Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 22
وَ لَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
وَلَوْ قٰتَلَكُمُ : اور اگر تم سے لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لَوَلَّوُا : البتہ وہ پھیرتے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ : پھر وہ نہ پاتے وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ کوئی مددگار
اور اگر لڑتے تم سے کافر تو پھیرتے پیٹھ پھر نہ پاتے کوئی حمایتی اور نہ مددگار
خلاصہ تفسیر
اور (چونکہ ان کفار کے مغلوب ہونے کے مقتضیات موجود تھے جو آگے آتے ہیں اس لئے) اگر (تم میں یہ صلح نہ ہوتی بلکہ) تم سے یہ کافر لڑتے تو (ان مقتضیات کی وجہ سے وہ) ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگتے، پھر نہ ان کو کوئی یار ملتا نہ مددگار (اور) اللہ تعالیٰ نے (کفار کے لئے) یہی دستور کر رکھا ہے جو پہلے سے چلا آتا ہے (کہ مقابلہ میں اہل حق غالب اور اہل باطل مغلوب رہے ہیں اور کبھی کسی وقت کسی حکمت و مصلحت سے اس میں تاخیر ہونا اس کے منافی نہیں) اور آپ خدا کے دستور میں (کسی شخص کی طرف سے) رد و بدل نہ پاویں گے (کہ خدا تعالیٰ کوئی کام کرنا چاہئے اور کوئی اس کو نہ ہونے دے) اور وہ ایسا ہے کہ اس نے ان کے ہاتھ تم سے (یعنی تمہارے قتل سے) اور تمہارے ہاتھ ان (کے قتل) سے عین مکہ (کے قریب) میں (یعنی حدیبیہ میں) روک دیئے بعد اس کے کہ تم کو ان پر قابو دے دیا تھا (یہ اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جو قصہ حدیبیہ کے جزو ہشتم میں شروع میں بیان ہوچکا ہے کہ قریش کے پچاس آدمیوں کو صحابہ کرام نے گرفتار کرلیا تھا اور پھر کچھ لوگ بھی گرفتار ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے تھے اس وقت اگر مسلمان ان کو قتل کردیتے تو دوسری طرف مکہ میں حضرت عثمان غنی اور ان کے چند ساتھی روک لئے گئے تھے وہ ان کو شہید کردیتے اس کا لازمی نتیجہ مکمل طور پر جنگ چھڑ جانا ہوتا اور اگرچہ مذکور الصدر آیات کی پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ اگر جنگ ہو بھی جاتی تو فتح مسلمانوں ہی کی ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں مسلمانوں کی بڑی مصلحت اس میں تھی کہ اس وقت جنگ نہ ہو اس لئے اس طرف مسلمانوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے قیدیوں کو قتل نہ کریں اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ ان کے قتل سے روک دیئے دوسری طرف قریش کے دلوں پر اللہ نے مسلمانوں کا رعب ڈال دیا کہ انہوں نے صلح کی طرف مائل ہو کر سہیل کو آپ کی خدمت میں بھیجا، اس طرح حق تعالیٰ کی حکمت نے دو طرفہ انتظام جنگ نہ ہونے کا کردیا) اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو (اس وقت) دیکھ رہا تھا (اور ان کاموں کے نتائج کو جانتا تھا اس لئے ایسا کام نہیں ہونے دیا جس سے جنگ چھڑ جائے۔ آگے اس کا بیان ہے کہ اگر جنگ ہوجاتی تو کفار کی مغلوبیت کس طرح اور کیوں ہوتی) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو (عمرہ کرنے کے لئے) مسجد حرام سے روکا (مراد مسجد حرام اور صفا مروہ کے درمیان کا میدان جہاں سعی ہوتی ہے دونوں ہی ہیں مگر چونکہ طواف اصل اور اول ہے اور وہ مسجد حرام میں ہوتا ہے اس لئے اس سے روکنے کے ذکر پر اکتفا کیا گیا) اور قربانی کے جانور کو جو (حدیبیہ میں) رکا ہوا رہ گیا اس کو اس کے موقع میں پہنچنے سے روکا (جانوروں کی قربانی کا موقع منیٰ ہے ان لوگوں نے جانوروں کو منیٰ تک نہیں جانے دیا، ان کے ان جرائم) اور (حرم محترم میں بیٹھ کر ایسا ظلم کرنے کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں کو جنگ کا حکم دے کر ان کو مغلوب کردیا جاتا، لیکن بعض حکمتیں اس تقاضے کو پورا کرنے سے مانع ہوگئیں ان حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت مکہ میں بہت سے مسلمان کفار کے ہاتھوں محبوس اور مظلوم تھے جیسا کہ قصہ حدیبیہ کے جزو دہم میں اس کا ذکر آیا ہے اور ان میں سے ابو جندل کا حضور کی خدمت میں پہنچ کر فریاد کرنا بیان ہوچکا ہے، اگر اس وقت جنگ چھڑ جاتی تو غیر شعوری طور پر ان مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچ جاتا اور ممکن تھا کہ ان کے ہاتھ سے ہی وہ قتل ہوجاتے اور عام مسلمانوں کو پھر اس پر ندامت و افسوس ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرما دیئے کہ جنگ نہ ہو۔ اسی مضمون کو آگے فرمایا ہے کہ) اگر (مکہ میں اس وقت) بہت سے مسلمان مرد اور بہت سی مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بیخبر ی ہیں (رنج و افسوس کا) ضرر پہنچتا (اگر یہ بات نہ ہوتی) تو سب قصہ طے کردیا جاتا، لیکن ایسا اس لئے نہیں کیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے (چنانچہ جنگ نہ ہونے سے ان مسلمانوں کی جان بچی اور تم ان کے قتل کے گناہ اور پھر اس پر رنج و افسوس سے بچے البتہ) اگر یہ (مذکور مسلمان مکہ سے کہیں) ٹل گئے ہوتے تو ان (اہل مکہ) میں جو کافر تھے ہم ان کو (مسلمانوں کے ہاتھ سے) درد ناک سزا دیتے (اور ان کفار کے مغلوب و مقتول ہونے کا ایک مقتضیٰ اور بھی تھا) جبکہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی (اس عار سے وہ ضد مراد ہے جو بسم اللہ اور لفظ رسول اللہ کے لکھنے پر انہوں نے مزاحمت کی جیسا کہ اوپر صلح نامہ حدیبیہ کے بیان میں اس کا ذکر آ چکا ہے) سو (اس کا مقتضا یہ تھا کہ مسلمان جوش میں آ کر لڑ پڑتے مگر) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اور مومنین کو اپنی طرف سے تحمل عطا فرمایا۔ (جس کی وجہ سے انہوں نے اس کلمہ کے لکھنے پر اصرار چھوڑ دیا اور صلح ہوگئی) اور (اس وقت) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا (تقویٰ کی بات سے مراد کلمہ طیبہ یعنی توحید و رسالت کا اقرار ہے اور مطلب اس پر جمائے رکھنے کا یہ ہے کہ توحید و رسالت کے اعتقاد کا تقاضا اطاعت ہے اللہ اور رسول کی اور مسلمانوں کا یہ صبر و ضبط اپنے جذبات کے خلاف صرف اس وجہ سے تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ضبط و صبر کا حکم فرمایا تھا ایسے سخت مرحلہ میں اپنے جذبات کے خلاف رسول کی اطاعت ہی کا نام کلمہ تقویٰ پر جمنا ہے) اور وہ (مسلمان) اس (کلمہ تقویٰ) کے (دنیا میں بھی) زیادہ مستحق ہیں (کیونکہ ان کے قلوب میں طلب حق ہے اور یہ طلب ہی ایمان تک پہنچاتی ہے) اور (آخرت میں بھی) اس (کے ثواب) کے اہل ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
Top