عبادات اور دیگر افعال بجالانا وغیرہ ان کا انکار بدعت ہے اور وہ امور جن کی بنیاد محض ضعیف اور بالکل کمزور روایتوں پر ہو ان کے انکار سے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ ایسے امور کے ردوقبول میں قرآنی ارشادات اور صحیح روایتوں سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔ مردوں کا سننا، امت کے اعمال کا نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے سامنے پیش ہونا وغیرہ ایسے ہی امور ہیں۔ ان امور کی پوری تحقیق اپنی اپنی جگہ آئے گی۔ 5: متقی لوگوں کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ نماز قائم رکھتے ہیں۔ نماز قائم رکھنے سے اس کو اس کے تمام فرائض وواجبات، سنن ومستحبات اور حقوق وآداب کے ساتھ ادا کرنا مراد ہے۔ یا تون بحقوقھا (تفسیر جلالین ص 4) عن ابن عباس اقامۃ الصلوۃ اتمام الرکوع والسجود والتلاوۃ والخشوع والاقبال علیھا فیہا وقال قتادۃ اقامۃ الصلوۃ المحافظۃ علی مواقیتھا ووضوئھا ورکوعھا وسجودھا (ابن کثیر ص 42 ج 1) اقام تھا عبارۃ عن تعدیل ارکانھا وحفظھا من ان یقع خلل فی فرائضھا وسننھا وادابھا، (تفسیر کبیر ص 251 ج 1) ان عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک باطنی حقیقت، ظاہری صورت تو یہ ہے کہ شرع طریقہ کے مطابق نمازی کا بدن، اس کے کپڑے اور نماز پڑھنے کی جگہ پاک ہو۔ اور نماز کو اس کے تمام ظاہری ارکان وآداب کی شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے ادا کیا جائے اور نماز کی باطنی صورت یہ ہے کہ نماز کو فریضہ خداوندی سمجھ کر محض رضائے مولی کی کی خاطر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے اور نماز کے دوران نماز ہی کو اپنے دل کی توجہ کا مرکز بنایا جائے۔ خیالاتِ فاسدہ اور وساوس شیطانیہ سے دل کو خالی اور پاک رکھا جائے۔ لہذا نماز کو ان تمام ظاہری اور باطنی حقوق کے ساتھ ادا کرنے کا نام اقامتِ صلوۃ ہے اور یہی متقین کی دوسری صفت ہے۔ اس صفت میں جس قدر کمال یا نقص ہوگا اسی قدر اتقاء میں فرق پڑجائے گا۔ 6: یہ متقین کی تیسری صفت ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے زکوۃ مراد لی ہے مگر اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ آیت اپنے عموم پر ہی محمول ہے اور تمام حقوق مالیہ کی ادائیگی کو شامل ہے خواہ وہ واجب ہوں یا غیر واجب، مثلاً زکوۃ، نفلی صدقہ، قربانی، اپنی ذات اور اہل و عیال پر خرچ وغیرہ۔ واولی لتاویلات بالایۃ واحقھا بصفۃ القوم ان یکون کانوا لجمیع اللازم فی اموالھم مودین زکوۃ کان ذلک او نفقۃ من لزمتہ نفقتہ من اھل و عیال وغیرھم ممن تجب علیہم نفقتہ بالقرابۃ والملک وغیر ذلک (ابن جریر ص 80 ج 1، ابن کثیر ص 42 ج 1) ویدخل فیہ انفاق الواجب کالزکوۃ و النذر والانفاق علی النفس وعلی من تجب نفقتہ علیہ والانفاق فی الجھاد واذا وجب علیہ والانفاق فی لمندوب وھو صدقۃ التطوع ومواساۃ الاخوان وھذہ کلھامما یمدح بھا (خازن ص 26 ج 1) بلکہ آیت اس سے بھی زیادہ عموم کی متحمل ہے۔ لفظ " ما " اپنے عموم اور وسعت کی وجہ سے ان تمام انعامات کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائے ہیں۔ خواہ مادی انعامات جیسے مال واولاد، دولت و ثروت اور قوت وصحت وغیرہ۔ خواہ علمی جیسے علم وہنر، عقل و حکمت اور فہم و فراست وغیرہ۔ لہذا اپنی قوت وصحت اور اولاد کے ذریعے دوسروں کی مدد کرنا، علم و حکمت سکھانا، مفید اور مخلصانہ مشوروں سے تعاون کرنا یہ سب اس آیت کے تحت داخل ہیں۔ (الانفاق البذل من النعم الظاھرۃ والباطنۃ وعلم لا یقال بہ ککنز لا ینفق منہ۔ روح المعانی ص 118 ج 1) ۔ وقال بعض المتقدمین فی تاویل قولہ تعالیٰ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَای مما علمناھم یعلمون (قرطبی ص 179 ج 1)
Top