بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahkam-ul-Quran - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
کبھی گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں کہ نہ تھا وہ کوئی چیز
خلاصہ تفسیر
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جس میں وہ کوئی چیز قابل تذکرہ نہ تھا (یعنی انسان نہ تھا بلکہ نطفہ تھا اور اس سے قبل غذا اور اس سے پہلے عناصر کا جز تھا) ہم نے اس کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا (یعنی مرد اور عورت دونوں کے نطفے سے کیونکہ عورت کی منی بھی اندر ہی اندر عورت کے رحم میں گرتی ہے۔ پھر کبھی فم رحم سے خارج ہو کر ضائع ہوجاتی ہے اور کبھی اندر رہ جاتی ہے اور مخلوط کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ اجزاء مختلفہ سے مرتکب ہے چناچہ ترکیب منی کی اجزاء مختلفہ سے ظاہر ہے غرض ہم نے اس کو ایسے نطفہ سے پیدا کیا) اس طور پر کہ ہم اس کو مکلف بنائیں تو (اسی واسطے) ہم نے اس کو سنتا دیکھتا (سمجھتا) بنایا (اور چونکہ محاورہ میں سمیع وبصیرا استعمالاً مخصوص ہے عاقل کے ساتھ اسلئے عقل دینے کی جو کہ مدار ہے مکلف ہونے کا تصریح نہیں فرمائی گئی مگر مراد وہ بھی ہے۔ مطلب یہ کہ ہم نے ایسی ہیئات وصفات کے ساتھ پیدا کیا کہ اس میں احکام شرعیہ کا مکلف بننے کی قابلیت ہو، اس کے بعد جب مکلف ہونے کا وقت آگیا تو) ہم نے اس کو (بھلائی برائی پر مطلع کرکے) راستہ بتلایا (یعنی احکام کا مخاطب بنایا پھر) یا تو وہ شکر گزار (اور مومن) ہوگیا یا ناشکر (اور کافر) ہوگیا (یعنی جس رستہ پر چلنے کو اس کو کہا تھا جو اس پر چلا وہ مومن ہوگیا جو بالکل نہ چلا کافر ہوگیا۔ آگے فریقین کی جزا کا ذکر ہے کہ) ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں اور طوق اور آتش سوزاں تیار کر رکھی ہے (اور) جو نیک (لوگ) ہیں وہ ایسے جام شراب سے (شرابیں) پیویں گے۔ جس میں کافور کی آمیزش ہوگی یعنی ایسے چشمے سے (پیویں گے) جس سے خدا کے خاص بندے پئیں گے (اور) جس کو وہ (خاص بندے جہاں چاہیں گے) بہا کرلے جائیں گے (اور یہ بہشتیوں کی ایک کرامت ہوگی کہ انہار جنت ان کے تابع ہوں گی جیسا کہ درمنثور میں ابن شوذب سے مروی ہے کہ جنتیوں کے ہاتھ میں سونے کی چھڑیاں ہوں گی اور وہ چھڑیوں سے جس طرف اشارہ کردینگے نہریں اسی طرف چلنے لگیں گی۔ اور یہ کافور دنیا کا کافور نہیں ہے بلکہ جنت کا کافور ہے جو سپیدی اور خنکی اور تفریح وتقویت دل و دماغ میں اس کا مشارک ہے شراب میں خاص کیفیات حاصل کرنے کے لئے عادت ہے بعض مناسب چیزوں کے ملانے کے پس وہاں اس جام میں کافور ملایا جاوے گا اور وہ جام شراب ایسے چشمے سے بھرا جاوے گا جس سے مقرب بندے پیویں گے تو ظاہر ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کا ہوگا سو اس سے ابرار کی بشارت میں تقویت ہوگئی اور اگر ابرار وعباد اللہ کا مصداق ایک ہو تو دو جگہ بیان کرنے سے جدا جدا مقصود ہے ایک جگہ اس کی آمیزش بتلانا ہے دوسری جگہ اس کا کثیر ومسخر ہونا کہ اسباب عیش کی کثرت اور تابع طبیعت ہونا لذت عیش کو بڑھا دیتا ہے۔ آگے ان ابرار کی صفات مذکور ہیں کہ) وہ لوگ واجبات کو پورا کرتے ہیں اور (ادا بھی کرتے ہیں خلوص سے کیونکہ وہ) ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی (یعنی کم وبیش سب پر اس کی سختی کا اثر ہوگا مراد قیامت کا دن ہے الامن شاء اللہ تعالیٰ) اور (وہ لوگ ایسے مخلص ہیں کہ عبادات مالیہ میں بھی جس میں غالباً اخلاص کم ہوتا ہے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں چنانچہ) وہ لوگ (محض) خدا کی محبت سے غربت اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (قیدی اگر مظلوم ہے کہ ظلما پید کرلیا گیا تب تو اس کی اعانت کا مستحسن ہونا ظاہر ہے اور اگر ظالم ہے کہ ظلم کی سزا میں قید ہوا ہے تو شدت حاجت کے وقت اس کا اطعام بھی مستحسن ہے اور وہ لوگ کھانا کھلا کر زبان سے یا دل سے یوں کہتے ہیں کہ) ہم تم کو محض خدا کی رضا مندی کیلئے کھانا کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے (اسکا عملی) بدلہ چاہیں اور نہ (اس کا قولی) شکریہ (چاہیں اور ہم خدا کی رضا مندی کے لئے اس واسطے تم کو کھانا کھلاتے ہیں کہ) ہم اپنے رب کی طرف سے ایک سخت اور تلخ دن کا اندیشہ رکھتے ہیں (تو امید رکھتے ہیں کہ ان مخلصانہ اعمال کی بدولت اس دن کی تلخی اور سختی سے محفوظ رہیں اور اس سے معلوم ہوا کہ خوف آخرت سے کوئی کام کرنا اخلاص اور اتبغا مرضاة اللہ کے منافی نہیں) سو اللہ تعالیٰ ان کو (اس اطاعت و اخلاص کی برکت سے) اس دن کی سختی سے محفوظ رکھے گا اور ان کی تازگی اور خوشی عطا فرما دے گا (یعنی چہروں پر تازگی اور قلوب میں خوشی دے گا) اور ان کی پختگی (یعنی استقامت فی الدین) کے بدلہ میں ان کو جنت اور ریشمی لباس دے گا اس حالت میں کہ وہ وہاں (جنت میں) مسہریوں پر (آرام وعزت سے) تکیہ لگائے ہوں گے (اور) نہ وہاں تپش (اور گرمی) پاویں گے اور نہ جاڑا (بلکہ فرحت بخش معتدل موسم ہوگا) اور یہ حالت ہوگی کہ (وہاں کے یعنی جنت کے) درختوں کے سائے ان (بہشتیوں) پر جھکے ہوں گے (یعنی قریب ہوں گے اور سایہ اسباب تنعم سے ہے۔ جنت میں آفتاب ماہتاب نہیں ہوں گے تو پھر سایہ کا کیا مطلب ہے ہوسکتا ہے کہ دوسرے اجسام نورانیہ کی روشنی سے سایہ مقصود ہو، اور فائدہ سایہ کا غالباً یہ ہے کہ حالات بدلتے رہیں، ایک حال کتنے بھی آرام ولذت کا ہو آخر کار اس سے طبیعت اکتا ہی جاتی ہے) اور ان کے میوے ان کے اختیار میں ہوں گے (کہ ہر وقت ہر طرح بلا مشقت لے سکیں گے) اور ان کے پاس (کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کے لئے) چاندی کے برتن لائے جاویں گے اور آبخورے جو شیشے کے ہوں گے (اور) وہ شیشے چاندی کے ہوں گے جن کو بھرنے والوں نے مناسب انداز سے بھرا ہوگا (یعنی اس میں مشروب ایسے انداز سے بھرا ہوگا کہ نہ اس وقت کی خواہش میں کمی رہے اور نہ اس سے بچے کہ دونوں میں بےلطفی ہوتی ہے اور چاندی کے شیشے کے یہ معنی کہ سفیدی تو چاندی جیسی ہوگی اور شفافی شیشہ جیسی اور دنیا کی چاندی میں آرپار نظر نہیں آتا اور شیشے میں یہاں ایسی