Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 37
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ
خُلِقَ : پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان مِنْ : سے عَجَلٍ : جلدی (جلد باز) سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں دکھاتا ہوں تمہیں اٰيٰتِيْ : اپنی نشانیاں فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ : تم جلدی نہ کرو
انسان کو جلدی کے خمیر سے پیدا کیا گیا ہے تو میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھائوں گا، سو تم مجھ سے جلدی کا مطالبہ نہ کرو۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط سَاُوْرِیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوْنِ ۔ وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ (الانبیاء : 37، 38) (انسان کو جلدی کے خمیر سے پیدا کیا گیا ہے تو میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھائوں گا، سو تم مجھ سے جلدی کا مطالبہ نہ کرو۔ اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو۔ ) کسی چیز کو اس کے مقررہ وقت سے پہلے طلب کرنے کو عجلت کہتے ہیں۔ (روح البیان) مشکل الفاظ کی تشریح خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ” انسان کو جلدبازی سے پیدا کیا گیا ہے۔ “ یہ عربی زبان کا محاورہ ہے۔ جب کسی وصف کے بارے میں یہ کہنا ہو کہ وہ فلاں میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے تو اس کے متعلق کہتے ہیں کہ فلاں شخص اس وصف سے پیدا ہوا ہے۔ مثلاً کوئی شخص بہت غصیل ہے تو کہتے ہیں کہ خلق من غضب اور اگر کوئی شخص بہت کریم ہے تو کہیں گے خلق من کرممطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ وصف اس میں بہت زیادہ ہے۔ اردو زبان میں بھی جب کسی کے بارے میں یہ کہنا ہو کہ وہ طلاقتِ لسانی میں کمال رکھتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ حرفوں کا بنا ہوا ہے۔ عذاب کے لیے جلد بازی کا جواب جلد بازی انسان کی کمزوریوں میں سے ہے۔ اس لیے عرب اسے ام الندامات کہتے ہیں اور قرآن کریم نے بعض جگہ اس پر گرفت بھی فرمائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اچھے لوگوں کی جلد بازیاں اچھائی کے نتائج دیکھنے میں ہوتی ہیں اور برے لوگ برائی کے ظہور میں جلد باز ہوتے ہیں۔ اس کی شناعت میں متعلق بدل جانے سے کمی بیشی ہوتی ہے لیکن اصولی طور پر عجلت بجائے خود نامحمود سمجھی جاتی ہے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں اشرافِ قریش کے اسی مکروہ طرز عمل کا ذکر جاری ہے جس کا تذکرہ ہم نے گزشتہ آیات میں پڑھا ہے۔ وہ اپنی جلدبازی کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ کہتے تھے کہ آپ ہمیں جس عذاب یا قیامت سے ڈراتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ عذاب کسی وقت بھی آسکتا ہے تو آخر وہ عذاب آتا کیوں نہیں ؟ ہمارے طرز عمل میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہم تو اسی طرح دندناتے پھر رہے ہیں تو پھر عذاب میں تاخیر کا سبب کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ان لوگوں کا یہ کہنا، ان کی کسی فکری کاوش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اسی کمزوری کا اظہار ہے جو نا تربیت یافتہ لوگوں سے ہمیشہ ظہور پذیر ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ ہاتھوں پر سرسوں جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول ان کی ہدایت اور اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔ اس کی شب و روز کوشش اس کے سوا کچھ نہیں کہ کسی طرح یہ لوگ ان بنیادی حقائق کو سمجھ جائیں اور قبول کرلیں جن پر ان کی دنیوی اور اخروی کامیابیوں کا انحصار ہے۔ وہ اسی مقصد کے لیے ان کے ہاتھوں دکھ اٹھا رہا ہے، اذیتیں برداشت کررہا ہے، ان کی بےروک زبانوں کے زخم سہ رہا ہے اور ساتھ ساتھ انھیں تنبیہ بھی کررہا ہے کہ تم جس راستے پر بڑھتے چلے جارہے ہو وہ تو تباہی کا راستہ ہے۔ اولاً تو دنیا ہی میں تمہارے اس رویئے کی پاداش میں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوسکتا ہے اور اگر پروردگار نے تمہاری ڈھیل میں اضافہ کیے رکھا تو اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ قیامت کے دن تمہیں سخت جوابدہی سے گزرنا ہوگا۔ تو مشرکینِ مکہ بجائے اس کے کہ اس تاخیر کو اپنے لیے رحمت سمجھیں اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں وہ آنحضرت ﷺ کے لیے اسی تاخیر کو استہزاء کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اور بار بار عذاب کا مطالبہ اس طرح کر رہے ہیں جس طرح قرض کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اگر تم عذاب کی کچھ نشانیاں ہی دیکھنے پر مصر ہو تو پھر تمہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا چند سالوں کی بات ہے کہ تمہارے سامنے چند نشانیوں کا ظہور ضرور ہوگا۔ چناچہ قیام مکہ کے دور میں بارشوں کا روک دینا اور قحط سالی مسلط کردینا یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور پھر ہجرت کے ایک سال بعد ہی جنگ بدر میں قریش کی پہلی صف کا تہِ تیغ ہوجانا اور دوسری صف کا گرفتار ہوجانا اور اس طرح سے قریش کی قیادت کا خاتمہ بجائے خود اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تھیں جسے ہر چشم بینا دیکھ سکتی تھی لیکن مشرکین کا رویہ وہی رہا جو اس سے پہلے تھا۔ وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مطالبہ کرتے رہے جب تک فتح مکہ سے ان کی کمر توڑ نہیں دی گئی۔
Top