Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 200
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا١۫ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَصَابِرُوْا : اور مقابلہ میں مضبوط رہو وَرَابِطُوْا : اور جنگ کی تیاری کرو وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : مراد کو پہنچو
اے ایمان والوصبر کرو اور مقابلہ میں مضبوط رہو اور لگے رہو اور ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم اپنی مراد کو پہنچو۔
ربط آیات
یہ سورة آل عمران کی آخری آیت ہے، مسلمانوں کے لئے چند اہم وصیتوں پر مشتمل ہے، گویا پوری سورت کا خلاصہ ہے۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو (تکالیف پر) خود صبر کرو اور (جب کفار سے مقاتلہ ہو تو) مقاتلہ میں صبر کرو اور (احتمال مقاتلہ کے وقت) مقابلہ کے لئے مستعد رہو اور (ہر حال میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو (کہ حدود شرعیہ سے نہ نکلو) تاکہ تم پورے کامیاب ہو (آخرت میں لازمی اور ضروری اور بعض اوقات دنیا میں بھی)۔
معارف و مسائل
اس آیت میں تین چیزوں کی وصیت مسلمانوں کو کی گئی ہے، صبر، مصابرہ، مرابطہ اور چوتھی چیز تقوی ہے جو ان تینوں کے ساتھ لازم ہے۔
صبر کے لفظی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اصطلاح قرآن و سنت میں نفس کو خلاف طبع چیزوں پر جمائے رکھنے کو صبر کہا جاتا ہے، جس کی تین قسمیں ہیںاولصبر علی الطاعات، یعنی جن کاموں کا اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے، ان کی پابندی طبیعت پر کتنی بھی شاق ہو اس پر نفس کو جمائے رکھنا۔
دوسرے، صبر عن المعاصی، یعنی جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے وہ نفس کیلئے کتنی ہی مرغوب ولذیذ ہوں نفس کو اس سے روکنا۔
تیسرے صبر علی المصائب، یعنی مصیبت و تکلیف پر صبر کرنا حد سے زائد پریشان نہ ہونا اور سب تکلیف و راحت کو حق تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر نفس کو بےقابو نہ ہونے دینا۔
مصابرت اسی لفظ صبر سے ماخوذ ہے، اس کے معنی ہیں دشمن کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنا، مرابطہ، یہ لفظ صبر سے ماخوذ ہے، اس کے معنی ہیں دشمن کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنا، مرابطہ، یہ لفظ رب سے بنا ہے جس کے اصل معنی باندھنے کے ہیں اور اسی وجہ سے رباط اور مرابطہ کے معنے گھوڑے باندھنے اور جنگ کی تیاری کے لئے جاتے ہیں، قرآن کریم میں اسی معنی کے لئے آیا ہے، ومن رباط الخیل (8: 06) اصطلاح قرآن و حدیث میں یہ لفظ دو معنی کے لئے استعمال کیا گیا ہے
اول اسلامی سرحدوں کی حفاظت جس کے لئے جنگی گھوڑوں اور جنگی سامان کے ساتھ مسلح رہنا لازمی ہے، تاکہ دشمن اسلامی سرحد کی طرف رخ کرنے کی جرأت نہ کرے۔
دوسرے نماز با جماعت کی ایسی پابندی کہ ایک نماز کے بعد ہی دوسری نماز کے انتظار میں رہے، یہ دونوں چیزیں اسلام میں بڑی مقبول عبادت ہیں، جن کے فضائل بیشمار ہیں، ان میں سے چند یہاں لکھے جاتے ہیں
رباط یعنی اسلامی سرحد کی حفاظت کا انتظام۔
اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جنگ کی تیاری کے ساتھ وہاں قیام کرنے کو رباط اور مرابطہ کہا جاتا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ کسی جنگ کا خطرہ سامنے نہیں، سرحد مامون و محفوظ ہے، محض حفظ ماتقدم کے طور پر اس کی نگرانی کرنا ہے، ایسی حالت میں تو یہ بھی جائز ہے کہ آدمی وہاں اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہنے بسنے لگے اور زمین کی کاشت وغیرہ سے اپنا معاش پیدا کرتا رہے، اس حالت میں اگر اس کی اصل نیت حفاظت سرحد کی ہے، رہنا بسنا اور کسب معاش اس کے تابع ہے تو اس شخص کو بھی رباط فی سبیل اللہ کا ثواب ملے گا، خواہ کبھی جنگ نہ کرنا پڑے، لیکن جس کی اصل نیت حفاظت سرحد نہ ہو بلکہ اپنا گذارہ ہی مقصد ہو خواہ اتفاقی طور پر سرحد کی حفاظت کی بھی نوبت آجائے یہ شخص مرابطہ فی سبیل اللہ نہیں ہوگا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ سرحد پر دشمن کے حملہ کا خطرہ ہے، ایسی حالت میں عورتوں بچوں کو وہاں رکھنا درست نہیں، صرف وہ لوگ رہیں جو دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ (قرطبی)
