Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 37
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ
خُلِقَ : پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان مِنْ : سے عَجَلٍ : جلدی (جلد باز) سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں دکھاتا ہوں تمہیں اٰيٰتِيْ : اپنی نشانیاں فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ : تم جلدی نہ کرو
انسان کی خلقت ہی جلدی (کے خمیر) سے ہوئی ہے،51۔ ہم عنقریب تم کو اپنی نشانیاں دکھادیں گے سو تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ،52۔
51۔ انسان سے مراد کافر قسم کا انسان ہے جس کا ذکر ہورہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس قسم کا انسان کچھ ایسا جلد باز ہوتا ہے کہ گویا عجلت پسندی اس کے اجزاء عنصری اور ہئیت ترکیبی میں شامل ہے۔ آج کل کے دہریے اپنے کو سوشلسٹ، کمیونسٹ، وغیرہ کے مختلف ناموں سے سے یاد کرنے والے نیم دہریے جن کا حق تعالیٰ کے وجود پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ کیسا قادر مطلق ومنصف مزاج خدا ہے جو ظالم پر فی الفور کیوں نہیں کرتا اور قاتل کو معا مقتول کے وارثوں کی گرفت میں کیوں نہیں دے دیتا۔ ان کی ذہنیت بھی ٹھیک اس کلیہ کے ماتحت ہوجاتی ہے۔ مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ طریق تصوف میں اکثر تشویشات اسی عجلت پسندی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ 52۔ قدرت کا، قہر کا ہر نشان اپنے وقت پر قانون حکمت کے ماتحت ظاہر ہو کر رہے گا۔ خود کسی عذاب کی فوری آمد مطالبہ کرتے رہنا حماقت محض ہے۔
Top