Maarif-ul-Quran - Al-Insaan : 2
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّا خَلَقْنَا : بیشک ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے اَمْشَاجٍ ڰ : مخلوط نَّبْتَلِيْهِ : ہم اسے آزمائیں فَجَعَلْنٰهُ : توہم نے اسے بنایا سَمِيْعًۢا : سنتا بَصِيْرًا : دیکھتا
جو زبان پر آتی ہم نے بنایا آدمی کو ایک دورنگی بوند سے ہم پلٹتے رہے اس کو پھر کردیا اس کو ہم نے سننے والا دیکھنے والا
اس کے بعد تخلیق انسانی کی ابتداء کا بیان اس طرح فرمایا اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاج یعنی ہم نے پیدا کیا انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے امشاج، مشج یا مشیج کی جمع ہے جس کے معنے مخلوط کے آتے ہیں بعض مفسرین سے نقل کیا ہے کہ امشاج سے مراد اخلاص اربعہ یعنی خن، بلغم، سودا، صفراء ہیں جن سے نطفہ مرکب ہوتا ہے۔
ہر انسان کی تخلیق میں دنیا بھر کے اجزاء اور ذرات کی شمولیت۔
اور اگر غور کیا جائے تو یہ اخلاط اربعہ مذکورہ بھی اقسام غذا سے حاصل ہوتے ہیں اور ہر انسان کی غذا میں غور کیا جائے تو اس میں دور دراز نلکوں اور خطوں کے اجزاء آب و ہوا وغیرہ کے ذریعہ شامل ہوتے ہیں اس طرح ایک انسان کے موجودہ جسم کا تجزیہ اور تحلیل کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایسے اجزاء اور ذرات کا مجموعہ ہے جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں بکھرے ہوئے تھے۔ قدرت کے نظام عجیب نے حیرت انگیز طریقہ پر ان کو اس کے وجود میں سمویا ہے۔ اگر امشاج کا مطلب یہ لیا جائے تو اس جگہ لفظ امشاج کے ذکر سے منکرین قیامت کے سب سے بڑے شبہ کا ازالہ بھی ہوجائے گا کیونکہ ان خداناشناس لوگوں کے نزدیک قیامت قائم ہونے اور مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے میں سب سے بڑا اشکال یہی ہے کہ انسان مر کر مٹی اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر دنیا میں بکھر جاتا ہے ان کو دوبارہ جمع کرنا پھر ان میں روح ڈالنا ان کے نزدیک گویا ناممکن ہے۔
امشاج بمعنے اخلاط کی تفسیر میں ان کے اس شبہ کا ایک واضح جواب ہے کہ ابتدائی تخلیق انسانی میں بھی تو دنیا بھر کے اجزاء و ذرات شامل تھے جس کو یہ ابتدائی تخلیق مشکل نہ ہوئی اس کے لئے اس کا دوبارہ پیدا کرنا کیوں مشکل ہوگیا اور اس تفسیر پر لفظ امشاج کا اس جگہ اضافہ بھی ایک مستقل فائدہ کے لئے ہوسکتا ہے واللہ اعلم۔
نبتلیہ ابتلاء سے مشتق ہے جس کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں یہ تخلیق انسانی کی غرض و حکمت کا بیان ہے کہ انسان کو اس شان کیساتھ پیدا کرنے کا مقصد اس کی آزمائش ہے جس کا بیان اگلی آیتوں میں آیا ہے کہ ہم نے انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ اس کو راستہ دکھلا دیا کہ یہ راستہ جنت کی طرف اور دوسرا دوزخ کی طرف جاتا ہے اور اسے اختیار دے دیا کہ ان میں سے جس کو چاہے اختیار کرے چناچہ ان میں دو گرو ہوگئے اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا یعنی ایک گروہ ان لوگوں کا ہوا جنہوں نے اپنے پیدا کرنے والے اور نعمت دینے والے کو پہچان کر اس کا شکرادا کیا اور اس پر ایمان لایا دوسرا گروہ وہ ہوا جس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور کافر رہا۔ اس کے بعد ان دونوں گروہوں کی جزا اور انجام کا ذکر فرمایا کہ کافروں کے لئے زنجیریں اور طوق اور جہنم ہے اور ابرار یعنی ایمان و اطاعت کے پابند لوگوں کے لئے بڑی نعمتیں ہیں سب سے پہلے پینے کی چیزوں کا ذکر فرمایا کہ ان کو ایسا جام شراب دیا جائے گا جس میں کافور کی آمیزش ہوگی (يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا) بعض مفسرین نے فرمایا کہ کافور جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے اس شراب میں لذت و کیفیت بڑھانے کے لئے اس چشمہ کا پانی شامل کیا جائے گا اور کافور کے مشہور معنے لئے جاویں تو یہ ضروری نہیں کہ جنت کا کا فور بھی دنیا کے کافور کی طرح ہو کھانے پینے کے قابل نہ ہو اس کافور کی خصوصیات جدا ہوں۔
Top