Ruh-ul-Quran - Al-Fath : 22
وَ لَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
وَلَوْ قٰتَلَكُمُ : اور اگر تم سے لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لَوَلَّوُا : البتہ وہ پھیرتے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ : پھر وہ نہ پاتے وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ کوئی مددگار
اگر جنگ کرتے تم سے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا تو یقینا پیٹھ پھیر جاتے، پھر نہ کوئی کارساز پاتے اور نہ کوئی مددگار
وَلَوْقٰـتَـلَـکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا۔ سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلُ صلے ج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً ۔ (الفتح : 22، 23) (اگر جنگ کرتے تم سے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا تو یقینا پیٹھ پھیر جاتے، پھر نہ کوئی کارساز پاتے اور نہ کوئی مددگار۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور آپ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ ) قریش اور مسلمانوں کے تصادم کی صورت میں قریش کی شکست یقینی تھی اس آیت کریمہ میں قریش کو تنبیہ ہے اور مؤرخ کو خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو قریش کے ہاتھوں کو مسلمانوں کی طرف بڑھنے سے روکے رکھا، یعنی ان کے درمیان جنگ نہیں ہونے دی۔ تو اس کا سبب مسلمانوں کی کمزوری نہ تھی اور نہ یہ احتیاط تھی کہ مسلمانوں کو ایسے بےجوڑ مقابلے کی آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ بلکہ حقیقت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کا علم جو کبھی خطا نہیں کرتا اس میں پہلے سے یہ بات طے تھی کہ اگر قریش نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو اللہ تعالیٰ کے رسول کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کے دین کی سرکشی کی یہ انتہا ہوگی۔ اب تک تو انھیں عذاب سے اس بات نے بچائے رکھا کہ مکہ میں ایمان لانے کا سلسلہ رکا نہیں۔ لوگ خفیہ طریقے سے ایمان لاتے رہے اور جن کے ایمان کا راز فاش ہوگیا وہ زنجیروں میں بندھے تشدد برداشت کرتے ہوئے غلبہ دین کی امید میں جیتے رہے۔ لیکن اب اگر انھوں نے مسلمانوں کے استیصال کی نیت سے ان پر حملہ کردیا اور اللہ تعالیٰ کے گھر سے انھیں طاقت سے دور رکھنے کا فیصلہ کرلیا تو اب پروردگار ان کی اس جسارت کو معاف نہیں کریں گے۔ وہ شکست کھا کر بھاگیں گے لیکن یہ فرار ان کے لیے معاون ثابت نہیں ہوگا۔ ان کا قتل عام ہوگا اور وہ بری طرح رگیدے جائیں گے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر نازل ہوجائے۔ کیونکہ تکذیبِ رسل کرنے والی امتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ یہ قانون رہا کہ وہ انھیں سنبھلنے کا موقع دیتا ہے، غور و فکر کرنے کی مہلت دیتا ہے، لیکن جب ان کی سرکشی حد سے بڑھ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا قانون اور اس کی سنت حرکت میں آتی ہے۔ اور وہ تباہ کردیئے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت میں کبھی آج تک تبدیلی نہیں آئی۔
Top