Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 22
وَ لَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
وَلَوْ قٰتَلَكُمُ : اور اگر تم سے لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لَوَلَّوُا : البتہ وہ پھیرتے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ : پھر وہ نہ پاتے وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ کوئی مددگار
اور اگر تم سے کافر لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر کسی کو نہ دوست پاتے اور نہ مددگار
(48:22) ولو : واؤ عاطفہ لو شرطیہ ہے اگر ، قتلکم الذین کفروا کفار اہل مکہ تم سے لڑتے اور تم سے صلح نہ کرتے تو پشت پھیر کر بھاگ جاتے۔ لوتوا جواب شرط ہے وتوا ماضی جمع مذکر غائب تولیۃ (تفعیل) مصدر پیٹھ دے کر بھاگنا الادبار جمع دبر کی پیٹھیں دے کر بھاگ جاتے۔ لایجدون مضارع منفی جمع مذکر غائب وجد (باب ضرب، سمع) مصدر پانا۔ حاصل کرنا۔ پھر وہ نہ پاتے۔ ولیا : ولی صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ بمعنی محافظ۔ مددگار۔ حامی۔ بچانے والا۔ منصوب بوجہ مفعول۔ نصیرا۔ صیغہ صفت، نصر سے بچانے والا۔ مدد کرنے والا۔ بوجہ مفعول ہونے کے منصوب ہے۔ ولیا کا معطوف ہے۔ فائدہ : مطلب یہ ہے کہ حدیبیہ میں جنگ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے نہیں روکا تھا کہ وہاں مسلمانوں کے شکست کھا جانے کا امکان تھا بلکہ اس کی مصلحت کچھ دوسری ہی تھی جسے آگے کی آیتوں میں بیان کیا جارہا ہے (آیات 24:25) اگر وہ مصلحت نہ ہوتی اور اللہ تعالٰ اس مقام پر جنگ ہوجانے دیتا تو پھر بھی یقینا کفار ہی کو شکست ہوتی اور مکہ مکرمہ اسی وقت فتح ہوجاتا۔ (تفہیم القرآن)
Top