Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 37
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ
خُلِقَ : پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان مِنْ : سے عَجَلٍ : جلدی (جلد باز) سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں دکھاتا ہوں تمہیں اٰيٰتِيْ : اپنی نشانیاں فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ : تم جلدی نہ کرو
انسان کی جلد بازی کا یہ عالم ہے کہ گویا اس کا خمیر ہی جلد بازی سے بنایا گیا ہے تو اے جلد باز منکرو ! میں عنقریب ہی وقت آنے پر تم کو دکھا دوں گا اپنی نشانیاں، پس تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ۔2
49 انسان بڑا جلدباز واقع ہوا ہے : اسی لئے وہ عذاب کے لئے بھی جلد بازی سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ عذاب جس سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے فوراً آ کیوں نہیں جاتا۔ حالانکہ اللہ پاک کا معاملہ تو سراسر حکمت پر مبنی اور رحمت بھرا ہوتا ہے۔ وہاں جلد بازی کا کوئی مقام نہیں۔ ہر چیز کے لئے اس کے یہاں ایک خاص پیمانہ ہے ۔ { کُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہ بِمِقْدَار } ۔ (الرعد : 8) ۔ اور اس کا پیمانہ بھی بندوں کے پیمانوں سے کہیں بڑا اور بہت بڑا ہے۔ اس کے یہاں کا ایک دن ہمارے یہاں کے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ چناچہ ارشاد ربانی ہے ۔ { وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاْلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ } ۔ (الحج : 47) ۔ سو اس کے یہاں اس کے متمرد و سرکش بندوں کے عذاب کا بھی ایک خاص وقت مقرر ہے۔ ورنہ ان لوگوں پر اس کا عذاب کبھی آچکا ہوتا۔ ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رِّبِّکَ لَکَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمّٰی } ۔ (طہٰ : 129) ۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ و انحراف ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا اور خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔ 50 پس تم لوگ عذاب کیلئے جلدی مت مچاؤ : بلکہ دنیاوی زندگی کی اس فرصت کو جو آج تمہیں دستیاب و میسر ہے اس کو غنیمت سمجھ کر اس عذاب سے بچنے کی فکر کرو کہ حیات دنیا کی یہ فرصت مستعار ہاتھ سے نکلنے کے بعد پھر کبھی اور کسی بھی قیمت پر دوبارہ ملنے والی نہیں۔ سو عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس عذاب سے بچنے کی فکر کرے اور فرصت حیات کو آخرت کی تیاری کیلئے غنیمت جانے ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس ارشاد سے ان جلد بازوں کی طرف سے عذاب کے لیے مچائی جانے والی جلد بازی کا جواب دیا گیا اور واضح فرمایا گیا کہ یہ تاخیر خداوند قدوس کی رحمت و عنایت کی بنا پر ہو رہی ہے۔ وہ رحمان و رحیم چاہتا ہے کہ جو لوگ اس فرصت سے فائدہ اٹھانا چاہیں وہ فائدہ اٹھا کر توبہ و اصلاح کرلیں اور انابت و رجوع الی اللہ کے ذریعے اپنی دنیا و آخرت سنوار لیں اور ہمیشہ کے عذاب اور دائمی رسوائی سے بچ جائیں۔ مگر یہ عقل کے اندھے اور مت کے مارے ایسے بدبخت ہیں کہ اس فرصت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں اور عافیت کی بجائے عذاب مانگتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ زیغ وضلال کی ہر شکل سے محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top