سفیدی نہیں ہوتی پس یہ ایک عجیب چیز ہوگی) اور وہاں ان کو (علاوہ جام شراب مذکورہ بالا کے جس میں کافور کی آمیزش تھی اور بھی) ایسا جام شراب پلایا جاوے گا جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی (کہ انتعاش حرارت غریزی اور منہ کا مزہ بدلنے کے لئے شراب میں اس کو بھی ملاتے تھے یعنی ایسے چشمے سے جو وہاں ہوگا (ان کو پلایا جاوے گا) جس کا نام (وہاں) سلسبیل (مشہور) ہوگا (مجموعہ مقام بالا اور مقام ہذا سے معلوم ہوتا ہے کہ چشمہ مذکورہ بالا کی شراب میں آمیزش کافور کی ہوگی اور اس چشمہ مذکورہ مابعد کی شراب میں آمیزش زنجیل کی ہوگی واللہ اعلم باسرارہ) اور ان کے پاس (یہ چیزیں لے کر) ایسے لڑکے آمدورفت کریں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے (اور وہ اسقدر حسین ہیں کہ) اے مخاطب اگر تو ان کو (چلتے پھرتے) دیکھے تو یوں سمجھے کہ موتی ہیں جو بکھر گئے ہیں (موتی سے تو تشبیہ صفائی اور اشراق میں اور بکھرے ہوئے کا وصف ان کے چلنے پھرنے کے لحاظ سے جیسے بکھرے موتی منتشر ہو کر کوئی ادھر جارہا ہے کوئی ادھر جارہا ہے اور یہ اعلیٰ درجہ کی تشبیہ ہے) اور (ان مذکورہ اسباب تنعم میں انحصار نہیں بلکہ وہاں اور بھی ہر سامان اس افراط اور رفعت کیساتھ ہوگا کہ) اے مخاطب اگر تو اس جگہ کو دیکھے تو تجھ کو بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھلائی دے (اور) ان جنتیوں پر باریک ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور دبیز ریشم کے کپڑے ہوں گے (کیونکہ ہر لباس میں جدا لطف ہے) اور ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جاویں گے (اس سورت میں تین جگہ چاندی کے سامان کا ذکر آیا ہے اور دوسری آیات میں سونے کا مگر دونوں میں تعارض نہیں کیونکہ دونوں طرح کا سامان ہوگا اور حکمت اس کی وہی تفنن اور تغیر طبائع وتنعمات کا ہے اور یہ شبہ کہ مردوں کو زیور معیوب ہے اسلئے مندفع ہے کہ ہر مقام کا مقتضاد جدا ہے یہاں عیب ہونا وہاں عیب ہونے کو مستلزم نہیں) اور ان کا رب (جو ان کو شراب پینے کو دے گا جس کا اوپر ذکر آیا ہے تو مثل شراب دنیا کے ناپاک اور مزیل عقل وموجب خمار نہ ہوگی بلکہ اللہ تعای) ان کو پاکیزہ شراب پینے کو دے گا (جس میں نجاست نہ ہوگی اور نہ کدورت وہذا کقولہ تعالیٰ لا یصدعون عنھا ولا ینزفون اور تین جگہ جو سورت میں ذکر شراب کا آیا ہے ہر جگہ غرض جدا ہے جیسا تقریر ترجمہ سے واضح ہے پھر اول میں یشربوں ہے دوسری جگہ یسقون جو زیارت اکرام اور اعزاز پر دلالت کرتا ہے۔ تیسری جگہ سقھم ربھم میں نہایت ہی تشریف و تکریم ہے پس تکرار کا شائبہ نہ رہا اور ان سب نعمتوں کو دے کر اہل جنت سے مسرت روحانی بڑھانے کے لئے کہا جاوے گا کہ) یہ تمارا صلہ ہے اور تمہاری کوشش (جو دنیا میں کیا کرتے تھے) مقبول ہوئی (آگے فریقین کی جزا کافر کا ذکر کرنے کے بعد بطور تفریح معنوی کے آپ کو تسلی دینے کا بیان ہے۔ یعنی ان مخالفین کی سزا آپ نے سن لی، پس آپ ان کی مخالفت سے غم نہ کیئجے اور اپنی عبادت اور دعوت و اصلاح کے کام میں لگے رہیئے کے علاوہ اطاعت ہونے کے اس میں قلب کی بھی تو تقویت ہے اور بیان اس اطاعت کا یہ ہے کہ) ہم نے آپ پر قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا ہے (تاکہ تھوڑا تھوڑا لوگوں کو پہنچاتے رہیں اور انکو اس سے فائدہ اٹھاے میں آسانی ہو جیسا کہ سورة اسرا کے آخر میں ہے وقرانا فرقنہ الخ) سو آپ اپنے پروردگار کے حکم پر (کہ اس میں تبلیغ بھی داخل ہے) مستقل رہئے اور ان میں سے کسی فاسق یا کافر کے کہنے میں نہ آئیے (یعنی جو تبلیغ سے منع کرتے ہیں کمافی الدر المنثور من سورة الکافرین، اس کی موافقت نہ کیجئے، مقصود اس سے اظہار اہتمام شان ہے ورنہ آنحضرت ﷺ سے ان کی موافقت کرنے کا کوئی احتمام ہی نہیں تھا یہ تو عبادت متعدیہ کا امر ہوا) اور (آگے عبادت لازمہ کا امر ہے یعنی) اپنے پروردگار کا صبح وشام نام لیا کیئجے اور کسی قدر رات کے حصے میں بھی اس کو سجدہ کیا کیجئے (یعنی نماز فرض پڑھا کیجئے) اور رات کے بڑے حصے میں اس کی تسبیح (و تقدیس) کیا کجیئے (مراد) اس سے تہجد ہے علاوہ فرائض کے اور آگے تقویت تسلی کے لئے ایک اور مضومن ہے جس میں کفار کی مذمت بھی ہے یعنی ان لوگوں کی مخالفت کی اصل وجہ آپ کے ساتھ یہ ہے کہ) یہ لوگ دنیا سے محبت رکھتے ہیں اور اپنے آگے (آنیوالے) ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں (پس حب دنیا نے اندھا کر رکھا ہے اسلئے حق کہنے سے بعض رکھتے ہیں اور یوم ثقیل کا ذکر سنکر چونکہ احتمال ان کے انکار کا تھا اسلئے آگے اس یوم ثقیل کے استبعاد کو دفع فرماتے ہیں یعنی) ہم ہی نے ان کو پیدا کیا اور ہم ہی نے ان کے جوڑ بند مضبوط کئے اور (نیز) جب ہم چاہیں ان ہی جیسے لوگ ان کی جگہ بدل دیں (اور امر اول تو مشاہد ہے اور دوسرا امر ادنی تنبیہ سے معلوم ہوسکتا ہے پس دونوں امروں سے قدرت الٰہیہ ظاہر ہے پھر مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے ہی میں کون بات زیادہ دشوار ہے کہ اس پر قدرت نہ ہو، آگے ان تمام مضامین سابقہ پر بطور تفریح کے فرماتے ہیں کہ) یہ (سب جو مذکور ہوا کافی) نصیحت ہے سو جو شخص چاہے اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے (وقد مرفی المزمل) اور (قرآن کے تذکرہ ہونے میں اس سے شبہ نہ کیا جاوے کے بعض کو اس سے ہدایت نہیں ہوتی، بات یہ ہے کہ قرآن فی نفسہ تذکرہ اور ہدایت کافی ہے لیکن) بدون خدا کے چاہے تم لوگ کوئی بات چاہ نہیں سکتے (اور بعض لوگوں کے لئے خدا کے نہ چاہنے میں بعضی حکمتیں ہوتی ہیں کیونکہ) خدا تعالیٰ بڑا علم والا اور حکمت والا ہے وہ جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور (جسکو چاہئے کفر میں مبتلا رکھتا ہے پھر) ظالموں کے لئے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
معارف و مسائل
سورة دہر کا نام سورة انسان اور سورة الابرار بھی ہے (روح) اسمیں تخلیق انسانی کی ابتدا و انتہا و اعمال پر جزا وسزا قیامت اور جنت دوزخ کے خاص حالات نہایت بلیغ اور موثر انداز میں بیان ہوئے ہیں۔
هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا
