Kashf-ur-Rahman - Al-Insaan : 2
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّا خَلَقْنَا : بیشک ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے اَمْشَاجٍ ڰ : مخلوط نَّبْتَلِيْهِ : ہم اسے آزمائیں فَجَعَلْنٰهُ : توہم نے اسے بنایا سَمِيْعًۢا : سنتا بَصِيْرًا : دیکھتا
ہم نے انسان کو ایک ایسے نطفہ سے بنایا جو اجزائے مختلفہ سے مرکب تھا اور اس طور پر بنایا کہ ہم اس کو آزمائش کریں پس ہم نے اس کو سنتا دیکھتا بنایا۔
(2) ہم نے انسان کو ایک ایسے نطفے سے بنایا جو اجزائے مختلفہ سے مخلوط اور مرکب تھا اور اس طور پر اور اس حال میں بنایا کہ ہم اس کی آزمائش کریں لہٰذا ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے جو تقریر اوپر کی ہے اس سے اس آیت کا خطاب خوف واضح ہوسکتا ہے مخلوط سے مراد یا تو عورت اور مرد کے نطفے کا اختلاط ہے یا یہ مطلب کہ نطفہ ہر حصہ جسم کا خلاصہ ہے اس لئے اس کو مخلوط فرمایا کیونکہ وہ نطفہ تمام انسانی جسم کا ست ہے یا اس وجہ سے مختلف کھیت اور باغ کی مٹی کا نچوڑ ہے من سلالۃ من طین اس لئے مختلف اجزا سے مرکب ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں امشاج یعنی ملایا ہوا کئی چیز سے عنی منی مرد کی اور عورت کی اور خون حیض کا تو سب مل کر وہی لچھی کہلایا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ہم اس کو آزمایں اور اس کو مکلف بنائیں اس واسطے اس کو سنتا اور دیکھتا بنایا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کو سمجھ اور شعور عطا فرمایا جو آزمائش کے لئے اور مکلف ہونے کے لئے ضروری اور لازمی چیز ہے قرآن نے صرف دو حاسوں کا ذکر فرمایا ہے چونکہ یہ دونوں باقی حواس سے اعظم اور اشرف ہیں۔ اور چونکہ عام طور سے سنتا دیکھتا عاقل ہی کو کہتے ہیں اس لئے عقل کا ذکر یہاں نہیں فرمایا لیکن مراد ضرور ہے نیز یہ آنکھیں دلائل قدرت کو دیکھنے اور کان آیات وجج سننے کے لئے ہوتے ہیں اس لئے ان دونوں کے ذکر کو اختیار کیا ۔ نبتیلہ کا بعض بزرگوں نے ترجمہ ہم پلٹتے رہے اس کو کیا ہے اس ترجمہ کا مطلب واضح ہے ترجمہ یوں ہے بنایا آدمی ایک بوند کے لچھے سے پلٹتے رہے اس کو یعنی نطفے کو خون بنایا پھر لوٹھرا پھر اعضا بنائے وغیرہ وغیرہ اور کئی اطوار و درجات میں الٹ پلٹ کرکے اس کو سنتا دیکھتا کردیا۔ (واللہ اعلم)
Top