Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 22
وَ لَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
وَلَوْ قٰتَلَكُمُ : اور اگر تم سے لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لَوَلَّوُا : البتہ وہ پھیرتے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ : پھر وہ نہ پاتے وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ کوئی مددگار
اور اگر (اس حال میں بھی) تم سے لڑائی ہوجاتی ان کافروں کی تو بھی یقینا انہوں نے بھاگنا تھا پیٹھ دے کر پھر یہ (اپنے لئے) نہ کوئی یار پاسکتے نہ مددگار
[ 53] حدیبیہ والوں کیلئے فتح مقدر کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور حدیبیہ والے ان بندگان صدیق و صفا کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر اس موقع پر اگر تمہاری ان کافروں سے مڈبھیڑ ہوجاتی تو انہوں نے یقینا پیٹھ دے کر بھاگنا تھا۔ یعنی اہل حق سے۔ سو اگر اس موقع پر وہ تم سے لڑ جاتے اور تمہارے مقابلے کی نوبت آجاتی تو بھی فتح یقینا تمہاری ہی تھی کہ حق پر تم ہی ہو، اور اللہ کی مدد بہرحال تمہارے ہی ساتھ ہے، اور انہوں نے بہرحال پیٹھ دے کر بھاگنا تھا، سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ حدیث میں جو مسلمانوں کو کفار سے لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس میں مسلمانوں کی شکست کا کوئی اندیشہ تھا، نہیں بلکہ اس میں کچھ دوسری مصلحتیں کار فرما تھیں، جن میں سے ایک حکمت اور مصلحت یہ تھی کہ ان مسلمانوں کو کوئی گزند نہ پہنچے جو مکہ میں گرفتار بلا تھے۔ نیز اس میں یہ مصلحت بھی تھی کہ تاکہ مسلمانوں کو مزید ابتلاء و آزمائش سے گزار کر کندن بنادیا جائے اور تاکہ اس طرح ان کی اخلاقی قوت و برتری نکھر کر سب کے سامنے آجائے وغیرہ وغیرہ۔ ورنہ اس موقع پر اگر جنگ ہوجاتی تو بھی یقینی طور پر ان کافروں نے شکست کھانا اور پیٹھ دے کر بھاگنا تھا، اور ایسی صورت میں یہ اس طرح پٹتے کہ ان کا کوئی کارساز و مددگار سہارا دینے کو نہ ملتا، والعیاذ باللّٰہ۔ [ 54] کفر و شرک محرومیوں کی محرومی، والعیاذ باللّٰہ جل وعلا : اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ کفار مشرکین اہل حق کے مقابلے میں شکست کھاتے، پیٹھ دے کر بھاگتے، اور ایسے میں یہ اپنے لئے نہ کوئی یار پاتے نہ مددگار چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ پھر یہ لوگ اپنے لئے نہ کوئی یار پاسکتے نہ مددگا۔ جو ان کی کوئی حمایت کرسکتا یا مدد کو آسکتا، کہ اللہ اور اس کے رسول سے مقابلے کا لازمی انجام یہی ہوتا ہے کہ فتح تو بہر حال حق والوں ہی کو ملتی ہے، اگرچہ ایسا کچھ آزمائشوں سے گزرنے کے بعد ہی ہو، اور ذلت و رسوائی اہل باطل ہی کا مقدر ہوتی ہے اگرچہ مہلت پر مہلت اور ڈھیل پر ڈھیل ملنے کے بعد ہی ہو، سو ان لوگوں کیلئے غرور میں آنے اور صلح حدیبیہ کے معاہدے کو تمہاری کمزوری پر محمول کرنے کا کوئی موقع نہیں، بلکہ ان کو تو اللہ تعالیٰ کے اس کرم و احسان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ان کو ڈھیل دے کر اپنے بارے میں سوچنے اور حالات پر غور کرنے کا موقع دیا، تاکہ اس طرح جس نے راہ راست پر آنا ہو وہ اس پر آجائے نہیں تو وہ اپنے آخری انجام کو پہنچے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو قوت بہرحال حق اور اہل حق کی ہے، باقی سب دھوکے اور اندھیروں میں ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ وضلال، وسوئِ وانحراف، وھو الھادی الی سواء السبیل۔
Top