Tafseer-e-Madani - Al-Insaan : 2
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّا خَلَقْنَا : بیشک ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے اَمْشَاجٍ ڰ : مخلوط نَّبْتَلِيْهِ : ہم اسے آزمائیں فَجَعَلْنٰهُ : توہم نے اسے بنایا سَمِيْعًۢا : سنتا بَصِيْرًا : دیکھتا
بلاشبہ ہم ہی نے پیدا کیا انسان کو ایک ملے جلے نطفے سے تاکہ ہم (مکلف بنا کر) اس کی آزمائش کریں سو (اس غرض کے لئے) ہم نے اس کو بنایا سننے والا دیکھنے والا
4 نطفۃ امشاج کا معنی و مطلب ؟: امشاج جمع ہے مشج اور مشیج کی جس کے معنی ملی جلی چیز کے آتے ہیں۔ اور یہ ان الفاظ میں سے ہے جو جمع ہونے کے باوجود مفرد کی صفت واقع ہوتے ہیں۔ سو انسان کی تخلیق ایک ملے جلے نطفے سے ہوتی ہے جو کہ ایک طرف تو مخلوط ہوتا ہے مرد اور عورت دونوں کے مادہ تولید سے ‘ دوسری طرف اس میں اختلاط و امتزاج ہوتا ہے طرح طرح کی غذاؤں دواؤں اور عناصر وغیرہ کا، اور یہ سب کچھ ایسے پر حکمت طریقے سے ہوتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور اس طور پر کہ جس ماں کے بطن میں یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے، اس کو بھی اس کی کوئی خبر تک نہیں ہوتی امشاج کے بارے میں جیسا کہ ابھی گزرا بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ جمع ہے مشج کی، جیسے اسباب جمع ہے سبب کی یا یہ جمع ہے مشج کی جیسے اکتف جمع ہے کتف کی، یا یہ جمع ہے مشیج کی جیسے انصار جمع ہے نصیر کی، جبکہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ لفظ اگرچہ ظاہری اعتبار سے جمع کی شکل پر ہے، لیکن یہ جمع نہیں مفرد ہے، کیونکہ یہ یہاں پر نطفہ کی صفت واقع ہوا ہے، جو کہ مفرد ہے، سو یہ ایسے ہی جیسا کہ کہا جاتا ہے برمۃ اعشار ثوب اخلاق اور ارض سباسب وغیرہ (المحاسن ‘ الجواہر وغیرہ) سو مختلف مزاج کی اشیاء کو اس اعتدال و توازن کے ساتھ باہم یکجا کردینا حضرت حق جل مجدہ کی قدرت و حکمت کا ایک عظیم الشان مظہر ہے۔ سو انسان ذرا سوچے اور خود اپنی ذات میں جھانک کر دیکھے کہ ایک بےقدرے پانی۔ مامہین۔ کی ایک حقیر بوند سے اس کی اس پر حکمت تخلیق کا آغاز کس نے کیا ؟ اور ان مختلف اطوار و مراحل سے گزار کر اس کو اس حد تک کس نے پہنچایا ؟ وہ کیسا قادر و حکیم اور رحیم و کریم ہے، اور اس کا اس انسان پر کیا حق ہے ؟ کیا اس نے اس کو یونہی عبث و بیکار پیدا کیا ہے ؟ کیا اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کے بارے میں اس انسان سے کوئی پرسش اور پوچھ نہیں ہوگی ؟ اور نہیں ہونی چاہیے ؟ اور کیا جس نے اس کو پہلی مرتبہ پیدا فرمایا اور اس کو نیست سے ہست کیا وہ اس کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم رکھے، آمین۔ 5 انسانی تخلیق کی غرض وغایت ابتلاء و آزمائش : سو ارشاد فرمایا گیا تاکہ ہم اس کی آزمائش کریں۔ پس " نبتلیہ " کا جملہ حال واقع ہوا ہے اور اس کا مطلب اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ای خلقناہ مبتلین لہ ای مریدین ابتلاہ لاعبثا ولا سدیی۔ یعنی " اس کو ابتلاء و آزمائش کیلئے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ عبث و بیکار " (محاسن التاویل وغیرہ) سو اس ارشاد میں فرمایا گیا کہ ہم نے اس کی آزمائش کرنی ہے تاکہ آزمائش میں پورا اترنے پر اس کو ابدی سعادتوں اور عنایتوں سے بہرہ ور کریں، اپنے لطف و کرم سے، اور ناکامی کی صورت میں یہ اپنے کئے کا بھگتان بھگتے اور ہمیشہ کیلئے بھگتا رہے، والعیاذ باللہ العظیم، کہ اس مخلوق کی پیدائش سے ہماری کوئی غرض وابستہ نہیں، بلکہ ہم اپنے بندوں پر کرم کرنا اور ان کو طرح طرح کی رحمتوں اور عنایتوں سے نوازنا چاہتے ہیں، جیسا شاعر نے اس بارے کہا اور خوب کہا ۔ من نہ کردم خلق تا سودے کنم۔ ولے تابر بندگاں جو دے کنم۔ یعنی ہم نے اپنی مخلوق کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ہم اس سے کوئی نفع کمائیں اور فائدہ اٹھائیں، بلکہ ہم نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ اپنے بندوں پر کرم کریں، اور ان کو اپنی گونا گوں عنایات سے نوازیں " فایک نسال اللھم ان تجعلنا من الشاکرین لک والحامدین، ومن الفالحین الفائزین بمحض منک وکرمک یا ارحم الراحمین، و یا اکرم الاکرمین " سو انسان اس دنیا میں ہمیشہ رہنے اور مزے کرنے کیلئے نہیں آیا، جیسا کہ مادہ پرستوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم حیوانوں کی طرح کھاپی کر، اور مزے اٹھا کر یونہی مر مٹ جائیں گے اور بس، اور نہ ہی یہ کوئی دارالعذاب ہے، جیسا کہ راہب اور جوگی قسم کے لوگ سمجھتے ہیں، اور نہ ہی کوئی یہ دارالجزاء ہے جیسا کہ تناسخ اور آواگوں کے قائل لوگوں کا کہنا اور ماننا ہے، اور نہ ہی یہ کوئی رزمگاہ ہے جیسا کہ ڈارون اور مارکس کے پیروکاروں نے سمجھ رکھا ہے ‘ بلکہ یہ دنیا دراصل انسان کیلئے دارالامتحان اور ابتلاء و آزمائش کا گھر ہے، عمر رواں کی جو فرصت محدود اس کو دی گئی ہے وہ دراصل اس کے امتحان کا پیریڈ ہے، اور اس امتحان میں کامیابی کے نتیجے میں اس کو آخرت کی دائمی زندگی میں حقیقی بادشاہی کے عظیم الشان اور بےمثال انعام سے نوازا جائے گا، اللہ نصیب فرمائے آمین، اور اس میں ناکامی کی صورت میں والعیاذ باللہ، اس کو وہاں کے عذاب مقیم میں مبتلا ہونا ہوگا، والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس ارشاد بلکہ آیت کریمہ کے اس چھوٹے سے جملے میں انسان کے مقصد وجود اور اس کائنات میں اس کی حیثیت کو واضح فرما دیا گیا ہے۔ والحمدللہ جل و علا۔ 6 انسان کیلئے سمع و بصر کی قوتوں کی نوازش کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے اس کو سمع و بصر کی قوتوں سے نوازا۔ تاکہ اس طرح یہ ہماری آیات تنزیلیہ کو سن کر اور آیات تکوینیہ کو دیکھ کر سبق لے سکے اور عبرت حاصل کرسکے اور صحیح راہ کو اپناسکے۔ پس سننے دیکھنے سے مراد محض ظاہری حواس سے دیکھنا سننا نہیں کہ اس طرح تو جانور بھی دیکھتا سنتا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ سننا اور دیکھنا ہے، جس میں غور و فکر کرکے انسان صحیح نتیجے پر پہنچے اور راہ حق و صواب کو اپنائے، پس سائنسدان جو کہ اپنی کا وشوں سے طرح طرح کے انکشافات کرتے اور کائنات کے راز ہائے بستہ معلوم کرتے ہیں، وہ اگرچہ حق اور حقیقت تک نہیں پہنچتے اور ان چیزوں کے ذریعے اپنے خالق ومالک تک رسائی حاصل نہیں کرتے، تو یہ سب کچھ محنت و مشقت، کدو کا وش، اور حیرت انگیز ایجادات و انکشافات کا سلسلہ ان کیلئے الٹا ثقل تقیل اور وبال وبیل بنے گا اور یہ ان کے خلاف حجت بنے گا کہ یہ سب حیرت انگیز انکشافات کرنے کے باوجود یہ لوگ یہ نہیں سوچتے اور اس پر غور نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ جس کے کشف و انکشافات کے درپے تم لوگ ہو اس کو بنایا اور پیدا کس نے کیا ؟ اور اس کا ہم پر حق کیا ہے ؟ واہ رے ناکامیٔ بشر سارے جہاں کی تجھ کو خبر پر، اپنے جہاں سے بیخبر ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو سمع و بصر کے قوائے علم و ادراک سے نوازنا حضرت حق جل مجدہ، کی ایک عظیم الشان عنایت اور بےمثال نواز ہے جس سے اس نے اپنے بندوں کو سرفراز فرمایا ہے، اور سمیع وبصیر انسان کی تمام اعلیٰ صفات کی ایک نہایت جامع تعبیر ہے، انہی صفات کی بناء پر اور انہی کے فیض سے انسان کے اندر خیر و شر کے درمیان ٰرق وتمیز کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اور وہ اس قابل ٹھہرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا امتحان کرے کہ وہ خیر کی راہ کو اپنا کر خدا کا شکر گزار بنٹا ہے، اور اس کے نتیجے میں اس کے انعام کا مستحق ٹھہرتا ہے، یا شر کی راہ کو اپناکر ناشکرا اور کافر نعمت بنٹا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے عقاب و عذاب کا مستوجب ٹھہرتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین۔
Top