حرف ہل دراصل استفہام کے لئے آتا ہے اور بعض اوقات کسی بدیہی اور کھلی ہوئی چیز کی بصورت استفہام اس لئے تعبیر کیا جاسکتا ہے اس کا واضح ہونا اور موکد ہوجائے کہ جس سے پوچھو گے یہی جواب دے گا، دوسرا احتمام ہی نہیں جیسے کوئی شخص نصب النہار کے وقت کسی سے کہے کہ کیا یہ دن نہیں ہے اس کی صورت میں تو استفہام کی ہے مگر درحقیقت اسکے انتہائی واضح ہونے کا بیان ہے۔ اسی لئے ایسے مواقع میں بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ حرف ھل بمعنے قد ہے جو تحقیق واقع کے لئے بولا جاتا ہے۔ بہر دو صورت مطلب آیت کا یہ ہے انسان پر ایک زمانہ دراز ایسا گزار ہے کہ دنیا میں کہیں اس کا نام ونشان یہاں تک کہ ذکر و تذکرہ تک نہ تھا۔ لفظ حین تنوین کے ساتھ ذکر کرنے سے اس وقت اور زمانے کی درازی کی طرف اشارہ ہے اور اس آیت میں یہ زمانہ دراز انسان پر گزرنا بیان فرمایا ہے جس میں اس کا فی الجملہ کسی نہ کسی طرح کا وجود ہونا لازمی ہے عدم محض کے زمانے کو تو انسان پر گزرنا نہیں کہا جاسکتا اس لئے اکثر حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس زمانے دراز سے جو انسان پر گزرا وہ زمانہ مراد ہے جو قرار حمل کے بعد سے پیدائش تک کا وقت ہے جو عادة نو مہینے ہوتے ہیں کہ اس میں انسان کی تخلیق پر جتنے دور گزرتے ہیں نفطہ سے لے کر جسم اور اعضا اور پھر اس میں روح حیات آنے تک وہ سب شامل ہیں۔ اس پورے زمانے میں اگرچہ اس کا وجود ایک طرح قائم ہوچکا ہے مگر نہ کوئی جانتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی نہ کوئی اس کا نام ہے نہ کسی کو اس کی شکل و صورت معلوم ہے اس لئے اس کا کہیں ذکر و تذکرہ تک نہیں ہے اور اگر اس کو وسیع ترمعنے دیئے جائیں تو تخلیق انسانی کی ابتدا جس طرح نطفہ سے سمجھی گئی ہے وہ نطفہ بھی جس غذا سے پیدا ہوا وہ غذا اور غذا سے پہلے اس غذا کا مادہ کسی نہ کسی صورت سے دنیا میں تھا اگر اس زمانے کو بھی شامل رکیں تو یہ زمانہ درازہزاروں سال کا ہوسکتا ہے۔ بہرحال حق تعالیٰ نے اس آیت میں انسان کو ایک ایسے امر کی طرف توجہ دلائی کہ اس میں ذرا بھی شعور ہوا اور کچھ بھی غور کرے تو اس کو اپنی حقیقت کے انکشاف کے ساتھ اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے کے وجود اور علم وقدرت پر مکمل ایمان و یقین کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اگر ایک ستر برس کا انسان اس کا مراقبہ کرے اور اس پر غور کرے کہا اب سے اکہتر سال پہلے اس کا کہیں نام و نشان نہیں تھا اور نہ اس کا کسی عنوان سے کوئی ذکر کرسکتا تھا۔ ماں باپ اور دادا دادی کے دل میں بھی اس کے مخصوص وجود کا کوئی خطرہ تک نہ تھا گو مطلق بچہ کا تصور ہو۔ اس وقت کیا چیز اس کی ایجادو تخلیق کی داعی ہوئی اور کس مخیر العقول قدرت نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ذرات کو اس کے وجود میں سمو کر اس کو ایک ہوشیار دانا، سمیع وبصیر انسان بنادیا تو وہ بےساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوگا۔ مانبودیم و تقاضا مانبود ٭لطف تو ناگفتہ مامی شنود
Top