Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 2
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّا خَلَقْنَا : بیشک ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے اَمْشَاجٍ ڰ : مخلوط نَّبْتَلِيْهِ : ہم اسے آزمائیں فَجَعَلْنٰهُ : توہم نے اسے بنایا سَمِيْعًۢا : سنتا بَصِيْرًا : دیکھتا
ہم نے انسان کو نطفہ مخلوط سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اس کو سنتا دیکھتا بنایا
(76:2) نطفۃ امشاج ، موصوف و صفت نطفۃ قطرہ منی۔ امشاج ۔ یمشج مشج (باب نصر) بمعنی ملانا۔ خلط ملط کرنا سے مشتق ہے۔ امشاج بمعنی مخلوط یہ جمع لیا گیا ہے کہ اس میں مردو عورت کا نطفہ (پانی) مخلوط ہوتا ہے۔ اور ہر نطفہ اجزاء ، خواص، عقت، قوام کے لحاظ سے مختلف و منفرد ہوتا ہے۔ نبتلیہ : مضارع جمع متکلم ابتلاء (افتعال) مصدر سے ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع الانسان ہے۔ ہم اس کی آزمائش کریں۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) یہ خلقنا کے فاعل سے حال ہے والمراد مریدین ابتلائہ واختبارہ بالامر والنھی (مدارک التنزیل، روح المعانی) اور مراد ہماری اس کی آزمائش اور امتحان اوامرو نواہی کا مکلف بنانے کے بعد لینا تھا۔ (2) یہ معلول ہے جس کی علت الانسان کو نطفہ امشاج سے پیدا کرنا ہے لام علت محذوف ہے۔ ای خلقنہ لنختبرہ بالامر والنھی تاکہ اوامرو نواہی کے ذریعہ اس کی آزمائش کریں۔ (تفسیر خازن) اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا (27:2) اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔ فجعلنہ :سببیہ ہے ای بسبب ذلک (جلالین) ہ ضمیر مفعول واحد مذکر الانسان کے لئے ہے۔ ہم نے اس کو بنایا۔ سمیعا بروزن (فعیل) صفت مشبہ کا صیغہ ہے سننے والا۔ اسماء حسنی میں سے ہے جب یہ حق تعالیٰ شانہ کی صفت واقع ہو تو اس کے معنی ہیں ایسی ذات جس کی سماعت ہر شے پر حاوی ہو۔ بصیرا۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے بمعنی دیکھنے والا۔ ترجمہ ہوگا :۔ بیشک ہم نے انسان کو ایک نطفہ مخلوط سے پیدا کیا ۔ تاکہ ہم اس کی آزمائش کریں بدیں وجہ ہم نے اس کو سنتا اور دیکھتا بنادیا۔
Top