ان دونوں صورتوں میں رباط کے فضائل بیشمار ہیں، صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ”اللہ کے راستے میں ایک دن کا رباط تمام دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔“ اور صحیح مسلم میں بروایت سلمان مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ”ایک دن رات کا رباط ایک مہینہ کے مسلسل روزے اور تمام شب عبادت میں گذارنے سے بہتر ہے اور اگر وہ اسی حال میں مر گیا تو اس کے عمل رباط کا روزانہ ثواب ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا رزق جاری رہے گا اور وہ شیطان سے مامون و محفوظ رہے گا۔
اور ابوداؤد نے بروایت فضالہ بن عبید نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر ایک مرنے والے کا عمل اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے، بجز مرابط کے کہ اس کا عمل قیامت تک بڑھتا ہی رہتا ہے اور قبر میں حساب و کتاب لینے والوں سے مامون و محفوظ رہتا ہے۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ عمل رباط ہر صدقہ جاریہ سے بھی زیادہ افضل ہے، کیونکہ صدقہ جاریہ کا ثواب تو اسی وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک اس کے صدقہ کئے ہوئے مکان، زمین یا تصانیف کتب یا وقف کی ہوئی کتابوں وغیرہ سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں جب یہ فائدہ منقطع ہوجائے تو ثواب بھی بند ہوجاتا ہے، مگر مرابط فی سبیل اللہ کا ثواب قیامت تک منقطع ہونے والا نہیں، وجہ یہ ہے کہ سب مسلمانوں کو اعمال صالحہ پر قائم رہنا جب ہی ممکن ہے جبکہ وہ دشمن کے حملوں سے محفوظ ہوں تو ایک مرابط کا عمل تمام مسلمانوں کے اعمال صالحہ کا سبب بنتا ہے، اسی لئے قیامت تک اس کے عمل رباط کا ثواب بھی جاری رہے گا اور اس کے علاوہ وہ جتنے نیک کام دنیا میں کیا کرتا تھا ان کا ثواب بھی بغیر عمل کئے ہمیشہ جاری رہے گا، جیسا کہ ابن ماجہ میں باسناد صحیح حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
”جو شخص حالت رباط میں مر جائے تو وہ جو کچھ عمل صالح دنیا میں کیا کرتا تھا ان سب اعمال کا ثواب برابر جاری رہے گا اور اس کا رزق بھی جاری رہے گا اور شیطان سے (یا سوال قبر سے) محفوظ رہے گا اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ایسا مطمئن اٹھائیں گے کہ محشر کا کوئی خوف اس پر نہ ہوگا۔“
اس روایت میں جو فضائل مذکور ہیں ان میں شرط یہ ہے کہ حالت رباط ہی میں اس کی موت آجائے، مگر بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ زندہ بھی اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹ گیا تو یہ ثواب پھر بھی جاری رہے گا۔
حضرت ابن بن کعب کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی کمزور سرحد کی حفاظت اخلاص کے ساتھ ایک دن، رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں کرنے کا ثواب سو سال کے مسلسل روزوں اور شب بیداری سے افضل ہے اور رمضان میں ایک دن کا رباط افضل و اعلی ہے ایک ہزار سال کے صیام و قیام سے (اس لفظ میں راوی نے کچھ تردد کا اظہار کیا ہے) پھر فرمایا اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو صحیح سالم اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹا دیا تو ایک ہزار سال تک اس پر کوئی گناہ نہ لکھا جائے گا اور نیکیاں لکھی جاتی رہیں گی اور اس کے عملی رباط کا اجر قیامت تک جاری رہے گا۔ (قرطبی)
نماز کے بعد دوسری کے انتظار میں رہنا بھی رباط فی سبیل اللہ ہے۔
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ چیز بتاتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرما دیں اور تمہارے درجات بلند کریں، وہ چیزیں یہ ہیں، وصول کو مکمل طور پر کرنا باوجود یکہ سردی یا کسی زخم ورد وغیرہ کے سبب اعضاء وضو کا دھونا مشکل نظر آ رہا ہو اور مسجد کی طرف کثرت سے جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار پھر فرمایاذلکم الرباط (یعنی یہی رباط فی سبیل اللہ ہے)
امام قرطبی نے اس کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کی رو سے امید ہے کہ جو شخص ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کی پابندی کرے اس کو بھی اللہ تعالیٰ وہ ثواب عظیم عطا فرما دیں گے جو رباط فی سبیل اللہ کے لئے احادیث میں مذکور ہے۔
فائدہ۔ اس آیت میں اول تو مسلمانوں کو صبر کا حکم دیا گیا ہے جو ہر وقت ہر حال میں ہر جگہ ہوسکتا ہے، اور اس کی تفصیل اوپر بیان ہوچکی ہے، دوسرا حکم مصابرہ کا جو کفار سے مقابلہ اور مقاتلہ کے وقت ہوتا ہے، تیسرا حکم مرابطہ کا جو کفار سے مقابلہ کا احتمال اور خطرہ لاحق ہونے کے وقت ہوتا ہے اور سب سے آخر میں تقوی کا حکم ہے جو ان سب کاموں کی روح اور قبولیت اعمال کا مدار ہے، یہ مجموعہ تقریباً تمام احکام شرعیہ پر حاوی ہے حق تعالیٰ ہم سب کو ان احکام پر عمل کرنے کی توفیق کامل عطا فرمائیں۔ وللہ الحمداولہ و اخرة
Top