بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Kashf-ur-Rahman - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
یقینا زمانے میں انسان پر ایک ایسا وقت بھی گزرچکا ہے جبکہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔
(1) بے شک زمانے میں انسان پر ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا یعنی انسان کا کہیں وجود نہ تھا وجود ذہنی نہ خارجی ، خدا جانے کتنی الٹ پلٹ اور کتنے دور گزرنے اور کتنے اطوار طے کرنے کے بعد نطفہ کی شکل اختیار کی ، نطفہ کی حالت بھی کوئی قبال تذکرہ نہیں بعض حضرات کا قول ہے کہ انسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں، حضرت قتادہ ثوری اور عکرمہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) بھی چالیس سال گندھی ہوئی مٹی اور چالیس سال تک کیچڑ اور چالیس سال تک خشک کھنکھناتی حالت میں رہے یہ ایک سو بیس برس کی معیاد کو حین کہتے ہیں بعض حضرات کہتے ہیں، حین اس غیر مقدار زمانے کو کہتے ہیں جس کے واسطے کوئی حد مقرر نہ ہو ، حضرت عبداللہ بن عباس اور دوسرے صحابہ ؓ فرماتے ہیں یہاں انسان سے کوئی خاص انسان مراد نہیں لیتے بلکہ جنس انسان مراد ہے۔ بہرحال ! آدمی پر یقینا ایک ایسا وقت گزرا ہے کہ جب یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی کیونکہ پیدا ہونے کے بعد اور مرنے کے بعد ہر شخص کا تذکرہ اس کی حیثیت کے موافق رہتا ہے لیکن جو ابھی غذائوں کے ہیر پھیر میں اور نطفہ کی شکل میں ہوا اس کو کون جانتا ہے آپ سبزیوں اور غلوں کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ ا س سبزی یا اس غلے کو کون کھائے گا اور غذائوں کے ہضم سے جو نطفہ بنے گا اس سے کون پیدا ہوگا، یہی ہر انسان کا وہ دور ہے جس کو فرمایا۔ حین من الدھر لم یکن شیئا مذکوراً سبزی اور غلہ تو بعد کی چیز ہے ہم کسی کھیت کی مٹی کو دیکھ کر یہ نہیں بتاسکتے کہ اس کھیت میں کون سی سبزی اور کونسا میوہ اور کونسا غلہ پیدا ہوگا اس کو کون کھائے گا اور ہضم رابع پر جو نطفہ ہوگا اس سے کون پیدا ہوگا۔ بہرحال جب تک کوئی نطفہ بچہ بن کر موجود نہ ہوجائے اس وقت تک کوئی قابل تذکرہ چیز نہیں ہے اور یہی وہ حالت ہے جس کو قرآن نے لم یکن شیئا مذکوراً فرمایا ہے جن حضرات مفسرین نے جنس انسان مراد لی ہے وہی راجح ہے اور اسی بنا پر ہم نے خلاصہ عرض کیا ہے ہر کھیت کی مٹی اور ہر باغ کے میوے اور ہر غلے میں کون جانتا ہے کہ کتنے انسانوں کے ذرے اور مادے پنہاں ہیں۔
Top