Al-Qurtubi - Al-Insaan : 2
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّا خَلَقْنَا : بیشک ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے اَمْشَاجٍ ڰ : مخلوط نَّبْتَلِيْهِ : ہم اسے آزمائیں فَجَعَلْنٰهُ : توہم نے اسے بنایا سَمِيْعًۢا : سنتا بَصِيْرًا : دیکھتا
ہم نے انسان کو نطفہ مخلوط سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اس کو سنتا دیکھتا بنایا
انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج : بغیر کسی اختلاف کے یہاں انسا سے مراد ابن آدم ہے نطفہ سے مراد ایسا پانی ہے جسکو ٹپکایا جاتا ہے وہ مٹی ہے برتن میں جو تھوڑا سا پانی ہوا کرتا ہے اسے نطفہ کہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ اپنے نفس کو عتاب کرتے ہوئے کہتے ہیں : مالی اراک تکرھین الجنۃ، ھل انت الا نطفۃ فی شئۃ۔ کیا وجہ ہے میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تو جنت کو ناپسند کرتا ہے تو تو محض مشکیرہ کا ایک قطرہ ہے۔ نطۃ کی جمع نطف اور نطاف ہے امشاج کا معنی اخلاط ہے اس کا واحد مشج اور مشیج ہے جس طرح خدن اور خدین ہے۔ کہتے ہیں، مشجت ھذا بھذا یعنی میں نے اس کو اس کے ساتھ ملایا اس کا اسم مفعول کا صیغہ ممشوج اور مشیج آتا ہے جس طرح مخلوط اور خلبط ہے مبرد نے کہا، امشاج کا واحد مشج سے کہتے ہیں مشج یمشج، جب وہ ایک چیز کو دوسرے کے ساتھ ملادے یہاں اس سے مراد نطفہ کا خون کے ساتھ ملنا ہے، شماخ نے کہا، طوت احشاء مرتجعۃ لوقت، علی مشج سلالتہ مھین۔ مرتجہ وہ مادہ پانی کو رحم میں داخل ہونے روک دے) کا بطن ایک خاص وقت تک نطفہ پر لپٹا رہا جس کی اولاد حقیر تھی۔ فراء نے کہا، امشاج سے مراد مرد اور عورت کے پانی، خون اور جمے ہوئے خون کا آمیزہ ہے جب کوئی چیز مل جائے تو اسی وجہ سے مشج کہتے ہیں جس طرح تیرا قول خلط ہے، اور ممشوج جس طرح تیرا قول مخلوط ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ امشاج سے مراد سرخی مائل سفیدی اور سفیدی مائل سرخی ہے۔ یہ ایسا قول ہے جسے بہت سے اہل لغت نے پسند کیا ہے ہذلی نے کہا : کان الرش والفوقین منہ، خلاف النصل سیط بہ مشیج۔ گویا پر اور اس کے دونوں سناروں پر پھل کے برعکس سرخی مائل سفیدی لگی تھی۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ مرد کا پانی جو سفید گاڑھا ہوتا ہے عورت کے پانی جو زرد نرم ہوتا ہے ملتے ہیں تو ان دونوں سے بچہ پیدا ہوتا ہے بچے کے جسم میں پٹھے، ہڈیاں اور جو طاقت ہوتی ہے وہ مرد کے پانی کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس بچے کے جسم میں خون، گوشت اور بال ہوتے ہیں وہ عورت کے پانی سے ہوتے ہیں اس بارے میں ایک مرفوع روایت بھی ہے اسے بزار نے ذکر کیا ہے، حضرت ابن مسعود سے مروی ہے، اس کے امشاج سے مراد گوشت کے لوتھڑے کی رگیں ہیں، انہیں سے ایک روایت مروی ہے مرد کا پانی، عورت کا پانی اور دونوں دو رنگ والے ہوتے ہیں مجاہد نے کہا، مرد کا نطفہ سفید اور سرخ اور عورت کا نطفہ اور سبز اور زرد ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے، وہ رنگوں سے پیدا ہوا ہے وہ مٹی سے پیدا ہوا ہے پھر شرمگاہ اور رحم کے پانی سے پیدا ہوا ہے وہ پہلے نطفہ، جماہوا خون، ہڈیاں اور گوشت ہوتا ہے اس کی مثل قتادہ نے کہا، یہ پیدائش کے مراحل ہیں نطفے کا مرحلہ، جمے ہوئے خون کا مرحلہ، ہڈیوں کا مرحلہ اور پھر ہڈیوں کو گوشت پہنا دیتا ہے، جس طرح سورة مومنون میں ہے، ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین۔ مومنون) اور بیشک ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے جوہر سے۔ ابن سکیت نے کہا، امشاج سے مراد اخلاط ہیں کیونکہ وہ مختلف انواع میں سے ملاہوتا ہے انسان اس سے مختلف طباع والا پیدا کیا گیا ہے۔ اہل معانی نے کہا، امشاج جمع کا صیغہ نہیں یہ واحد کا معنی میں ہے کیونکہ یہ نطفہ کی صفت ہے جس طرح کہا جاتا ہے : برمۃ اغشار، ثوب اخلاق۔ حضرت ابوایوب انصاری سے مروی ہے، یہودیوں کا ایک عالم نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی، مجھے مرد اور عورت کے پانی کے بارے میں بتائیے ؟ فرمایا مرد کا پانی سفید گاڑھا ہوتا ہے اور عورت کا پانی زرد پتلا ہوتا ہے جب عورت کا پانی غالب ہوتا ہے تو بچی پیدا ہوتی ہے، اور جب مرد کا پانی غالب آجاتا ہے تو بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اس عالم نے کہا، میں اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے اور آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہوں یہ واقعہ سورة بقرہ میں مفصل گزرچکا ہے۔ نبتلیہ۔ ہم اسے آزمائیں گے ایک قول یہ کیا گیا ہے اس کا معنی ہے ہم اس آزمائش کو مقدر کریں گے، اس سے مراد امتحان ہے جس کے ذریعے امتحان لیا جاتا ہے اس کی دو صورتیں ہیں، ہم خیر اور شر کے ذریعے اسے آزمائیں گے یہ کلبی نے کہا۔ ہم خوشحال میں اس کے شکر اور تنگی میں اس کے صبر کو آزمائیں گے یہ حضرت حسن بصری نے کہا، ایک قول یہ کیا گیا ہے اس کا معنی ہے ہم اسے مکلف بنائیں گے، اس میں دو صورتیں ہیں، پیدائش کے بعد عمل کیساتھ یہ مقاتل کا قول ہے، دین کے ساتھ تاکہ اسے طاعت کا حکم دیا جائے اور معاصی سے روکاجائے، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس کا معنی ہے ہم اسے ایک مخلوق سے دوسری مخلوق کی طرف پھیریں گے تاکہ ہم خیروشروع کے ساتھ اسے آزمائیں۔ محمد بن جہیم نے فراء سے حکایت بیان کی ہے کہا، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ فجعلناہ سمیعابصیرا۔ ہم نے اسے سمیع وبصیر بنایا ہے تاکہ ہم اسے آزمائیں یہ مقدم ہے اس کا معنی موخر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آزمائش خلقت کے مکمل ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے ہم نے اس کے کان بنائے جس کے ساتھ ہدایت کو سنے اور اس کی آنکھیں بنائیں تاکہ اس کے ساتھ ہدایت کو دیکھے۔
Top