Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 37
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ
خُلِقَ : پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان مِنْ : سے عَجَلٍ : جلدی (جلد باز) سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں دکھاتا ہوں تمہیں اٰيٰتِيْ : اپنی نشانیاں فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ : تم جلدی نہ کرو
آدمی کی سرشت ہی میں جلد بازی ہے ، اچھا عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دیں گے ، اتنی جلدی نہ کرو
جلدی ‘ جلدی ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ انسان کی سرشت میں جلدی رکھ دی گئی ہے ؟ 37۔ زیر نظر آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ انسان کی تخلیق کے اندر جلدی ‘ جلدی کا مادہ رکھ دیا گیا ہے اور اس جلدی کے باعث وہ نت نئی ترقیاں کررہا ہے اس لحاظ سے یہ طبعی جلدی کوئی بری بات نہیں لیکن تاہم عقل وفکر سے کام لے کر اتنا سوچنا تو اس کا حق ہے کہ کس چیز میں جلدی کر رہا ہے ؟ اگر کام خیر کا ہے تو بلاشبہ جلدی اس کے حق میں بہت درست ہے لیکن اگر بات برائی کی ہے تو جلدی جلدی میں اپنا نقصان کر بیٹھے گا جو مفید ہونے کی بجائے اس کے لئے مضر ثابت ہوگا اندریں صورت اپنی طبیعت پر کنٹرول کرکے اتنا سوچ لینا کہ جس معاملہ میں جلدی کی جا رہی ہے اتنی جلدی اس میں مناسب ہے یا نہیں ؟ پھر اگر کام خیر کا ہے تو جتنا جلدی ہوگا بہتر اور بات دوسری ہے تو کانے کی بجائے انگلی کو قلم کردینا تو بہرحال نقصان کا باعث ہے کانے کا انتظار کرنا ہے مفید مطلب ہوگا اور یہی بات زیر نظر آیت میں سمجھائی جا رہی ہے ، قرآن کریم نے جا بجا انسانی طبیعت کے اس خاصہ کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی خواہشوں ‘ رائیوں اور اقدام عمل میں جلد باز واقع ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا گیا ہے کہ جن نتائج کے ظہور کی خبر دی جارہی ہے وہ عنقریب ظاہر ہونے والے ہیں لیکن یہ منکر شور مچا رہے ہیں کہ فورا ظاہر کیوں نہیں ہوجاتے ؟ اچھا تھوڑا سا انتظار اور کریں بہت جلد سامنے آجائیں گے ۔ قبل ازیں اشارہ کیا جا چکا ہے اور اب پھر یہی گزارش ہے کہ انسانی طبیعت میں جلد بازی ہے تو قرآن کریم نے اسی خاصہ کی مذمت نہیں کی کیونکہ اس کے نزدیک فطرت انسانی کا کوئی خاصہ بھی فی نفسہ برائی کے لئے نہیں ہے ۔ انسان جب احسن تقویم پر پیدا کیا گیا تھا تو ضروری تھا کہ اس میں جلد بازی ہوتی جو اس کے اندر سعی وعمل کا فوری ولولہ پیدا کرتی اور اس کی ساری سرگرمیوں کے لئے ایک محرک کا کام دیتی چناچہ ایسا ہی ہوا لیکن خواص طبیعت کے ہر گوشہ کی طرح یہاں بھی اسے ٹھوکر اصل خاصہ کے تقاضہ میں نہیں لگتی بلکہ اس کے بےمحل اور بےاعتدالانہ استعمال میں لگتی ہے ۔ اسے جہاں صبر کرنا چاہئے وہاں بےصبری کرنے لگتا ہے اور جب فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے تو بےدھڑک فیصلہ کردیتا ہے ، پس قرآن کریم انسان کی ہر گمراہی کی طرح اس گمراہی میں بھی سوء استعمال کی مذمت کرتا ہے نہ کہ طبیعت اور خواص طبیعت کی ۔
Top