Tafseer-al-Kitaab - Al-Anbiyaa : 37
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ
خُلِقَ : پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان مِنْ : سے عَجَلٍ : جلدی (جلد باز) سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں دکھاتا ہوں تمہیں اٰيٰتِيْ : اپنی نشانیاں فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ : تم جلدی نہ کرو
انسان کی سرشت میں جلدبازی ہے۔ ہم عنقریب تمہیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائے دیتے ہیں تو ہم سے جلدی نہ مچاؤ۔
[26] یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر انسان کی طبیعت میں جلد بازی ہے تو قرآن اس خاصے کی مذمت نہیں کرتا کیونکہ اس کے نزدیک فطرت انسانی کا کوئی خاصہ بھی برائی کے لئے نہیں ہے۔ چناچہ سورة التین میں فرمایا ( لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ۝ۡ) 95 ۔ التین :4) (ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا) چناچہ ضروری تھا کہ اس کی طبیعت میں جلدبازی بھی ہوتی جو اس کے اندر سعی عمل کا فوری ولولہ پیدا کرتی اور اس کی ساری سرگرمیوں کے لئے محرک کا کام دیتی۔ لیکن طبیعت کے اور خواص کی طرح یہاں بھی ٹھوکر اصل خاصے کے تقاضے میں نہیں لگتی ہے بلکہ اس کے بےمحل اور بےاعتدالانہ استعمال میں لگتی ہے۔ اسے جہاں صبر کرنا چاہئے وہاں بےصبری کرنے لگتا ہے اور جب فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے تو بےدھڑک فیصلہ کردیتا ہے۔ [27] یہاں نشانیوں سے مراد قیامت اور جہنم کا عذاب ہے جیسا کہ بعد کی آیات سے واضح ہے۔ [28] کافر قیامت اور دوزخ کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ شخص (یعنی محمد ﷺ آئے دن ہمیں دھمکیاں دیتا ہے کہ اگر تم میرا انکار کرو گے تو تم پر عذاب الٰہی نازل ہوگا اور قیامت میں تم جہنم میں جھونکے جاؤ گے۔ مگر ہمارے مسلسل انکار کے باوجود نہ کوئی عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے نہ قیامت ہی ٹوٹی پڑتی ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ گھبراؤ نہیں عذاب اپنے وقت پر آئے گا اور قیامت بھی اپنے وقت پر نازل ہوگی۔
Top