Baseerat-e-Quran - Al-Fath : 22
وَ لَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
وَلَوْ قٰتَلَكُمُ : اور اگر تم سے لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لَوَلَّوُا : البتہ وہ پھیرتے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ : پھر وہ نہ پاتے وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ کوئی مددگار
اور اگر یہ کافر تم سے لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھگتے ۔ پھر وہ کسی کو نہ تو اپنا حمایتی پاتے اور نہ کسی کو اپنا مدد گار۔ “
لغات القرآن آیت نمبر (22 تا 26) ۔ لو لو الادبار (وہ ضرور پیٹھ پھیریں گے) ۔ قد خلت (یقینا گذر گئی) ۔ بطن (پیٹ۔ درمیان) ۔ اظفر (اس نے قابو کیا) ۔ معکوف (رکا ہوا) ۔ ان یبلغ (یہ کہ وہ پہنچے) ۔ محلہ (اپنی جگہ) ۔ ان تطئوا (یہ کہ تم روند ڈالو ) ۔ معرۃ (دکھ۔ گناہ۔ تکلیف) ۔ لو تز یلوا (اگر وہ الگ ہوجائے۔ ٹل جائے) ۔ الحمیتہ (غیرت ۔ ضد۔ ہٹ) ۔ الزم (اس نے لازم کردیا) ۔ احق (زیادہ حق دار) ۔ تشریح : آیت نمبر 22 تا 26 ) ۔ ” صلح حدیبیہ کے واقعات اور اس کی مصلتحوں کو بیان کیا جارہا ہے۔ ارشاد ہے کہ بیشک اللہ نے کفار کو مسلمانوں پر حملہ کرنے اور جوابی کاروائی کرنے سے اور جذباتی لمحات میں اہل ایمان کو کفار پر حملہ کرنے سے روک دیا تھا لیکن اگر مسلمانوں کی غربت وبے بسی کے باوجود جنگ ہوجاتی تو کفار کو پیٹھ دکھا کر بھاگنا پڑتا اور ان کفار کی کسی قبیلے یا قوم کی طرف سے کوئی مدد نہ ہو سکتی اور ان کفار کو زبردست شکست اور شرمندگی کا سامان کرنا پڑتا لیکن اللہ کی مصلحت یہ تھی کہ اس وقت جنگ نہ ہو تاکہ فساد اور شر پھیلانے والوں کی ہر کشش کو ناکام بنا دیا جائے اور جنگ کے نتیجے میں وہ بہت سے لوگ جو ایمان قبول کرچکے تھے یا ذہنی طور پر دین اسلام سے متاثر ہو کر اپنے ایمانی جذبوں کو چھپائے ہوئے تھے ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے کیونکہ جب باہمی جنگ شروع ہوجاتی تو کفار اہل ایمان کو نقصان پہنچاتے یا اہل ایمان جب حملہ کرتے تو بیخبر ی میں سب کو روندتے چلے جاتے۔ اس کئے اللہ نے ایسے حالات پیدا فرمادیئے کہ ہر حال میں صلح ہوجائے اور جنگ کی نوبت نہ آسکے۔ صلح حدیبیہ جس کو اہل ایمان اس کی بعض شرائط کی وجہ سے اپنے لئے توہین آمیز سمجھ رہے تھے اس میں بہت سی مصلحتیں پوشیدہ تھیں جب کے بہترین اثرات کو ہر اہل ایمان نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں اور مصلحتوں کو زیر مطالعہ آیات میں بیان ارشاد فرمایا ہے۔ اگر یہ صلح نہ ہوتی اور تم کافروں سے قتال و جہاد کرتے تو یہ کفار پیٹھ پھیر کر بھاگتے اور اس وقت ان کفار کی حمایت اور مدد کرنے کوئی نہ پہنچتا ۔ اللہ کا یہی دستور اور قانون ہے (کہ جو اس نے ہمیشہ کفار و مشرکین کے متعلق اختیار فرمایا ہے) نبی ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اللہ کے قانون اور دستور میں کبھی تبدیلی نہ پائیں گے۔ اس اللہ نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے تھے اور وہ بھی عین مکہ (مقام حدیبیہ جو مکہ سے قریب ہے) جب کہ اس نے تمہیں ان کفار پر غلبہ بھی دیدیا تھا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام کامون پر نگران ہے اور دیکھ رہا ہے۔ فرمایا کہ (ہمیں یہ معلوم ہے کہ ) یہ کفاروہ ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر و انکار کا طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے عمرہ کی ادائیگی سے مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جو جانور تھے ان کو منیٰ جانے سے روکا۔ ان باتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ جنگ کے ذریعہ ان کفار کو تہس نہس کردیا جاتا لیکن جنگ نہ کرنے میں سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ مکہ میں بہت سے اہل ایمان مرد اور عورتیں وہ تھے جو کفار کے ہاتھوں میں پھنسے ہوئے تھے وہ اہل ایمان کے ہاتھوں بیخبر ی میں مارے جاتے اور روندے جاتے۔ یہ اس لئے بھی کیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل فرمائے۔ اگر یہ اہل ایمان مکہ میں نہ ہوتے تو ہم مومنوں کے یاتھوں کفار کو درد ناک سزا دلاتے کیونکہ یہ کفار پھر سے اسی جاہلیت کی ضس اور عصبیت پر قائم تھے لیکن اللہ نے اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر ” سکینہ “ سکون قلب (اور اطاعت رسول کے جذبے) کو نازل فرمایا اور ان اہل ایمان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا کیونکہ وہی اہل ایمان اس کے زیادہ حق دار بھی تھے۔ اللہ وہ ہے جو ہر بات کی مصلحت اور حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔
Top